سوشل میڈیا پران دنوں اے سی سی اے کے فنڈامینٹلز کے
امتحان ’’فنانشنل رپورٹنگ‘‘ میں دنیا بھر میں ٹاپ کرنے والی زارا نعیم کی
ذہانت اور کامیابی پر بحث جاری ہے۔زارا نعیم ڈار کسی کے ساتھ اپنا موازنہ
کرنے کی حامی نہیں۔ان کا خیال اس کے برعکس ہے۔179ممالک کے 5لاکھ27ہزار
طلباء و طالبات میں سب سے زیادہ 96فیصد نمبرات حاصل کرنے والی زاراکہتی ہیں
کہ وہ قوم کی شکرگزار ہیں کہ جب سے ان کے ٹاپ کرنے کی خبر آئی ہے انہیں ہر
جانب سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ ’’میری توجہ اس بات پر ہے
کہ لوگ میری کامیابی کو بہت زیادہ سراہ رہے ہیں اور یہ پیغام پھیل رہا ہے۔
میں اس پر بہت زیادہ خوش ہوں۔ جب پتہ چلا کہ میں نے ٹاپ کیا ہے تو یقین
نہیں آ رہا تھا کہ میں نے دنیا بھر میں ٹاپ کیا ہے۔ واقعی مجھے بہت خوشی
اور ’اکسائٹمنٹ‘ تھی اس بات کی۔‘‘
پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کی بیٹی زارا کو اکاؤنٹنگ بہت پسند ہے،
اسی لیے انہوں نے اے سی سی اے کا انتخاب کیا۔یہ بھی ثابت کیا کہ میڈیکل یا
انجیئرنگ کے علاوہ بھی دیگر لا تعداد شعبہ جات ہیں جن میں نئی نسل آگے آ
سکتی ہے۔ فوکس اور محنت سے زرا کی طرح ہر کوئی بھی اپنا لوہا منوا سکتا
ہے۔انہوں نے تسلیم کیا کہ جب انہوں نے اکاؤنٹنگ شروع کی تو شروع میں بعض
مسائل کا سامنا تھا۔ بقول ان کے ’’اکثر لوگوں کا اکاؤنٹنگ کے بارے میں یہی
تجربہ ہے ۔ جب ان سے اکاؤنٹنگ نہیں ہوتی تو وہ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ مجھے بھی
اس میں کچھ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ لیکن مجھے یہ مضمون بہت پسند تھا، اس لئے میں نے اے سی سی اے کا انتخاب
کیا۔‘‘
تعلیم میں بعض بنیادی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔ سب سے پہلے اپنی دلچسپی اور
پسند کے مطابق مضامین کا انتخاب، والدین کی توجہ،نگرانی اور تعاون، اساتذہ
کی رہنمائی، کلاس فیلوز کی حوصلہ افزائی اور سب سے بڑھ کر 24گھنٹے میں کم
از کم دو سے چار گھنٹے تعلیم پر فوکس۔زارا فارغ وقت میں اکیلے رہنا پسند
کرتی ہیں۔ ان کے بقول وہ زیادہ سوشل نہیں ہیں اور ان کا دوستوں کا ایک
محدود حلقہ ہے۔ بقول ان کے ’’ایسا نہیں ہے کہ اکاؤنٹنگ بالکل تنہا رہنے
والے لوگوں کا مضمون ہے، اس کے ساتھ ساتھ آپ زندگی بھی جی سکتے ہیں۔‘‘
انہیں سیر و سیاحت کا بہت شوق ہے۔ ’’ڈرائنگ، سکیچنگ، میک اپ، کھانا پکانے
کا مجھے بہت شوق ہے۔ میرے شوق بہت متنوع ہیں۔‘‘
زارا نے کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن میں آن لائن کلاسز میں شرکت کی۔اگر
چہ گھر رہ کر انسان کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عالمی وبا نے ’’جیسے سب کو
متاثر کیا تھا، مجھے بھی کیا تھا۔‘‘وبا کے دوران پڑھائی اور اے سی سی اے کے
امتحان کے لیے تیاری کے دوران مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس
دوران ’’آن لائن کلاسز تھیں۔ دن میں تین سے چار گھنٹے کی کلاسیں ہوتی تھیں۔
آنکھوں پر زور پڑتا تھا، سر میں درد رہتا تھا اور فوکس نہیں ہو پاتا تھا۔‘‘
ان کے بقول اس دوران کلاس کا ماحول نہیں مل رہا ہوتا۔ ان کے استاد بہت اچھے
تھے۔ اس لیے انہوں نے ایسی کامیابی سمیٹی۔
پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طالب علم انٹرنیٹ کے ذریعے تدریسی عمل کے
رائج نظام کوبہتر طریقہ نہیں سمجھتے۔ وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)
سے مطالبہ کررہے ہیں کہ آن لائن کلاسز کو ختم کیا جائے۔انہوں نے اسلام آباد
میں اعلیٰ تعلیم کے نگران ادارے ایچ ای سی کے دفتر کے سامنے احتجاجی کیمپ
بھی لگایا۔جس پروائس چانسلرز کمیٹی کے سربراہ محمد علی شاہ نے کہا کہ آن
لائن کلاسز اور امتحانات میں مسائل ضرور آ رہے ہیں، لیکن کوشش ہے کہ اس عمل
سے طلبا ء متاثر نہ ہوں۔احتجاجی طلبا نے یونیورسٹیوں کی جانب سے بے جا فیس
کے تقاضے پر ایچ ای سی کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ جب کیمپس
سہولیات بند ہیں تو طلبا سے ٹیوشن فیس کے علاوہ دیگر مد میں ادائیگیاں کیوں
لی جا رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹ،ہاسٹل، لائبریری وغیرہ کی مد میں اضافی فیسیں
وصول نہیں کی جانی چائیں۔ آن لائن کلاسز کی حقیقی پالیسی نافذ کر کے طلباء
کو تعلیم سے مستفید کیا جائے۔ جن علاقوں میں انٹرنیٹ کی دستیابی کے مسائل
ہیں، ان طلبا کو بھی تعلیم سے محروم نہ رکھا جائے گا۔
آن لائن تعلیم اور امتحانات پر طلبا کے احتجاج کے بارے میں زارا کا کہنا ہے
’’کلاسز کا مقصد تو آپ کو سکھانا ہے۔ جو آپ کا امتحان لینا ہے وہ چاہے آپ
سے آن لائن لیں یا سینٹر میں بٹھا کر ۔ اس سے فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ میں نے
بھی سینٹر میں جا کر امتحان دیا تھا۔‘‘اگر انٹرنیٹ سہولیات ہوں تو آن لائن
تعلیم بہترین زریعہ ہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں زارا کا کہناہے کہ وہ
اکاؤنٹیسی میں ہی ترقی کرنا چاہتی ہیں۔ بقول ان کے، اسی شعبے میں تجربہ
حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی فرم کھولنا چاہتی ہیں۔پاکستان میں اکاونٹیسی کے
شعبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اب عام ہوتا جا رہا ہے۔ بقول ان کے
’’مجھے امید ہے کہ وقت کے ساتھ اس شعبے میں مزید ملازمتیں بڑھ جائیں‘‘۔
|