میری والدہ کو مجھے اٹھا کر چلنا پڑتا کیونکہ میں کسی سبزی کی طرح جم جاتی-- نو سال کی بچی جو تیل کی کمپنی کے خلاف مقدمہ جیت گئی

image
 
جب لاس اینجلس میں لاطینی برادری نے اپنے علاقے کو مبینہ طور پر آلودہ کرنے والی ایک آئل کمپنی کے خلاف اپنی لڑائی شروع کی تو اس میں مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی نے ادا کیا تھا۔
 
نلیلی کوبو نو سال کی تھیں جب انھیں دمے، ناک سے خون آنے اور سر درد کی شکایت شروع ہوئی۔ یہ جنوبی لاس اینجلس میں ان کے گھر کے سامنے ایک تیل کے فعال کنویں کے خلاف جنگ کی شروعات تھی۔
 
نلیلی اور ان کی والدہ کو جلد معلوم ہوا کہ ان کے کچھ پڑوسی بھی بیمار پڑ رہے تھے۔
 
اکثریتی طور پر کم آمدنی کی حامل مقامی آبادی کے احتجاج پر یہ سائٹ عارضی طور پر بند کر دی گئی۔
 
کوبو یہاں ہی نہیں رکیں۔ انھوں نے نوجوان سماجی کارکنوں اور تنظیموں کے ساتھ مل کر شہری انتظامیہ پر مقدمہ کیا کہ وہ تیل نکالنے کے حوالے سے مزید ضوابط تیار کرے۔ اور وہ جیت گئیں۔
 
ایلنکو نامی کمپنی اور اس سائٹ کے انتظام کے خلاف ایک فوجداری مقدمہ اس ماہ دوبارہ شروع ہو گا۔ کمپنی نے اس سٹوری کے لیے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے مگر انھوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ انھوں نے ضوابط کی پاسداری کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔
 
اس لڑکی کا موازنہ اب ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سے کیا جا رہا ہے حالانکہ ان کا نام ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے مقامی طور پر جانا جاتا تھا۔
 
کوبو نے سنہ 2020 کے اوائل میں 19 سال کی عمر میں کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد اپنی سماجی سرگرمیاں روک دی تھیں۔
 
ان کے ڈاکٹروں کو نہیں معلوم کہ وہ کیوں بیمار پڑی ہیں۔ تین سرجریز اور علاج کے بعد اب انھیں حال ہی میں کینسر سے صحتیاب قرار دیا گیا ہے۔
 
image
 
یہ اُن کی کہانی ہے۔
میں جنوبی مرکزی لاس اینجلس میں یونیورسٹی پارک میں پلی بڑھی۔ یہاں سے سڑک پار 30 فٹ دور ہی ایلنکو کا ایک تیل کا کنواں تھا، جو 2009 سے ان کے پاس تھا۔
 
میں اپنی ماں، تین بہن بھائیوں، اپنی نانی، پرنانی اور پرنانا کے ساتھ ایک ہی اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ میرے سمیت ہم آٹھ لوگ تھے۔ میری والدہ میکسیکو سے ہیں اور میرے والد کولمبیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب میں دو سال کی تھی تو انھیں ملک بدر کر دیا گیا تھا اور میری والدہ نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا۔
 
یہ سنہ 2010 کی بات ہے۔ میں نو سال کی تھی۔ اچانک مجھے پیٹ میں درد اور متلی کی شکایت ہونے لگی۔ کبھی کبھی میرے جسم میں اتنی اکڑن پیدا ہو جاتی کہ میں چل بھی نہ پاتی اور میری والدہ کو مجھے اٹھا کر چلنا پڑتا کیونکہ میں کسی سبزی کی طرح جم جاتی تھی۔
 
میری ناک سے اتنا خون بہا کرتا کہ مجھے بیٹھ کر سونا پڑتا تاکہ خون سے میرا دم نہ گھٹ جائے۔
 
ایک خاموش قاتل مجھے میرے گھر میں ہی زہر دے رہا تھا۔ یہ بہت عجیب تھا کہ صرف میری صحت نہیں بلکہ ہر کسی کی صحت مختلف انداز میں متاثر ہو رہی تھی۔
 
میری والدہ کو 40 سال کی عمر میں دمہ ہوا جو بہت غیر معمولی بات ہے۔ میری نانی کو 70 سال کی عمر میں دمہ ہوا جو کہ اس سے بھی زیادہ غیر معمولی بات ہے۔ میری بہن میں رحم کے گرد رسولیاں پیدا ہونے لگیں، میرے بھائی کو دمہ تھا، ہر کسی کو کوئی نہ کوئی طبی مسئلہ لاحق تھا۔
 
مگر بات صرف ہمارے گھر تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ ہماری آبادی کے زیادہ تر لوگوں کا مسئلہ تھا۔ ہماری ماؤں نے ایک دوسرے سے بات کرنی شروع کی اور بات پھیل گئی کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
 
ہم ہوا میں اس کی بو سونگھ سکتے تھے۔ اس کی بو سڑے ہوئے انڈوں جیسی تھی اور جب یہ آپ کے گھر میں آ جاتی تو پھر جاتی نہیں تھی چاہے آپ کھڑکیاں بند کر لیتے، پنکھے چلا دیتے، یا کھڑکیوں میں ایئر پیوریفائر لگا دیتے۔
 
image
 
کبھی کبھی اس کی بو امرود یا چاکلیٹ جیسی ہوتی۔ یہ مصنوعی بو تھیں۔ شروعات میں ہم نے پتا لگانے کی کوشش کی کہ کہیں بلڈنگ میں سے کچھ لیک تو نہیں ہو رہا۔ پھر ہمیں زہر کے ماہرین کا ایک گروپ ملا جنھوں نے ہمارے علاقے میں آ کر لوگوں سے بات کی۔
 
اُنھوں نے بتایا کہ تیل نکالنے کے لیے کچھ کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں اور اگر انسانی جسم ان سے ہونے والے اخراج سے اگر طویل عرصے تک رابطے میں آتا رہے تو اس سے انسانی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
 
اس وقت ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ سڑک پار موجود تیل کے کنویں کی وجہ سے ہو رہا تھا چنانچہ ہم نے اپنے لوگوں کو منظم کرنا شروع کیا اور ایک مہم ’انسان، نہ کہ تیل کے کنویں‘ کا آغاز کیا۔
 
ہم نے ساؤتھ کوسٹ ایئر کوالٹی مینیجمنٹ ڈسٹرکٹ میں شکایت درج کروائی اور پھر ہم نے لوگوں کے دروازے بجائے کہ کیا وہ سٹی ہال میں ہونے والی سماعت میں اپنی کہانیاں سنانا چاہیں گے؟
 
ہمیں یہ دیکھ کر اتنا خوشگوار احساس ہوا کہ یہ لاطینی برادری، سیاہ فام اور گندمی رنگت والی تارکِ وطن کمیونٹی جس کے بارے میں کسی کو کوئی فکر نہیں تھی، یکجا ہو کر سٹی ہال میں آنے لگے تاکہ اپنی آواز حکام تک پہنچا سکیں۔
 
image
 
 
وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں اپنی کہانی سنا سکتی ہوں اور میں اپنے چھوٹے چھوٹے نوٹس استعمال کر کے بات کرتی۔ میں ہمیشہ انتہائی شرمیلی ہوتی تھی مگر مجھے لوگوں کے سامنے بات کرنے میں پریشانی نہیں ہوتی تھی۔
 
لاس اینجلس ٹائمز نے ہمارے بارے میں ایک سٹوری لکھی اور اس نے کیلیفورنیا سے سابق سینیٹر باربرا باکسر کی توجہ حاصل کی۔
 
پریس کانفرنس میں باربرا ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) سے تفتیش کاروں کو لے آئیں اور وہ چیک کرنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ وہ وہاں کچھ ہی منٹ رکے کیوںکہ بو سے ان کی طبعیت خراب ہونے لگی تھی۔
 
مقامی اور وفاقی تحقیقات کے بعد ایلنکو نے عارضی طور پر یہ سائٹ بند کرنے کی حامی بھر لی۔
 
لاس اینجلس کی شہری حکومت نے کمپنی پر مقدمہ کیا اور سنہ 2016 میں عدالت نے حکم دیا کہ اگر ایلنکو ڈرلنگ دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے تو اسے سخت ضوابط کی پاسداری کرنی ہو گی۔
 
جب اس کا اعلان ہوا تو ہم بہت خوش تھے مگر اس میں کافی وقت لگا تھا۔ ہم نے 2010 میں مہم شروع کی تھی اور یہ 2013 میں بند ہوا اور اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ مستقل طور پر بند ہو جائے۔
 
جب ہم نے مہم شروع کی تو ہم نے پایا کہ متاثر ہونے والی آبادیوں میں صرف ہم ہی شامل نہیں تھے بلکہ لاس اینجلس کے پانچ لاکھ 80 ہزار مزید افراد تیل اور گیس کے ایک فعال کنویں کے چوتھائی میل کے اندر رہتے تھے جو زیادہ تر کم آمدنی والے طبقات ہیں۔
 
جب بھی میں کہیں بات کرنے جاتی ہوں اور کہتی ہوں کہ میں لاس اینجلس سے ہوں، لوگ کہتے ہیں: او! یہ شاندار ہے، واک آف فیم، ہالی ووڈ، مشہور شخصیات۔‘
 
ٹھیک ہے لیکن لاس اینجلس ملک میں شہری تیل کی سب سے بڑی فیلڈ ہے اور ہم اس بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔
 
image
 
میں ساؤتھ سینٹرل یوتھ لیڈرشپ اتحاد کے بانیوں میں سے ایک ہوں اور دیگر تنظیموں کے ساتھ ہم نے سنہ 2015 میں کیلیفورنیا کے ماحولیاتی کوالٹی ایکٹ کی خلاف ورزی پر لاس اینجلس شہر پر مقدمہ کیا۔
 
ہم جیت گئے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کنویں کھولنے یا پھیلانے ہوتے ہیں تو اس کے لیے اب درخواست کا ایک نیا طریقہ کار ہے۔
 
اگرچہ میں یونیورسٹی پارک سے نکل آئی ہوں لیکن میں تیل کے کنوؤں اور سکولوں، ہسپتالوں اور پارکوں کے مابین 2500 فٹ کا صحت اور حفاظت کا بفر زون قائم کرنے کی مہم چلا رہی ہوں۔
 
اس کے ساتھ ساتھ میں ایک نارمل بچی ہوں۔ مجھے میک اپ کا بہت شوق ہے، میں ڈانسر ہوں، مجھے سیر و سیاحت کا شوق ہے اور میں کالج میں ہوں۔
 
واحد چیز جو مجھے مختلف بناتی ہے وہ یہ کہ مجھے اپنے جذبے کے بارے میں بہت پہلے پتا چلا گیا۔
 
15 جنوری 2020 کو مجھ میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ کچھ وقت کے لیے میں اس بارے میں خاموش ہو گئی کیونکہ یہ ایک بہت خوفناک چیز ہے۔ کینسر لفظ ہی کچھ ایسا ہے جسے آپ کبھی بھی کم عمری میں نہیں سننا چاہتے۔
 
image
 
میرے والدہ اور میں میڈیکل اخراجات کے بارے میں پریشان تھے کیونکہ میری سرجری ہونا تھی لیکن ہم خوش قسمت تھے کہ فنڈ جمع کرنے کی ایک مہم کے دوران ہم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔
 
جسمانی اور جذباتی طور پر سب سے مشکل کام ہسٹریکٹومی تھا۔ مجھے بستر سے نکلنے میں چھ ہفتے لگ گئے۔ چھ ہفتے تک میری والدہ کو مجھے نہلانا پڑا اور مجھے درجنوں گولیاں کھانا پڑتی۔
 
میرے ڈاکٹر کو ابھی تک نہیں پتا کہ مجھے کینسر کیوں ہوا لیکن وہ ٹیسٹس کی بدولت سے بس اتنا جان سکے ہیں کہ یہ جینیاتی نہیں۔
 
میں نے انھیں بتایا کہ میں کہاں پلی بڑھی ہوں اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ماحولیاتی ٹیسٹ ہو سکتا ہے، جو مجھے کرانا چاہیے۔
 
انھوں نے کہا جب تک ہمارے پاس کوئی نئی سائنس نہیں آ جاتی میں صرف ایک سوالیہ نشان ہوں۔
 
میں حال ہی میں 18 جنوری کو کینسر سے مکمل صحت یاب ہوئی ہوں اور میں اس بارے میں بہت خوش اور پرجوش محسوس کرتی ہوں۔
 
میں شہری حقوق کے وکیل کی حیثیت سے اپنے کریئر کو آگے بڑھانا چاہتی ہوں اور اس کے بعد سیاست میں جانا چاہتی ہوں۔ ماحولیاتی انصاف کی میری تعریف یہ ہے کہ اپنی عمر، جنس، نسل اور معاشرتی معاشی حیثیت کے باوجود میں صاف ہوا میں سانس لینے کی صلاحیت رکھوں۔
 
image
 
یہ لڑنا اور اپنی برادری اور گھر کی حفاظت کرنا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: