"پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں “ عمران خان کے کتنے وعدے جو پورے ہوگئے

image
 
وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت اقتدار حاصل کرنے کے لیے پچھلے بائیس سال سیاسی جدوجہد کررہی تھی، اور اب ناصرف اقتدار حاصل کرچکی ہے بلکہ حکومت میں ڈھائی سال بھی خیروعافیت سے گزار چکی ہے۔ وزیرِاعظم بننے سے پہلے عمران خان نے عہد کیا تھا کہ وہ ملک کے اندر تمام مسائل کا خاتمہ کردیں گے۔ عوام نے بھی بھاری ووٹوں سے عمران خان کو وزیرِاعظم بنا کر ثابت کیا کہ وہ عمران خان کی قیادت پر پورا بھروسہ کرتے ہیں۔ جو تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے تین سال پہلے تک سہانا خواب لگتے تھے، آج ایک دل دکھانے والے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ وعدے جو عمران خان نے وزیرِاعظم بننے سے پہلے عوام سے کیے تھے اور جن وعدوں پر بھروسہ کرکے عوام نے تبدیلی سرکار کو ووٹوں سے نوازا تھا وہ صرف ریت کا ڈھیر ہی ثابت ہوئے۔ یوں تو عمران خان نے وزیرِاعظم بننے سے پہلے عوام کو کافی سبز باغ دکھائے تھے اور صرف سو دنوں میں ہی ملک کی کایا پلٹنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب تقریباً ڈھائی برس گزر جانے کے بعد آج ہم صرف ان پانچ نعروں کے ذریعے تحریکِ انصاف کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے جو عوام میں کافی مقبول تھے اور جو شہریوں سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔
 
1. ایک کروڑ نوکریاں
ایسا لگتا ہے جیسے عوام کے دکھوں اور آنسوؤں کا مذاق اڑایا جارہا ہو۔ ایک کروڑ نوکریاں تو کیا دی گئیں بلکہ جو لوگ کسی نہ کسی طرح روزگار کما رہے تھے انھیں بھی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ گزشتہ سال حکومت نے اسٹیل مل کے تقریباً پانچ ہزار ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا جن میں سے ایک ملازم نوکری سے نکالے جانے کی خبر سن کر دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود حکومت سو نوکریوں کے ذرائع بھی پیدا نہیں کرسکی بلکہ نوکریوں کے بجائے وزیرِاعظم عوام کو مرغیاں اور انڈے رکھنے کا منصوبہ بتاتے نظر آتے ہیں۔
image
 
2. بجلی اور گیس کی قیمت کو کم کیا جائے گا
پہلے وزیرِاعظم صاحب فرماتے تھے کہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں تو سمجھ جائیں کہ حکومت کرپٹ ہے لیکن اب روزانہ کے حساب سے ہم ان چیزوں میں قیمتوں کا بڑھنا سنتے ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھونا کم سے کم اب پاکستانیوں کے لئے صرف محاورہ نہیں رہا۔ ادارہ شماریات کی نومبر 2020 کی رپورٹ کے مطابق موجودہ دور حکومت میں بجلی 3 روپے 85 پیسے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 334 فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ قیمتوں میں اضافے کا بجلی اور گیس صارفین پر مجموعی طور پر 550 ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ ڈالا گیا تھا جس میں رواں برس وقتاً فوقتاً مزید اضافہ جاری ہے-
image
 
3۔ درختوں کا سونامی
عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ دس بلین درخت لگا کر درختوں کا سونامی لائیں گے اور ملک کو ہرا بھرا کریں گے۔ اس دعوے کو پورا کرنے کی کوشش تو کی گئی مگر غالباً اس کے لئے کوئی تحقیق نہیں کی گئی تھی کیونکہ پچھلے سال جب خیبر پختونخواہ میں درخت لگائے گئے تو اگلے ہی دن شہریوں نے یہ کہہ کر اکھاڑ پھینکے کہ وہ زمینیں ان کی ذاتی ملکیت ہے۔
image
 
4۔ مدینہ جیسی ریاست
یہ وعدہ تو کیا گیا تھا مگر وزیرِاعظم بننے کے بعد شاید عمران خان بھول گئے کہ مدینے کی ریاست کے خلیفہ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ“" اگر دریا فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اسکے کے لئے بھی میں جوابدہ ھوں " یہ تھی ریاستِ مدینہ جہاں ایک خلیفہ اپنی ریاست میں بسنے والے جانوروں کے لئے بھی محبت اور ذمہ داری کے جذبات رکھتا تھا جبکہ دوسری طرف وزیرِاعظم ہیں جنہوں نے سانحہ مچھ کے دوران متاثرین کے دکھ درد کو بانٹنے کے بجائے ترک اداکاروں سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔
image
 
5۔ تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لے گی
پاکستان جیسا ملک جس کی معیشت کا بڑا حصہ قرض اور بیرونی امداد سے چلتا ہو وہاں اگرچہ ایسا وعدہ کرنا خوش آئیند ہے لیکن اس کے لئے حکومت کا ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے کوئی مضبوط معاشی نظام متعارف کروانا ضروری ہے، جو کہ تحریکِ انصاف نے اقتدار کی جنگ لڑنے کے دوران نہیں کیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایف ہی نہیں بلکہ کئی ممالک سے بھی قرضے لینے پڑے۔ وزارت خزانہ نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2018 کے مالی سال کے آخر تک پاکستان کے قرضے 29.88 کھرب تھے جو 11.6کھرب روپے یعنی 39فیصد اضافے سے ستمبر 2019تک 41.49کھرب روپے تک پہنچ چکے تھے۔ جبکہ گزشتہ برس مارچ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے پچھلے پندرہ مہینوں میں حکومت کے قرضوں میں 36فیصد ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ بیرونی قرضے 105ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
image
 
اس کے علاوہ بھی بہت سے نعرے جیسے کہ پانچ لاکھ گھر بنانے کا وعدہ یا تعلیمی نظام میں بہتری، سرکاری اسپتالوں میں بہتری لانے کے وعدوں میں سے اب تک ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوسکا ہے۔ بلکہ وعدے یاد دلانے پر وزیرِاعظم صرف پچھلی حکومتوں کو ذمہ دار ٹہراتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپوزیشن سے الجھ کر وقت کیوں ضایع کررہی ہے؟ تحریکِ انصاف کی حکومت کی آدھی مدت تو یوٹرن لینے میں گزر چکی ہے امید ہے کہ باقی آدھی عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے میں گزرے گی تا کہ عوام “تبدیلی سرکار“ سے بدظن نہ ہوجائیں-
YOU MAY ALSO LIKE: