|
|
ایک وقت تھا جب کراچی میں الطاف حسین کا جلسہ ہو تو شہر کا شہر سنسان
ہوجایا کرتا تھا۔قربانی کی کھالیں تک خدمتِ خلق فاؤنڈیشن(ایم کیو ایم
کی این جی او) کو دی جاتی تھیں۔ سفید شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے الطاف
حسین اور ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں مہاجرین کے دلوں
کی آواز بن چکے تھے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں الطاف حسین
کا رعب و دبدہہ قصہ پارینہ بن گیا۔ ملک کی تیسری سب سے بڑی جماعت کا
اعزاز رکھنے والی سیاسی جماعت کا وجود اب اس شہر میں بھی خطرے میں پڑ
چکا ہے جوکبھی اس کا حقیقی گڑھ کہلاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود متحدہ
قومی موومنٹ کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور ایم کیو
ایم کے چاہنے والے آج بھی امید کرتے ہیں کہ کسی طرح ایم کیو ایم دوبارہ
وہی سیاسی مقام حاصل کر لے جو کبھی ماضی میں تھا۔ |
|
ایم کیو ایم کون چلا رہا ہے؟ |
ایم کیو ایم اس وقت دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس میں سے ایک حصے کی قیادت
آج بھی الطاف حسین لندن سے کررہے ہیں جبکہ دوسرے حصے کو خالد مقبول صدیقی
کراچی میں چلا رہے ہیں۔ الطاف حسین کے بار بار متنازعہ بیانات دینے پر
پاکستانی حکومت ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کرچکی ہے۔ اس کے
علاوہ لندن میں بھی ان پر کئی مقدمات چل رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کا
بھروسہ قائدِ تحریک سے ختم ہوچکا ہے۔جبکہ دوسرے حصے کی نمائندگی خالد مقبول
صدیقی کررہے ہیں جو کبھی متحدہ قومی موومنٹ کا ہی حصہ تھے۔ دوسرے حصے میں
شامل سیاسی کارکنان وہ ہیں جو خود کو الطاف حسین سے الگ کر چکے ہیں لیکن
نظریاتی طور پر متحدہ قومی موومنٹ کو آج بھی درست سمجھتے ہیں۔ اس وقت خالد
مقبول صدیقی کی ایم کیو ایم، حکومت سے بہت زیادہ اختلافات ہونے کے باوجود
وفاقی گورنمنٹ کا حصہ ہے۔ |
|
|
|
متحدہ قومی موومنٹ کا مستقبل |
عوام میں مقبولیت کھونے کے باوجود اگرچہ ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی جماعت
کو قائم رکھا ہوا ہے لیکن الطاف حسین سے علیحدہ ہونے کے بعد کوئی دواسرا
عومی لیڈر نہ ہونے کے سبب اس سیاسی جماعت کا مستقبل آج ایک سوالیہ نشان ہے۔
جبکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی کراچی سے لاپروائی برتنے کی وجہ سے عوام ابھی
بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کو طاقتور دیکھنا
چاہتے ہیں۔ یوں بھی نظریاتی سیاست ملک میں روشن خیالی اور برداشت کو فروغ
دیتی ہے اور سیاست کرنا شہریوں کا حق بھی ہے۔ |
|
|
|
اگر ایم کیو ایم اپنے مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو
کم سے کم کراچی میں تو اس کے لئے ابھی بھی سیاسی میدان خالی ہے۔ لیکن اس کے
لئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو ان تمام سرگرمیوں سے دوری اختیار کرنی ہوگی
جن کی وجہ سے ماضی میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی
جس میں بھتہ خوری، موبائل چھیننا، دکانیں بند کروانا اور آئے دن ہڑتالیں
کروا کر شہریوں میں دہشت پھیلانا شامل ہیں۔ سیاست اگر ذاتی کے بجائے عوامی
مفاد میں کی جائے تو کچھ بعید نہیں کہ ایم کیو ایم اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت
دوبارہ حاصل کر لے گی۔ فی الحال ایم کیو ایم کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو
ایم کیو ایم کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ |