نازک کلی

شہر کراچی کا موسم آج صبح سے نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا۔ وقفے وقفے سے بارش برس رہی تھی۔سیاہ بادل فلک کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ عنایہ کے گھر سے ملحق باغیچے کی بھیگی ہوئی گھاس ساتھ میں چنبیلی اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو باد نسیم کو مہکا رہی تھی۔ باغ کی فضا اتنی خوشگوار تھی کہ اس نے عنایہ کو اسکی زندگی کی ساری محرومیاں بھلا کر اڑتی ہوئی رنگ برنگی تتلیوں اور پرندوں کے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ باغ کے وسط میں بنی کینوپی کی چھتری تلے لگی میز کرسیاں آ ج بھی خالی تھیں۔ عنایہ کے کندھوں تک آ تے سنہری بالوں کے گرد خوبصورت تتلیاں اڑ رہی تھیں۔ درخت کے تنے سے ٹیک لگائے وہ اس شام خود کو اپنے خونی رشتوں کے ساتھ کے بغیر بھی تنہا محسوس نہیں کر رہی تھی۔

وہ جب کبھی باغ میں آ تی تو خالی کرسیاں دیکھ کر اسے ماں باپ اور چھوٹا بھائی بہت یاد آ تا، جو ایک سال قبل حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔انکی یادوں کے غم کی وجہ سے عنایہ باغ میں بہت کم جایا کرتی۔

آ ج ابر باراں کی رم جھم نے اسے نا چاہتے ہوئے بھی وہاں لا کھڑا کیا تھا۔لیکن آ ج اسے یہ احساس ہو رہا تھا کہ اللہ نے اسے اب بھی رحمتوں کے سائے میں رکھا ہوا ہے۔

باغ کی فضا میں کھڑی وہ بہت عرصے بعد خود کو پر سکون محسوس کر رہی تھی۔ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی آوازیں گویا اس سے ہی تو محو کلام تھیں۔وہ کیوں خود کو تنہا محسوس کر کے زندگی کے ہر قدم پر پیچھے ہو جاتی تھی۔وہ سوچوں میں گم تھی کہ وہ کیوں اپنے پیاروں کے جانے کے بعد دنیا سے کٹ کر رہ گئی۔ اللہ نے اسے تو زندگی جیسی نعمت دی ہے۔ ماں باپ کی دوری ہی تو اسے رب کے قریب لائی تھی۔ شاید یہی اس کا امتحان ہو۔

اس دن عنایہ نے سہانی شام کو گواہ بنا کر خود سے یہ عہد کیا تھا کہ جب اللہ نے اسے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں تو وہ گردشِ ایام میں خود کو نہیں روندے گی۔ اسے باغ کی حسین دنیا میں بہت سے دوست مل گیے تھے جو اسکی تنہائی میں بھی اسکے ساتھ موجود اس سے ہم کلام تھے۔

تتلیاں ہنوز اردگرد اڑ رہی تھیں۔اور وہ خوبصورت شام واقع اسکی زندگی بدلنے والی شام تھی۔
`ختم شد`
 

Fatima Aziz
About the Author: Fatima Aziz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.