قاسم کافی دیر سے چھت پہ کھڑا تھک چکا تھا ایک تو دھوپ
اسے جھلسائے دے رہی تھی اوپر سے بے چینی نے اس کا برا حال کئے رکھا تھا ،
کیونکہ نادیہ نے انتہائی گھبرائے ہوئے انداز میں اس سے فون پہ بات کی تھی
اور فوری طور پہ اپنی چھت پر آنے کاکہا تھا ، انتظار کے لمحات میں وہ اپنے
اور نادیہ کے تعلق کے بارے میں سوچنے لگا نادیہ محلَے کی سب سے حسین لڑکی
ہونے کے ساتھ ساتھ قریب کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لیبارٹری ٹیکنیشن کی
جاب کرتے ہوئے محلے کے لوگوں کی صحت کے مسائل میں ہمیشہ ہر ایک کی مدد کرنے
والی نادیہ محلے کے لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی،اور قاسم بچپن
میں والد کا سایہ سر سے اٹھنے اور اپنی ماں اور ذہنی معذور بہن کی ذمہ
داریاں نبھانے کے باوجود محلے کا واحد گریجوئیٹ تھا اور ایک فارماسیوٹیکل
کمپنی میں میڈیکل ریپ کی حیثیت سے کام کرنے کی وجہ سے ویسے ہی سب کی نظر
میں ایک الگ حیثیت رکھتا تھا پورے محلے میں وہ ان چند لوگوں میں شامل تھا
جن کے پاس اپنی موٹر سائیکل تھی اس کے علاوہ قاسم اور نادیہ کے گھروں کی
چھتیں بھی آپس میں ملتی تھیں اور بچپن کا ساتھ بھی ان تمام عوامل میں شامل
تھا جو ان دونوں کو قریب لانے کا باعث بنے، گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض
نہیں تھا لہٰذا دونوں کے گھر والوں نے مل کر ان کا نکاح کروا دیا رخصتی کے
لئے دو سال کا وقت رکھ لیا جب تک قاسم باقاعدہ طور پہ اپنے پیروں پر کھڑا
ہو جاتا، اب قاسم سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا انہونی ہو گئی کہ نادیہ نے اسے
فوری طور پہ ملنے کے لئے بلا لیا ، اتنے میں نادیہ اوپر آگئی اور آتے ہی
دبی آواز میں کہنے لگی قاسم وہی ہوا جس کا ڈر تھا میں امید سے ہوں ، قاسم
ایک مضبوط اعصاب کا حامل شخص تھا وقتی جھٹکے کو سہ گیا اور فوری طور پہ
مسکراتے ہوئے گویا ہوا، تو کیا ہوا ہم نے کوئی گناہ تھوڑا ہی کیا ہے،
منکوحہ ہیں آپ میری جانِ من اور باقی رہی اس مسئلے سے نمٹنے کی بات تو یہ
تو اچھا ہی ہو گیا آج آتے ہی امی کو تمہارے گھر بھیجتا ہوں اور جلد سے
جلد اب ہم باقاعدہ میاں اور بیوی بن جائیں گے، اور اب آپ اپنے گھر آہی
جائیں بہت انتظار کر لیا ہم نے آپ کانادیہ کا گھبرایا ہوا چہرہ قاسم کی
بات سن کر یکدم پر سکون ہو گیا اور گالوں پہ شرم کی لالی آگئی اور وہ بولی
قاسم تم واقعی ایک سچے ساتھی ہو تمام مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہو، قاسم نے
شرارت بھرے لہجے میں کہا کہ یعنی آپ اظہار محبت کر رہی ہیں اور اس کا ہاتھ
پکڑنے کی کوشش کی جو کہ نادیہ کے صفائی سے جل دینے کی وجہ سے کوشش ناتمام
ثابت ہوئی،اور نادیہ مسکراتے ہوئے واپس اپنی سیڑھیوں سے نیچے کی طرف بھاگ
گئی ۔
قاسم خوش تھا کیونکہ اس کے اور نادیہ کے درمیان اب کوئی خوف کی دیوار نہیں
تھی، اپنی امی سے جب اس نے بات کی فوری رخصتی کی تو وہ جہاندیدہ خاتون
معاملات کو سمجھ گئیں اور جا کر نادیہ کے گھر والوں کو بھی قائل کر لیا کہ
اگلے جمعہ کو ایک سادہ سی تقریب میں وہ نادیہ کو رخصت کر دیں ، جہیز کا
کوئی عمل دخل نہیں تھا قاسم اور نادیہ نے مارکیٹ جا کر ایک اچھا سا بیڈروم
سیٹ منتخب کیا اور قاسم نادیہ کو ہسپتال چھوڑتے ہوئے بینک آگیا کہ وہ پیسے
نکال کر بیڈروم سیٹ کی قیمت دے کر اسے گھر لے جا سکے، رقم نکلوا کر قاسم
بازار کی طرف جانے کے لئے نکلا، تھوڑی ہی دور پہنچا تھا کہ پیچھے سے آئے
چار موٹر سائیکل سواروں نے اس کو روکنے کی کوشش کی قاسم مضبوط اعصاب کا
حامل تھا لہٰذا اس نے موٹر سائیکل کو تیز دوڑانے کی کوشش کی مگر اس کوشش
میں اس کو سامنے کھدا ہوا گڑھا نظر آنے میں تاخیر ہو گئی اور بچتے ہوئے
موٹر سائیکل اس سے سنبھل نہ سکی اور کافی دور تک وہ گھسٹتا ہوا چلا گیا اور
اس کا سر زور سے فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور اس کے سر سے بہتا ہوا لہو زمین کو
تر کرنے لگا اور بس اس نے اتنا دیکھا کہ ان چاروں میں سے ایک اس کے قریب
آیا اور اسے ایک ٹھڈا رسید کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پیسوں کا لفافہ چھین
کر جانے لگا قاسم نے اس کو روکنے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اس کے ایک پیر کو
زور سے پکڑ لیا ، اور وہ شخص خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا یہ دیکھ کر ان
میں سے ایک شخص پستول ہاتھوں میں لہراتا ہوا اور مغلظات بکتا ہوا ان کی طرف
آیا اور پہ در پہ قاسم پر ٹھڈے برساتا ہوادوسرے شخص کی ٹانگ چھڑانے کی
کوشش کرنے لگا، مگر قاسم کی گرفت اس کے خوابوں اور جذبات کی طاقت لئے ہوئی
تھی اتنی آسانی سے کہاں چھوٹنی تھی، دوسرے شخص کو اب شدید غصہ آگیا اور
اس نے اپنے پستول کو لوڈ کیا اور غصے کی حالت میں پہ در پہ تین فائر کر
دئے،اب قاسم کی آنکھیں ڈوبنے لگیں اور ان میں نمی اترنے لگی اس کی آنکھوں
میں بسا ہوا نادیہ کا سپنا جھلملانے لگا اذیت کے عالم میں ماں اور بہن کا
چہرہ اس کے سامنے آنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ اسے اس اذیت سے نجات مل
گئی اور اس کے ہاتھ اس شخص کی ٹانگ سے چھوٹ گئے اور وہ لوگ فوری طور پہ
موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر فرار ہو گئے ۔
ٹیلیوژن پر شہر کے حالات کے بارے میں بتایا جا رہا تھا اینکر کہہ رہا تھا
کہ شہر کی فضاؤں کے خوف میں اب کمی آتی جا رہی ہے آئے دن جو سڑکوں پر لوگ
لوٹے اور مارے جا رہے تھے ان واقعات میں کمی آنے لگ گئی ہے، مگر سیاسی
مصلحتوں کے تحت جس اسپیشل فورس نے حالات معمول پر لانے کے لئے محنت کی تھی
ان کو دوبارہ کام سے روک دیا ہے،او لوگ واپس اس ہی پولیس کے رحم و کرم
پرہیں جو سیاسی افکار کی تندہی سے چوکیداری کرنے میں مصرو ف ہے عوام کو
کیسے تحفظ دینا ہے یہ ان کو سرے سے معلوم ہی نہیں ہے اور اب فکر ی حلقوں
میں اس بات کی تشویش ہونے لگی ہے کہ مبادا پھر سے حالات پرانی نہج پہ نہ
لوٹ جائیں ۔
پھر ایک خبر چلنے لگی جس میں پولیس چیف میڈیا کو بتا رہے تھے کہ شہر کے
حالات معمول پر آتے جا رہے ہیں ، گذشتہ کئی برسوں سے جو امن و امان کی
ناگفتہ بہ صورتِ حال تھی اور روزانہ جو بیسیوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو
رہے تھے اب اس میں واضع کمی آچکی ہے اور گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں فقط ایک
شخص کی جان گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سہی نہج پر چل رہے ہیں ۔
دو خبریں اور تھیں مگر وہ نشر نہ ہو سکیں کم از اس طریقے سے نہیں کہ شہر
میں غریبوں کی بستی میں ایک شخص کا لٹیروں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد اس کی
منکوحہ نے جس کی کچھ دن بعد رخصتی ہونے والی تھی خود کو پھانسی لگا کر
خودکشی کر لی،اور اس شخص کی ماں نے حالات سے تنگ آکرکھانے میں زہر ملا کر
اپنی اور اپنی معذور بیٹی کی جان لے لی ۔
|