عورت اسلام کی نظر میں

عورت کائنات کی ایک خوبصورت ترین تخلیق ہے،جسے شاعروں نے مختلف رنگوں سے تشبیہ دے کر کائنات کو ان رنگوں کے بغیر ادھورہ تصور کر لیا. اس سلسلے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں،’’عورت الوھی نغمہ ہے جس کی دھن پر کائنات رقصاں ہے‘‘۔ اور یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ عربی زبان سے نکلنے والا یہ لفظ اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔کہیں حوا کی بیٹی،کہیں صنف نازک، کہیں حیا کا پیکر، کہیں مجسمہ مہر و وفا، کہیں حسن کی دیوی،کہیں صبر و استقامت کا مینارہ،کہیں قربانی کی داستان، کہیں سرچشمہ علم ادب، کہیں شاطر و عیار،کہیں سراب،کہیں قاتل وغیرہ وغیرہ سے پکارا جاتا ہے. مختلف خوشنما رنگوں کا مجموعہ رکھنے والی اس مخلوق کو قرآن پاک میں 'عورت' لفظ سے پکارا گیا۔ جس کے لغوی معنی ’’پردے‘‘ یا’’ستر‘‘کے ہیں، یعنی ایسی چیز جسے چھپایا جاتا ہے۔ یہ عورت ہی ہے جسے اﷲ تعالی نے کائنات کی پسندیدہ مخلوق کہا ہے.

اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ مختلف رنگوں کا مجموعہ رکھنے والی یہ مخلوق مرد کے وجود کے بغیر مکمل نہیں. چاہے یہ مرد شوہر ہو, بھائی ہو, باپ ہو یا بیٹا. مرد کا وجود عورت کے رنگوں کو نکھار بخشتا ہے اور اس کے حسن میں اضافہ کرتا ہے. باپ کے روپ میں بیٹی کی ڈھال بنتا ہے اور اسے زمانے کے گرم و سرد کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے. بھائی کے لیے اس کی بہن ایک قیمتی دوست, راز داں اور تحفے کی مانند ہوتی ہے جسے وہ سب سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے. جب کہ شوہر بیوی کے لیے ایک مخلص شریک سفر کے طور پر اس کے راستے کے کانٹے چنتا ہے اور بیوی کے روپ میں وہ ایک صنف نازک کے طور پر پسند کی جاتی ہے.

عورت کو کمزور کہنے والوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ایک عورت ہی نو مہینے ایک بچے کو اپنے کوکھ میں رکھنے کی تکلیف جھیل کر اور دردزہ کے درد کی شدت کا مقابلہ کرکے ایک ذی روح کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے اور انسانیت کے اس اونچے مینارے پر کھڑی ہوتی ہے جہاں جنت اس کے قدموں تلے آجاتی ہے. باپ کی طاقت کے بل بوتے پر ہواؤں میں اڑنے والی طاقتور بیٹی, صنف نازک کا سفر طے کرکے جب ماں بنتی ہے تو اولاد کی محبت اسے مزید مضبوطی عطا کرتی ہے. کیونکہ ایک جانب وہ اپنے بچوں کی ڈھال بنتی ہے اور دوسری جانب اپنے خوابوں کی تعبیر بچوں میں دیکھتی ہے. یہ تمام خوبصورت رشتے عورت کی خوبصورتی کو دوام بخشتے ہیں. ان رشتوں سے چھٹکارا اسے عرش سے فرش پر لاسکتا ہے. دستور فطرت بھی یہی ہے کہ جب تک عورت رشتوں کی ڈور میں بندھی رہے گی, عزت اور تکریم کے قابل رہے گی, جیسے ہی خود سے جڑے ان خوبصورت رشتوں کو ٹھوکر لگائے گی کٹی پتنگ بن جائے گی.

ان تمام باتوں سے قطع نظر آج کل کی بظاہر مظلوم عورتوں کے حقوق کی پاسدار لبرل خواتین مغرب کی پیروی میں اپنے حقوق کی جنگ میں اتنی آگے نکل چکی ہیں کہ اپنا مقام کھو رہی ہیں. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جو اسلام کی مقرر کردہ حدورود و قوائد سے نکل کر یہ مانگ رہی ہیں. میرا جسم میری مرضی کہنے والی اور دل کا پردہ رکھنے والوں خواتین کی تاویل کے لیے عرض ہے کہ, کیا آج کل کی یہ نام نہاد بے پردہ لبرل خواتیں حضرت محمد ﷺ کی گھر کی خواتین سے زیادہ معتبر و معزز ہیں, جنہیں پردے کا حکم آیا تھا مگر وہ یاد رکھیں کہ قرآن مجید کا یہ حکم پوری امت مسلمہ کی خواتین کے لیے بھی تھا.

’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں پھر انہیں ایذاء نہ دی جائے۔‘‘ (الأحزاب)

خواتین کی عزت و احترام کے حوالے سے اگر زمانہ قدیم کا جائزہ لیں تو اس وقت کے اور اسلام کے دئیے ہوئے قدر و منزلت کے مابین واضح فرق نظر آئے گا. زمانہ جاہلیت میں اکثر قبیلوں میں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی مفلسی یا ذلت کے خوف سے زندہ در گور کیا جاتا تھا. ہندوؤں میں ستی یا دکشاینی کی رسم ادا کی جاتی تھی. اس رسم کے مطابق کسی بھی شادی شدہ عورت کو اس کے شوہر کی موت کے بعد اس کے ساتھ ہی چتا میں جلادیا جاتا. اس کے پس پردہ ان کا عقیدہ تھا کہ کسی بھی بیوہ عورت کو اس کی شوہر کے ساتھ جلانے میں ہی اس کی نجات ہے. اس رسم کی تاریخ مہا بھارت کی جنگ کے دوران ملتی ہے جس میں کوروں کی شکست کے بعد دہراتراشتر نے راج پانڈوؤں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلا گیا اور وہیں دونوں میاں بیوی کی ہلاکت آگ میں جل کر ہوئی اور یہ واقعہ ایک رسم کے طور پر منایا جانے لگا. ستی سے بھاگنے والی عورتوں کو ان کے معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا تھا. صرف حاملہ عورتیں یا بچوں کو دودھ پلانے والی عورتیں اس رسم سے بچ جاتی تھیں, جسے منو کو نام دیا گیا. ہندوؤں میں ہی عورت کو مندر کی دیوداسی بنا کر پنڈتوں کی ہوس کا شکار بنایا جاتا ہے جب کہ عیسائیوں میں عورتوں کو نن کی شکل میں ازدواجی حق سے محروم رکھ کر چرچ کے پادریوں کی ہوس کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے. عیسائی پادری عورت کو شیطان کا دروازہ, اور بچھو کا ڈنک کہتے ہیں.

مغربی اور یورپی دنیا کے مختلف مفکروں کی سوچ بھی عورت کے متعلق منفی ہی رہی ہے. جان ڈسپنس نے عورت کو کذب (جھوٹ) کی بیٹی, دوزخ کی رکھوالی اور امن کی دشمن قرار دیا ہے جب کہ ارسطو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ''عورت کی پیدائش نامکمل حمل کے نتیجے میں ہوئی تھی اس لیے وہ ناقص العقل اور ادھوری ہے''۔ یوحنا نے عورت کو ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے. ’’عورت شر کی بیٹی ہے اور امن و سلامتی کی دشمن ہے‘‘ مشہور مفکر سقراط نے بھی عورت کو فتنہ کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ''عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ وفساد برپا کرنے والی نہیں۔ وہ ایسا خوشنما درخت ہے جو دیکھنے میں خوبصورت مگر چکھنے میں تلخ و کڑوا ہے''۔

خواتین کو اسلام کی جانب سے دیے گئے حقوق کی بات کی جائے تو ان کے سامنے غیر مسلم عورتیں اپنے معاشرے میں بالکل بے مول اور حقیر ہو جاتی ہیں. ان مفکر حضرات کی سوچ اور تمام اقوال کو اسلام کی راہ پر عمل پیرا متقی اور پرہیز گار عورتوں نے باطل کردیا اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ عورت معاشرے کا مثبت رخ بھی ہے. ان عورتوں میں حضرت بی بی مریم, حضرت بی بی خدیجہ, حضرت بی بی عائشہ, حضرت بی بی آمنہ, حضرت بی بی فاطمہ, حضرت بی بی رابعہ بصری اورسیاسی تاریخ میں فاطمہ جناح جیسی خواتین قابل ذکر ہیں. اسلام نے عورت کو زمانہ جاہلیت کی رسوائی سے نکال کر امہات المومنین کی شکل میں مسند اعلی پر بٹھا دیا. معاشرے میں عورت کو معاشی اور سماجی حقوق دے کر عزت, احترام اور قدرو منزلت میں مرد کے برابر کھڑا کیا اور معتبر کیا. اس کا واضح ثبوت بی بی حوا کی حضرت آدم علیہ سلام کے ساتھ پیدائش ہے. یہ پیدائش ثابت کرتی ہے کہ کائنات عورت کی تکمیل کے بغیر ادھوری ہی رہتی. قرآن پاک میں رب العزت فرماتے ہیں کہ.
’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘ (النساء)

حضرت بی بی حوا آدم علیہ السلام کے سر سے نہیں بنائی گئیں جو حاکم بنتیں نا ہی وہ پاؤں سے پیدا کی گئیں کہ محکوم بنتیں. بائیں پسلی سے پیدا کی گئیں, یعنی ان کے دل کے قریب سے. جو عورت کسی کے ذہن پر سوار ہوتی ہے یا کسی کی قدموں میں رہتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ساتھ اس مرد کے لیے بھی باعث ندامت ہوتی ہے. اسلام اعتدال پسند مذہب ہے اس لیے یہاں بھی میانہ روی کا مظاہرہ کیا گیا. یہ بھی اﷲ کا عورتوں کے لیے تحفہ ہی ہے کہ جب حضرت بی بی حوا پر شیطان کے بہکاوے میں آنے کا الزام لگا تو رب کائنات نے اس الزام کر رد کردیا.
’’آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیا‘‘(طہ 121)
’’پھر شیطان نے اُنہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اُس (راحت کے) مقام سے، جہاں وہ تھے، الگ کر دیا۔‘‘(البقرۃ، 2: 36)

حضرت بی بی حوا کو کل کائنات کے انسانوں کی ماں کا درجہ دے کر ماں کی تعظیم و تکریم کو لازم قرار دیا. ماں کے قدموں تلے جنت رکھی اور بچے کے لیے اولین مکتب کا اعزاز بھی بخشا. مزید آگے جائیں تو لڑکی کو زندہ درگور کرنے والی معاشرے کی پست ترین اقدام سے بھی نجات دلائی. اﷲ تعالی فرماتے ہیں.
''اس وقت کو یاد کرو جب اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیا گیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔(التکویر)

عورت اپنے نامہ اعمال کے مطابق جنت اور دوزخ میں برابر سزا اور جزا کی حق دار قرار پائیں.
’’ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔‘‘
(آل عمران، 3: 195)

عزت و احترام کے ساتھ ساتھ اگر حقوق کی بات کی جائے تو جتنے حقوق اسلام نے عورتوں کو دیے ہیں وہ کسی اور مذہب نے نہیں دیے. نکاح کا حق دے کر زمانہ جاہلیت سے رائج مرد اور عورت کے مابین ازدواجی حیثیت کو قانونی شکل دی اور محرم رشتوں سے ازدواجی حیثیتوں کو ختم کرکے محرم اور نامحرم رشتوں کے فرق کو واضح کیا, ساتھ ہی نکاح میں ان کی پسند اور نا پسند کو بھی اہمیت دینے کی تلقین کی. مردوں کے ساتھ ساتھ اسلام نے عورتوں پر بھی تعلیم کے یکساں دروازے کھولے. آپ ﷺ نے فرمایا.
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘(ابن ماجہ)

معاشی حقوق کا جائزہ لیں تو اسلام نے عورت کا نان نفقہ مرد کے ذمے رکھا. مرد پر لازم قرار دیا کہ وہ اپنے گھر کی عورت چاہے وہ ماں ہو, بہن ہو, بیٹی ہو یا بیوی ہو اس کا نان نفقہ پورا کرے. اگر عورت خود بھی کماتی ہو تب بھی یہ ذمہ داری مرد پر لاگو کی گئی. شوہر پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق حق مہر رکھیں اور نکاح کے بعد عورت کو ادا کریں. ﷲ تعالی فرماتے ہیں.

'' ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاو۔(النساء)

ملازمت کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی اس کی کمائی پر صرف اور صرف اس کا اختیار رکھا. باقی مذاہب کے برخلاف اسلام نے عورت کو والد, بھائی اور شوہر کی جائیداد میں وراثت کا حقدار بھی ٹہراہا. بے سہارہ, یتیم یا بیوا عورت کا بھی اس کے عزیز اور رشتہ داروں کی جائداد میں کچھ حصہ مقرر کیا. قرآن میں ارشاد ہوا ہے.
''مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے''۔ (النساء).

طلاق کی صورت میں بھی اسلام نے مرد کو پابند کیا کہ عورت کی کفالت کرے اور طلاق کی صورت میں سات سال تک کے بچوں کو ماں کے پاس رکھنے کا حکم بھی دیا.

''اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچ دیا جائے، یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے‘‘(البقرہ، 2: 241)

شوہر کی جانب سے ظلم, ناچاقی, یا کسی جائز وجوہ کی بنا پر خلع کی صورت میں علیحدگی کا مکمل اختیار دیا.

پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اﷲ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی کچھ بدلہ دے کر آزادی لے لے۔‘‘

لیکن بلاوجہ خلع کو نا پسند قرار دے کر یہ بھی فرمایا کہ
’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے''. (احمد بن حنبل)
عورت کو خیار بلوغ کا حق بھی دیا گیا. اس میں بلوغت سے پہلے کیے گئے نکاح کو ختم کیا جا سکتا ہے. ازدواجی و عائلی حقوق, کفالت, اعتماد, حسنِ سلوک, عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ علم و فراست کی بنا پر گواہی کا حق بھی دیا گیا. یہ تو اسلام کے فراہم کردہ چند چیدہ چیدہ حقوق ہیں جو مسلمان عورت کی میراث ہیں اور لبرل خواتین کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں. اس کے علاوہ خواتین کو اپنے مزید حق جاننے کے لیے باریک بینی سے اسلام کا مطالعہ کرنا ہوگا اور ساتھ ہی فرائض کے بارے میں بھی مکمل آگاہی حاصل کرکے راہ حق پر چلنا ہوگا اسی میں ہی اس کے لیے راہ نجات ہے.

Dr Rahat Jabeen
About the Author: Dr Rahat Jabeen Read More Articles by Dr Rahat Jabeen: 22 Articles with 17923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.