گلستان جوہر کی زمین
(Munir Bin Bashir, Karachi)
|
لیجئے صاحب -- یہ ہے آپ کا مکان - جتنے چاہے کمرے مزید بنالو --کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ------ مکان فروخت کرنے والا دکاندار بولے جارہا تھا -صاحب آج کل سیل لگی ہوئی ہے -اس لئے سستا مل رہا ہے - میں ہول سیل کے نرخ پر بیچ رہا ہوں - میرا منافع ذرا بھی نہیں-
یہ گلستان جوہر کراچی میں یونیورسٹی روڈ کے تقریباً سامنے کا علاقہ تھا- پہاڑ کو کاٹ کر یہ پلاٹ بنایا گیا تھا - یہ سال 2018 کی بات ہے - ہمارے ایک قریبی دوست کو مکان کی تلاش تھی سو ہم بھی اس کی کوشش میں ہم رکاب ہوگئے تھے- مکان کے اندر سے ہوتے ہوئے پچھواڑے میں پہنچے تو سامنے صحن تھا اور جہاں صحن ختم ہو رہا تھا وہاں ایک پہاڑی نظر آئی - پہاڑی عمودی شکل میں تراشی گئی تھی - -پہاڑی کو دیکھتے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ خوب مسام دار ہے - تہہ دار بھی ہے لیکن ہر تہہ الگ الگ ہے اور بودی بھی - -یورپی ممالک میں ایسی صورت حال ہوتی تو پہاڑی کے گرد تاروں کی جالی لگا کر اسے محفوظ بنانے کی کوشش کی جاتی لیکن یہاں کوئی ایسا منظر نہیں تھا - اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کی تو بولا وہاں کے پہاڑ تو ہوتے ہی ہیں بوسیدہ اور بے کار -ہمارے پہاڑ ہمالیہ نسل کے ہیں ایک دم مضبوط -- لوہے کی طرح -- ٹن ٹن بولنے والے پہاڑ کے اوپر شہد کی مکھیوں کی طرح کی بھن بھن کی سی آوازیں سنائی دے دے رہی تھیں جیسے لوگ باتیں کر رہے ہوں - غور سے دیکھا تو زنانہ مردانہ شلوار قمیضیں کسی رسی سے لٹکتی نظر آئیں - ایجنٹ نے کہا 'صاحب خانہ بدوش لوگ ہیں جنہیں آپ جپسی کہتے ہیں- آج یہاں کل وہاں - ان کا کوئی ٹھکانہ تھوڑا ہی ہوتا ہے - پھر کہا صاحب ایک فائدے کی بات بتاتا ہوں - بتانے سے پہلے اس نے منہ میں ٹھسے ہوئے گٹکے کو نکالنے کے لئے جگہ ڈھونڈی - ایک جگہ پہاڑی کا کچھ حصہ نیچے گرا ہوا تھا اور وہاں مٹی کا ڈھیر جمع تھا - وہ گٹکا ادھر پھینک آیا اور بات آگے بڑھائی - ' یہ پہاڑی بھی آپ کی ہے- اندر کھودتے جائیں اور دو تین کمرے بنالیں - اسی لئے تو کہہ رہا ہوں یہ چار کمروں کا مکان نہیں چھ کمروں کا مکان ہے اور چار کی مالیت میں مل رہا ہے - صاحب یہ نصیبوں والوں کی بات ہے -اللہ جسے چاہے بخش دے بائی دا وے آپ خوش قسمت کا اسٹار کون سا ہے--- دلو - حوت -- حمل ------ میں نے بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا اگر پہاڑ سے پانی آبشار کی صورت میں گرے یا خود چشمے کی صورت میں پانی نکل آئے تو کیا صورت ہو گی - مکان بیچنے والا ایسے سوالوں سے واقف تھا فوراً ہی گھڑا گھڑایا جواب سنادیا --- صاحب آپ کے گھر میں گٹر لائن کس لئے ہے - اس میں بڑے قطر قطر کا پائپ بچھایا ہے تاکہ پانی نکل جائے- لیکن ہمیں یہ دامن کوہ کا مکان پسند نہیں آیا - اس نے کہا چلئے آپ ایک بالائے کوہ کا مکان دیکھ لیجئے - -آپ تو کوئٹہ کے رہنے والے ہیں بس مکان دیکھ کر ہی عاشق ہوجائیں گے - ہماری موٹر سائیکل میں اتنی جان نہیں تھی کہ ہمیں لے کر اوپر جاتی سو نیچے سے اس کا سرسری سا معائنہ کیا - مکان پہاڑ کے ایک سرے پر بنا ہوا تھا - یہ بھی گلستان جوہر کا ہی مکان تھا - پہاڑی کے ٹکڑے الگ الگ ہو کر نیچے گرتے رہے تھے - کیوں کہ مکان کے ساتھ ہی اس کی اپنی سیوریج کی لائن تھی جو اس ٹوٹنے کے عمل کی زد میں آچکی تھی- چنانچہ اب اسے اسٹیل کی پتریوں کی مدد سے دیوار میں ٹھونکا ہوا تھا - اب دیوار کب اس شکستگی کی زد میں آئے گی اس علم ہمیں نہیں تھا کوئی تعمیرات کا ماہر ہی جواب دے سکتا تھا
ہمارے ساتھ بھی ایک عجب معاملہ ہوتا رہتا ہے - ہر سامنے گزرنے والا واقعہ ہمیں ماضی میں پیچھے لے جاتا ہے - ایسے لگتا ہے کہ ٹائم ٹنل ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے -جہاں کہیں موقع پایا دبوچ کر اندر کرلیا اور ٹائم مشین کا میٹر آن کر دیا کہ جاؤ گھومو پھرو اور دیکھو کہ اس واقعہ کا ماضی سے کیا تعلق ہے - چنانچہ یہاں پر بھی ایسا ہی ہوا - کسی نادیدہ ہستی نے ٹائم مشین میں ڈال دیا - وہ ہمیں سال 2012 میں لے گئی جب ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کیا کریں - ایک صاحب نے کہا کہ تم تو اسٹیل مل میں پانچ منزلہ عمارتوں کے برابر کھدائی کراکے پائپ بجھاتے رہے ہو اور ارضیاتی امور کی کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہو - تم نے زمین میں تھر تھراہٹ اور دھمک پر قابو پانے کے لئے روسی ماہرین کی نگرانی میں کام کیا تھا اور لرزاہٹ کا خاتمہ کر کے دم لیا تھا- تم نے روسی ماہرین کے ہمراہ مل کر زمیں کے نیچےگہرائیوں میں بہنے والے پانی کی سمت بھی تو تبدیل کر دی تھی ایسا کام تو فرہاد بھی تونہیں کر سکتا تھا
چلو ایک ادارے میں چھوٹی موٹی ملازمت کر لو جو کراچی سرکلر ریلوے کو زیر زمین چلانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اور زمین کا جائزہ لے رہا ہے - ان صاحب کی یہ باتیں سن کر تو ہم پر ہی لرزہ طاری ھو گیا کہ کہاں ارضیاتی امور کے دقیق مسائل اور کہاں ہماری کل پرزوں اور مشینوں کے بارے میں میکانیات یعنی مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم - سو ہم نے ادارے میں شرکت نہیں کی البتہ اس کی تیار کردہ رپورٹ ضرور پڑھی - انہوں نے حکومت کی ہدایت کے مطابق سطح زمین سے پندرہ میٹر اور بیس میٹر نیچے واقع زمین کا جائزہ لیا تھا - اور زمین کی مضبوطی و ساخت ، پانی کی موجودگی ، مٹی کی ماہیّت و خصوصیت کی جانچ پڑتال کی تھی - وہ مقامات جہاں سرکلر ریلوے ایک گہری خندق میں سے گزرتی ہے ، اس گہرائی میں مزید پندرہ میٹر نیچے کی زمین کا اندازہ لگایا تھا - رپورٹ چونکا دینے والی تھی خصوصاً گلستان جوہر کی زمین کے بارے میں - ایک جگہ لکھا تھا کہ گلستان جوہر اور اس کے قریبی ملحقہ گلشن اقبال کے علاقوں میں ایک سے چار میٹر گہرائی تک میں پانی نکل آتا ہے جبکہ لیاقت آباد ، ناظم آباد کے علاقوں میں یہ معاملہ نہیں ہے - - مٹی ریت جو زمین کے اندر ہوتی ہے وہ گلستان جوہر میں ڈھیلی ڈھالی اور نرم ہے البتہ جیسے جیسے نیچے جاتے جائیں گے یہ سخت اور مزید سخت ہوتی جاتی ہے -
تب ہمارا دھیان اسٹیل مل میں کام کرنے والے روسی ماہر گلوشکوف کی طرف گیا -میکانیکل امور کا ماہر تھا لیکن تعمیراتی امور پر بھی اسے کافی دسترس تھی -اس نے کہا تھا کہ صاحبو تم جس جگہ اسٹیل مل بنا رہے ہو وہ زمین اوپر سے تو مضبوط نظر آتی ہے لیکن ایسا معاملہ نہیں ہے- وہ زمین لاکھوں ٹن لوہے کا وزن برداشت کر نے کے قابل نہیں تھی- چنانچہ اوپر کی مٹی کی تہہ نکال کر باہر پھینک دی گئی ہے اور ایک نئی سطح حاصل کی گئی ہے اور اس پر کارخانہ بنایا گیا ہے - ٹائم مشین ہمیں ماضی میں لے کر گھومے جارہی تھی -آخر کار مشین ایک جگہ رک گئی - زمان تھا 1977-اور مکان تھا----بلاک چھ - گلشن اقبال --نزد گلستان جوہر ( جو اس زمانے میں وجود میں نہیں آیا تھا )- ہمارے ایک دوست نے یہاں مکان لیا تھا -وہ پودوں کا شوقین ، پھولوں کا شیدائی تھا - درختوں کو سر سبز و شاداب دیکھ کر اس کا بھی دل شاداب ہو جاتا تھا - اس نے مکان لینے کے بعد کیاری کھودنے کے لئے گڑھا کھودا تو حیرت زدہ رہ گیا - صرف دو فٹ ہی نیچے کھدائی کی تھی کہ پانی نکل آیا - کھارا عجیب سی رنگت کا پانی - مکان کی بنیادیں بھی اسی پانی میں تر بتر نظر آئیں- ہم نے سوچا کہ ٹائم ٹنل کی بہت سیر کرلی اب روکنا چاہئے - یہ خیال دل میں آنا ہی تھا کہ کہیں سے آواز آئی "دبی رکھ ----استاد دبی رکھ ---مت روک " جو مشین رکنے والی تھی اس نے پھر رفتار پکڑلی اب یہ گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے سرحدی پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی - اسی سرحد کی گود میں ہمیں ایک لکڑ ہارا ملا تھا - لکڑہارے سے مراد پرانی کہانیوں میں پایا جانے والا کلہاڑی ہاتھ میں تھامے ہوئے لکڑ ہارا نہیں بلکہ موجودہ موبائیل ٹیلی فون کے دور کا لکڑ ہارا - اس کی اپنی آرا مشین تھی اور تولنے کا ہندسے دار ترازو تھا - اس نے اپنی کہانی سنائی تھی کہ میاں جی میں قریب ہی فلیٹوں میں رہتا ہوں - زیر زمین پانی کی سطح اتنی بلند ہے کہ ہم نے احاظے میں مختلف مقامات پر کنویں کھودے ہوئے ہیں اور جب پانی کی مقدار بڑھ جاتی نہے تو پمپ چلا کر پانی نکالتے رہتے ہیں - اسی سبب سے پانچ منزلہ فلیٹوں کی نیچی والی دیواریں نم آلود رہتی ہیں اور ان کا پلاسٹر گرتا رہتا ہے - بنیادوں کا حال اللہ ہی جانے جامعہ کراچی کے سابق استاد جناب گلریز حامد نے بھی سما ٹی وی پر تقریباً ایسی ہی باتیں کی تھیں - ان کا یہ کہنا تھا کہ ماضی میں سیمنٹ کا ایک کارخانہ یہاں پر واقع تھا اور وہ کارخانے کے لئے خام مال ان ہی پہاڑیوں سے حاصل کرتا تھا اور اس کے لئے پہاڑیوں کو توڑنے بارودی مادہ استعمال کیا جاتا تھا جس کے سبب یہ پہاڑی تودے وغیرہ کمزور ہو گئے ہیں - ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اس قسم کی پہاڑیوں پر عمارات تعمیر کر نا مناسب نہیں سمجھا جاتا -
ٹائم ٹنل کی رفتار سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ رکنے والی نہیں اور ہمیں اغوا کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے - سو ہم نے دماغ کو خوب جھنجھوڑا اور سر کو خوب ہلایا تب جاکر ٹائم ٹنل کی رفتار میں کمی آئی اور وہ رک گئی - ہم بھی آہستہ آہستہ ماضی سے حآل میں آئے- سامنے اسٹیٹ ایجنٹ کھڑا تھا اور اس کی چرب زبانی جاری تھی - سرکاری تعمیری اداروں کے بڑے افسران سے اپنی شناسائی کی داستانیں سنا رہا تھا - ہم نے اسے بتایا کہ تمہارے اس لیکچر کے دوران ہم 1978 سے لیکر 2018 کا زمانہ دیکھ آئے ہیں - حقیقتیں پردوں میں پنہاں نہیں ہیں بلکہ سب کے سامنے عیاں ہیں - - ہمیں چاہیئے کہ ان حقائق کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل بنائیں کس نے کتنا سبق لیا ہمیں معلوم نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ پچھلے سال 2020 میں طوفانی بارشیں ہوئیں تو ہمیں یہ ساری باتیں جو طاق نسیاں ہو گئی تھیں دوبارہ یاد آئیں اور انجام بعینہ وہی ہوئے جو سوچے تھے - پانی جمع ہوا اور آبشار کی طرح اوپر سے نیچے گرا -مٹی بہہ گئی -اور گھروں میں گھس گئی - تودے ہلے تو مکانوں کی بنیادیں ہلیں اور تودے مکانوں کو ساتھ لیکر بلندی سے نیچے گرے اخبارات میں بہت کچھ آیا - بہت کچھ چھپا - سال 2021 کی دوسری سہ ماہی کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے - اس کے بعد پھر مون سون کی آمد ---- ہماری کیا تیاریاں ہیں عوام کو علم نہیں
|