وزیراعظم عمران خان نے اپنے انتخابی منشور کے مطابق
ستر سالہ منتشر نصاب تعلیم کو یکساں نصاب کے طور پر لاگو کرنے کی کوشش کی
ہے۔ جو قابل تحسین فیصلہ ہے۔ یہ بڑی خوش آئند خبر ہے کہ حکومت نے قومی
اتفاق رائے سے یکساں نصاب تعلیم لانے کا فیصلہ کیا ہے جو بیک وقت سرکاری،
نجی تعلیم اورمدارس دینیہ پر لوگو ہوگا۔ ہماری بیوروکریسی روز اول سے
انگریزی کے سحر میں گرفتار ہے اور ان کے دل و دماغ یہ قبول کرنے کے لیے
تیار ہی نہیں کہ انگریزی کے علاوہ کوئی زبان ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کے
طور پر نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ یہ دراصل ذہنی غلامی کی بدترین شکل ہے، جس کی
وجہ سے اب تک انگریزی ہر شعبہ زندگی میں مسلط ہے۔ فیصلہ سازی میں نوکر شاہی
کی بنیادی کردار ہے، یہ لوگ سیاستدانوں کے نئے خیالات کو بڑی مہارت سے اپنے
مقاصد کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔
یکساں نصاب تعلیم کی تیاری کے لیے قومی نصاب ساز کونسل نے مختلف مراحل میں
مشاورت کا اہتمام کیا ، جن میں سرکاری، نجی اور دینی مدارس کے ماہرین سے
بھی مشورہ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق بین الاقوامی اداروں بشمول برٹش کونسل
نے بھی ابتدائی تعلیم قومی اور مقامی زبانوں میں دینے پر زور دیا تھا۔ دنیا
بھر کی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بچہ کبھی بھی غیر ملکی یا غیر مانوس
زبان میں علم حاصل نہیں کرسکتا، رٹا لگا کر امتحان تو پاس کرلے گا لیکن
حصول علم ممکن نہیں۔ ہمارے سامنے چین، روس، جاپان، جرمنی، فرانس، کوریا اور
ایران جیسی مثالیں موجود ہیں لیکن ہماری نوکرشاہی اپنی غلامانہ سوچ میں ہی
گرفتار دکھائی دے رہی ہے۔
اب تک کی معلومات کے مطابق نوکرشاہی نے وزیراعظم عمران خان کے یکساں نصاب
کو قومی زبان میں مرتب کرنے کے بجائے دو یا تین زبانوں میں الجھا دیا ہے۔
پہلی سے پانچویں تک اردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم کے علاوہ دیگر مضامین
انگریزی میں رہیں گے اور انگریزی پہلی جماعت سے لازمی مضمون کے طور پر رائج
رہے گی۔ یہ طبقہ مڈل سے اعلیٰ تعلیم تک سارا نصاب انگریزی میں پڑھانے کی
تیاری کررہے ہیں۔ جو عمران خان کے ویژن کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا۔
ہماری نوکرشاہی نے بڑی مہارت سے ایک انقلابی فیصلے کو من پسند لبادے میں
تبدیل کردیا ہے۔ مطلب بات وہیں کی وہیں ہے، انگریزی ہی اس ملک کے عام بچے
کے لیے حصول علم میں رکاوٹ ہے اور اسی کو پہلی جماعت سے لازمی مضمون کے طور
پر لاگو کرکے غریب کے بچے کے لیے آگئے بڑھنے کا راستہ روک لیا گیا ہے۔ پہلی
جماعت سے حساب اور سائنس بھی انگریزی میں رہے گی تو ملک کے طول و عرض میں
نہ اس کے لیے اساتذہ میسر ہوں گے اور نہ بچے پڑھ سکیں گئے۔ نیتجے کے طور پر
قوم یکساں نصاب کے ذریعے بھی دن بدن جاہل سے جاہل بنتی جائے گی۔
یہ عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ اپنے ویژن کے مطابق قومی زبان میں یکساں
نصاب سازی میں کامیاب ہوتے ہیں یا نوکرشاہی کے بنے جال میں الجھ کر سارے
خواب کو چکنا چور کردیں گے۔ قومی زبان کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جب بھی قومی
زبان کے نفاذ پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے کہ تو شرپسند وں کا ایک ٹولہ سازشوں
کا جال پھینک دیتا ہے۔ سابق دور میں نواز لیگ کی رکن پارلیمنٹ ماروی میمن
نے چھ زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانیں قرار دینے کا بل پارلیمنٹ میں پیش
کردیا تھا، جو بمشکل ناکام کروایا گیا۔ اب کی بار پھر نواز لیگ کے سینٹر
جاوید اقبال عباسی نے بڑ ی مہارت سے عربی کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانے
کی قرارداد پیش کی اور اراکین سینٹ نے جنت کا ٹکٹ سمجھ کر فوری قرارداد
متفقہ طور پر پاس کر دی۔ نالائقی کی بھی حد ہوتی ہے، اپنے معصوم بچوں کو
انگریزی اور عربی کی بھینٹ چڑھا کر وہ اپنے لیے جنت الفردوس کا ٹکٹ کنفرم
کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہ موقعہ ہے کہ عمران خان سرکاری کارندوں پر گہری نظر رکھیں اور یکسان نصاب
کو قومی تقاضوں کے مطابق قومی زبان میں رائج کروائیں۔ یہ پرائمری نہیں بلکہ
اعلیٰ تعلیم تک کو قومی زبان میں دینے کی تیاری کرنے اور فیصلہ کرنے کا وقت
ہے ورنہ نوکرشاہی یکساں نصاب کی آڑ میں ایک بار پھر انگریزی کو غیر محسوس
انداز میں ہماری گردنوں پرمسلط کردیں گے۔
قومی زبان اردو کو آج نہیں تو کل اس ملک پر رائج ہوکر رہنا ہے۔ یہ قائداعظم
کے فرمامین اور بصیرت کا حاصل، دستور پاکستان کی منشاء، عدالت عظمیٰ کا
فیصلہ اور قومی اتفاق رائے کا لازمی تقاضا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اعزاز
وزیراعظم عمران خان حاصل کرتے ہیں یا بعد آنے والوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
|