مولانا محمدعثمان رحیمی مرحوم
فتح محمد ندوی
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں ا ک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
استاد محترم مولانا محمد طیب صاحب قاسمی عمادپوری کے جواں سال بیٹے اور ولی
مرتاض حضرت مولانا قاری محمد ایوب صاحب مد ظلہ العالی کے نبیرے کی سڑک
حادثے میں ہوئی شہادت سے دل پر ایک قیامت سی گزر گئی ۔ ابھی ذہن و دماغ
دیگر رفتگاں کے ماتم سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا، ماحول پر غم و اندوہ کے
بادل ابھی برابر چھائے ہوئے تھے۔ حساس طبیعتیں ابھی بحر کی موجوں کی طرح
مضطرب تھیں۔غرض زمین سے اچھے لو گوں کے اٹھ جانے سے پور ی فضا حسر ت و یاس
کی تصویر بنی ہوئی تھی کہ پھر اچانک مولانا محمدعثمان رحیمی کے حادثے نے
پوری محفل کا سماں ماتم کی شکل میں تبدیل کردیا،آج پھر آنکھ اشک ریز اور ہر
چہر ہ مغموم بلکہ ہر آنکھ سے چشمہ غم پھوٹ پڑا ۔ ہم سب کے لئے خاص طور سے
والدین کے لئے یہ جوان سال بیٹے کی اچانک شہادت لاریب دل پر ایسی چوٹ اور
صدمہ ہے جس کی وجہ سے سانسوں کو دھڑکن کی جگہ نہیں ملتی۔ کسی نے کہاں تھا
کہ دنیا کا سب سے بڑا غم باپ اور داد کے لئے جواں سال بیٹا کا جنازہ اپنے
کاندھوں پر اٹھا کر قبر کی دہلیز تک پہنچا نا ہے ۔یہ غم کسی بھی ماں باپ کو
نڈھال بنادیتا ہے اس غم کو وہی لوگ شد ت سے محسوس کرسکتے ہیں جو اس جاں
گداز حادثے سے گزرگئے ہوں ۔ بہ قول شہر یار :
تنہائی کی یہ کونسی منزل ہے رفیقو
تاحد نظر ایک بیا باں سا کیوں ہے
میرے لئے یہ حادثہ میرے گھر کے ایک فرد کے حادثہ کی طرح ہے اس لئے میں آج
اپنے آپ کو سب سے تعزیت کا مستحق سمجھ رہاہوں ۔ آخر میری سمجھ میں یہ نہیں
آرہاہے کہ میں کس طرح او ر کن الفاظ سے استاد محترم کو اظہار تعزیت پیش
کروں ۔ کیا انہیں لکھوں اور کس طرح انہیں تسلی دوں خود میرے دل اور آنکھوں
کا یہ حال ہے کہ آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں ہیں یادوں کا ایک ہجوم
اعصاب پر سوار ہے ۔
یادوں کی گھنیری چھاؤں بھی رخصت ہوئی گھر سے
ایک اور سفر کے لئے لوٹ آو ٔ سفر سے
مولانا طیب صاحب کے گھرانے سے میرا تعلق تقریبا بیس سال سے زیادہ مد ت پر
محیط ہے،اس طویل مدت میں کبھی تجدید مراسم کی نوبت ہی نہیں آ ئی، مولانا کا
لطف و کرم پہلے دن سے برابر جاری و ساری ہے ۔ ہمیشہ آپ کی شفقتیں اور
عنایتیں پدرانہ چشم عنایت کا پیکر جمیل بن کر ایک گھنے درخت کے سائے کی طرح
میرے اوپر سایا فگن رہی ہیں۔ میری زندگی میں میرے والد کی وفات کے بعد جن
لوگوں کی محبت مجھے فضل الٰہی عطاہوئی ان میں مولانا بنیاد کے پتھر کی طرح
میری زندگی میں شامل ہیں۔
مولانا طیب صاحب کا تعارف اس مضمون میں میر ا مقصد بالکل نہیں ، کیو ں کہ
آپ کی شخصیت کا ہیو لیٰ اور پیکرجن صفات کا تراشیدہ ہے وہ صفات خود سماج
میں انسان کے تعارف ،اعتبار اور محبوبیت کا باعث بن جاتی ہیں ۔ آپ کے ذ ہنی
منطقے میں جہاں بلاکی سادگی اور پاکیزگی ہے وہیں آپ کا ذہنی دریچہ موجودہ
مادیت اور صارفی ذہنیت کے نفاقی ہتھکنڈ وں سے بالکل پاک ہے ۔ آپ کے یہاں
ظاہر اور باطن کی دوئی نہیں ۔ آپ کی زندگی خلوص اور محبت کی کھلی تصویر ہے
۔ آپ کے یہاں تعلق اور وضعداریاں نبھانے کے نام پر جو کچھ بھی ہے وہ صاف
ستھرا طرز حیات ہے اس میں کسی منافقانہ روش اور دجل و فریب کا شائبہ تک
نہیں وہ مروت اور ہمدردی کا ایسا جمالی پیکر ہیں جہاں ہر آدمی جو ان سے
ملتا ہے وہ ان کا محبوب بن جاتا ہے ۔
ذکر اصل تھا مولانا محمد عثمان رحیمی مرحوم کا آپ کی پیدائش ۷ ربیع الاول
۱۴۱۹ ھ مطابق ۲ جولائی ۱۹۹۸ ء کو خانقاہ رائپور سے قریب عماد پور میں گاؤ
ں میں ہوئی ۔ آپ جس گھرانے کے چشم وچراغ تھے وہ گھرانہ اس پورے علاقے میں
علم و کتاب کی وابستگی کے ساتھ ساتھ تقویٰ اور پاکیزگی میں ایک علامت اور
امتیازی شان کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے ۔اس روح پرور اور نورانیت
سے بھرپور ماحول میں آپ کی تربیت ہوئی ۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ مدرسہ فیض
ہدایت رحیمی رائپور میں داخل ہوئے ۔ جہاں آپ کے دادا حضرت مولانا قاری ایوب
صاحب مدظلہ العالی نے اپنی چشم عنایت سے تعلیم و تربیت کے ساتھ آپ کے ذہن
کی تطہیر اور تنویر میں اہم کردار ادا کیا ۔
بیس سال کی عمر میں ازدواجی زندگی میں داخل ہوگئے تھے ۔ لیکن اس خوشگوار
زندگی کے بعد بھی تعلیم کا سفر جاری رہا ۔ آ خر عصری اور دینی علوم سے
فراغت حاصل کرنے کے بعد جناب مولانا عثمان رحیمی صا حب نے پوری مستعدی اور
ذمہ داری کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا ۔ عمر اب بائیس سال کی ہوچکی تھی
یعنی مکمل عالم شباب جیسے لڑکپن سے تعبیر کرتے ہیں آپ دا خل ہوچکے تھے
۔ویسے اٹھان بہت اچھا پایا تھا پھر خدا نے بلاکہ حسن و جمال سے نوازا
تھا،چہرا گلاب کی طرح سرخ پھر اس پر کالی گھنی داڑ ھی سر پر گھنے بال ،
ہونٹوں پر ہر وقت ہنسی اور مسکراہٹ کی پاکیزگی آپ کے پیکر کو حسن کا مجسمہ
بنا دیتی تھی۔اس ظاہری سراپے پر آپ کو خاندانی تربیت کے نتیجہ میں سیرت و
کردار کا جو جمالی پیکر عطاہوا تھا اس نے آپ کے ہیولے کو محبوبیت کا جواز
بھی اسی عین عالم شباب میں عطا کردیا تھا۔ مزید کسی بیٹے کی اخلاق و شرافت
کے معیار کو پرکھنے کے لئے باپ سے بڑی سند کوئی نہیں ہوسکتی ۔ مولانا عثمان
کے اخلاقی معیار او ر ان کے شریف الطبع ہونے کے لئے ان کے والد مولانا طیب
صاحب کے یہ الفاظ کہ اس بائیس کی پوری مدت میں کبھی بہ حیثیت باپ کے مجھے
انہیں ’’در ‘‘ کہنے کی کبھی نوبت نہیں آئی ۔
مولانا طیب صا حب نے اپنے بچوں کی تربیت میں بلا شبہ ایک مثالی کردار ادا
کیا ہے۔اعلیٰ اخلاق اور کردار کے ساتھ ساتھ دونوں بیٹے (جن میں سے مولانا
عثمان صاحب ایک داغ مفارقت دے گئے اور دوسرے مولانا سلمان صاحب خدا انہیں
لمبی عمر کے ساتھ اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے ) اتنے مہذب
اور باادب ہیں کہ ان کی تواضع اور بے نفسی دیکھ کر دل ان کا گرویدہ ہوجا تا
۔ آنے والے ہر کسی کے لئے وہ بسر و چشم کھڑے ہوجاتے ۔ادب واحترام اور
وضعداریاں نبھانے میں وہ اپنے والد محترم مولانا طیب صاحب قاسمی کے عکس
جمیل ہیں۔
نور نظر اور لخت جگر کی اچانک وفات سے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو بھولنے
میں بڑا وقت لگتا ہے ۔ صبر کے پیمانے لبریز ہونے کے بعد بھی اولاد کے غم کی
یادوں کی کپکپاہٹ کی لو جلدی سے بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ اس وقت استاد
محترم کے حوالے سے میرے سامنے یہی صورت حال ہے کہ وہ اپنے اس جواں سال بیٹے
کو کیسے بھلاپائیں گے ، ایک طرف اس کی ماں اور بھائی بہن دوسری طرف اس کی
دلہن جس کے لباس عروس کی چمک ابھی پھیکی بھی نہیں پڑی تھی ۔ اور ایک تین
ماہ کا بچہ محمد حسان جس کا سینہ لاشعور ہی میں یتیمی کے داغ سے بھرگیا۔
بہر حال غم کا ایک پہاڑ استاد محترم کے سینے پرر کھا گیا اس کا بوجھ کیسے
وہ زندگی بھر اٹھا پائیں گے اور کیسے ان گھاؤ کے مندمل ہونے کی صورت پیدا
ہوگی ۔بہ قول مجید امجد :
جگہ جگہ تیری موجودگی کو پاتے ہیں
ہمارے درد فراواں ہمارے اشک رواں
مانوس ہو چلا ہے غم زندگی سے دل
مجھ کو بلائے جان تھیں تنہائیاں کبھی
( نسیمہ ام کلثوم)
ہم اﷲ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اے اﷲ تو اپنے بندے پر ستر ماؤں سے زیادہ
شفیق اور مہربان ہے ، اپنی اس بے پناہ شفقت و محبت اور فضل و
کرم کے صدقے میں جناب مولانا محمد عثمان صا حب کو اپنی جوار رحمت میں لیکر
اس کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرما اور اس کے تمام اہل و عیال کو صبر اور
شکر کے ساتھ اس حادثے کو برداشت کر نے ہمت اور تو فیق نصیب فرما۔ا ٓمین:
|