مولانا حکیم ادریس حبان رحیمی مرحوم
فتح محمد ندوی
تمام عمر رہ ِ رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا تو دم نہیں ہوتا
(منیر نیازی)
ممتاز حکیم ماہر نباض حضرت مولانا ادریس حبان رحیمی صاحب مرحوم سے کبھی
باضابطہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ البتہ عالی جناب مفتی محمد ساجد
قاسمی کھجناوری (مدیرماہنامہ صدائے حق گنگوہ) کے وسیلے سے ان سے شناسائی کے
راستے ہموار ہوئے۔فون پر جب بھی گفتگو ہوتی تھی تو پہلے مفتی ساجد کا نام
لینا پڑتاتھا۔ اس کے بعد مکمل شرحِ صدر کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ میری
گفتگو کا موضوع ان سے ہمیشہ خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے ہوتا تھا۔ فضل
الٰہی سے جہاں ان کو ودیعت کے طور پر انسانی نبض شناسی پر مکمل مہارت حاصل
تھی وہیں آپ کو خوابوں کی تعبیر کی فہم اور اس پر بھرپور ادراک حاصل تھا۔
ایک مرتبہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ میری بیٹی نے خواب میں اپنے سر میں کیڑے
چلتے ہوئے دیکھے ہیں۔میں نے حبان رحیمی صاحب سے اس کی تعبیر معلوم کی تو آپ
نے اس خواب کی یہ تعبیر بتائی کہ اب اس عورت کو جس بچہ کی ولادت ہو گی اس
خواب کی تعبیر کے مطابق وہ لڑکی ہوگی ۔خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے ان سے
ایسے بہت سے تجربات ہوئے جن کی بنیاد پر آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ
علم تعبیر خواب میں بھی ممتاز اور منفرد تھے۔
مولانا حبان رحیمی مرحوم نے اکابر اور بزرگوں کی عظمتوں اور رفعتوں کا علمی
اور روحانی مسکن سرزمین گنگوہ سے اپنے کشکول معرفت کو بھرا بلکہ فقیہ النفس
حضرت گنگوہی کے گھرانے سے برا ہ را ست استفادہ کیا۔ روح اور قلب کی
بیماریوں کے ساتھ جسمانی طبیب حاذق کے رازوں سے وہیں آپ واقف ہوئے۔ دراصل
حضرت گنگوہی کے پوتے عبد الرشید محمود حکیم ننھے میاں کے بھائی کامل مصطفی
مرحوم کی صحبت نے ان کی تربیت میں بنیاد کے پتھر کی حیثیت سے کردار ادا
کیا۔روحانی اور جسمانی طور پر مکمل حذاقت کے ساتھ مولانا حبان رحیمی صاحب
بہ حیثیت طبیب اپنے شیخ کے حکم سے بنگلور ہجرت کر گئے تھے اور ایک طویل مدت
تک سر زمین بنگلور کو اپنی بھرپور روحانی اور جسمانی غذا فراہم کرتے رہے۔
مولانا کے روحانی اور جسمانی فیض سے جہاں بیمار لوگوں کے قلوب میں گرمی اور
جسم میں حرکت اور حرارت پیدا ہورہی تھی ۔ وہیں علم و کتاب کے متوالوں کے
لیے آپ کے قلمی نقوش تشنگی کا سامان بہم عطا کر رہے تھے۔
مولانا کے کارناموں کی فہرست میں مدارس اسلامیہ کا قیام اور نئی نسل کے
ایمان اور عقیدہ کے تحفظ کے لئے مثبت سوچ کے ساتھ مضبوط لائحہ عمل کا جو
خاکہ اور نقشہ ملتا ہے اور ساتھ ہی جس خوبصورتی اور زیرکی کے ساتھ آپ نے
ملی اور سماجی کاموں میں خصوصا تعلیم کے میدان میں جو بے لوث آپ کی خدمات
ہیں ان کا عنوان بڑا وسیع اور روشن ہے۔
حضرت مولانا کے احباب جس درد مندی اور خلوص سے آپ کے اخلاق اور کردار کا
ذکر اپنی مجلسوں میں کرتے ہیں اس سے آپ کی وضع داری ، جذبے کی صداقت و خلوص
، شخصیت کی دلکشی اور کریمانہ تال میل کا خو بصورت اعلان اور تعارف ہے مزید
اس سے آپ کی احترام نوازی اور احباب شناسی کا بھی بہ خوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے ۔
مولانا حبان رحیمی مرحوم کی جس ادا نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علماء
اور طالبان علوم نبوت کا حد درجہ احترام اور قدردانی کے وقعات ہیں ۔ مولانا
کے یہاں اس قدردانی کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ کبھی آپ نے اپنی
زبان سے کسی طالب کا نام نہیں لیا ہمیشہ احترام میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو’’
حضرت ‘‘کہتے تھے ۔
مولانا حکیم ادریس حبان رحیمی سے شناسائی اور تعلق میری زندگی کی خوبصورت
تشکیل اور بازیافت ہے۔ میں حبا ن رحیمی کی اس یافت اور دریافت پر مفتی ساجد
کھجناوری کا ممنون کرم ہوں کیوں کہ بہ شمول حبان رحیمی مرحوم کے بہت سی
روحانی اور عرفانی قلمرو اور قلم وکتاب سے وابستہ بزم خیال میں رسائی آپ ہی
کے توسط سے عمل میں آئی۔
مولانا حکیم ادریس حبان رحیمی مرحوم نے بڑی فتوحات، فار غ ا لبالی اور
کامیابی کے ساتھ زندگی کی تر یسٹھ بہاریں دیکھیں ۔ تاہم انہیں اپنی وفات سے
پندرہ دن پہلے طبیعت میں اچانک کچھ نقاہت سی محسوس ہوئی ۔جس سے ا نہیں یہ
خیال شایدہوچکا تھا کہ اب آفتاب زندگی لب بام آچکا ہے۔ اسی گمان میں اب وہ
مسافران آخرت میں شامل ہونے کے لئے اس کی تیاری میں بسر و چشم لگ گئے تھے
تمام ضرروی اور بکھرے ہوئے کاموں کو انہوں نے مکمل انہماک اور توجہ سے
سمیٹنا شروع کردیا تھا ۔ وقتا فوقتا وہ پہلے سے زیادہ گھریلو کاموں پر
دھیان دے رہے تھے ۔ خصوصاً اپنے بیٹوں کو وہ کاموں کی ترتیب اور حسن انتظام
کا سلیقہ اور ہنر بھی سمجھا رہے تھے کس بیٹے کی کیا ذمہ داری ہے کس کو
کونسا کام کرنا ہے اپنی بہنوں اور احباب کے حقوق اور خیال کے بارے میں ان
کو نصیحتیں اور تلقین وغیرہ کا پورا سبق خوبصورتی سے پڑھانے میں لگے ہوئے
تھے۔ اسی دورانیے میں انہوں انپے کچھ احباب کو نہ صرف یاد کیا بلکہ کچھ
خطوط بھی ان دوستوں کے نام لکھے جن میں ایک خط جناب مفتی ساجد کھجناوری کے
نام بھی لکھا ۔ خط کے مشمولات کا تو مجھے علم نہیں لیکن مفتی ساجد صاحب کے
نام ا ن کا جو خط ہے اس میں انہوں نے مفتی صا حب کی صلح اور صالحیت اور ان
کا ذوق سلوک اور حصول معرفت کا جذبہ او رلگن دیکھ کر ان کو اپنا مجاز بنانے
کی سند بھی فراہم کی ۔
آخر سب گمان اور خیال حقیقت میں تبدیل ہوکر ٹھیک پندرہ دن کے بعد حضرت
مولانا حکیم ادریس حبان رحیمی کی اچانک موت کی خبر سے دل پر بڑا صدمہ
گزرا۔بلا شبہ ہم سب خدا کے ہر فیصلے پر راضی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ حکیم بھی ہیں
اور علیم بھی اور یہ سب اس کی حکمت کے فیصلے ہیں وہ جب اور جس وقت جو چاہتا
ہے کرتا ہے اس کے فیصلوں پر کسی کی کیا مجال کہ لب کشائی کرسکے۔ بہرحال
حبان رحیمی مرحوم کے اس جانگداز حادثہ سے جہاں موت و حیات کی کشمکش میں
مبتلاہزاروں مریض سوگوار ہو گئے۔ وہیں قافلہ علم و عرفان کے مسافروں اور
متلاشیوں کے لیے آپ کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے۔
|