چند سالوں سے تسلسل کے ساتھ 8 مارچ کا دن ’’ عورت کی
آزادی ‘‘ کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ جس میں یہ باور کروایا
جاتا ہے یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ عورت ایک کمزور مظلوم طبقہ
ہے جس کے مقدر میں آزادی جیسی نعمت نہیں ہے۔ عورت کی آزادی کی بات، نعرے ،جلوس
اجلاس، تبصرے وغیرہ میڈیا سوشل میڈیا پر نمایاں ہوتے ہیں اور ہم ساب جانتے
ہیں کہ ان کے پیچھے مظلوم اور بے بس عورتیں نہیں ہوتیں بلکہ غیر ملکی فنڈز
اور مفادات ہوتے ہیں۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ آج کی عورت مظلوم بے بس ہے اور عورت پر ظلم کے پہاڑ
گرائے جارہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے دنیا کے کس حصہ میں عورتوں کے ساتھ
ایسا ہو رہا ہے یعنی عورتوں کے ساتھ جانوروں والہ سلوک ہو رہا ہے؟ کیا دنیا
کشمیر فلسطین میں عورتوں کی چیخ و پکار سُن رہی ہے؟ وہاں عورتوں کے ساتھ
جانوروں سے بھی بڑھ کر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ماؤں کے سامنے شیر خواروں کو زبح/
قتل اور جلایا جارہا ہے۔ معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی، نسوانی اعضاء
کاٹے جا رہے ہے؟بھائی باپ کے سامنے برہنہ کر کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورتوں کے حقوق کی بات وہاں کیوں نہیں کی جاتی؟ عورتوں کو وہاں انسان نہیں
سمجھاجاتا مگر عورت کی آزادی کا ڈرامہ یہاں کیوں کیا جاتا ہے۔ مطلب یہاں
بھی انسانیت کے نام پر حوانیت کو فروغ دینا یعنی عورت کی آزادی کے نام پر
عورت تک آزادی حاصل کرنا۔
مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا انسانیت ہے اور یہی دینِ اسلام ہے! یہ
بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت احترام دیا جس کا
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔عورت اور مرد کے درمیان تفریق کرنے والوں
کو اﷲ پاک کا ارشاد جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے کہ (اور جو نیک کام کرے گا،
مردہو یا عورت، اور وہ صاحب ایمان بھی ہو گا تو ایسے لوگ جنت میں داخل
ہونگے، اور انکی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائیگی : سورۃالنساء: 144)
اسلام نے عورت کی فضیلت اِسکا مقام و مرتبہ اور رفعت و شان بیان کرتے ہوئے
اسے ایک عظیم نعمت اور اﷲ کا ایک قیمتی تحفہ قرار دیا ہے اور اس کی عزت و
تکریم اور رعایت و نگرانی یا خاص خیال رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے۔
نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ
جس کے بچی پیدا ہوئی، اس نے اسکو زندہ درگور نہیں کیا، اس کی اہانت و تحقیر
نہیں کی اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دی، اﷲ تعالی اسے جنت میں داخل کرے
گا (مسند احمد)
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے مروی حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ بلوغت کو پہنچ گئیں، وہ قیامت کے دن
یوں میرے ساتھ (جنت میں)ہو گا اور آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنی دو انگلیوں
کو جوڑ کر اشارہ کیا } (صحیح مسلم)
اور صحیح مسلم میں ہی ایک اور حدیث میں ہے، کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم
نے فرمایا:
{ جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ انکے معاملہ میں صبر کرے اور اپنی کمائی سے
انھیں کپڑا پہنائے (کھلائے پلائے) وہ اس کے لئے جہنم کی راہ میں دیوار بن
جائییں گی } (صحیح مسلم)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام نے نے عورت کو ماں ہونے کی صورت میں
ایک خاص درجہ کے اکرام و احترام سے نوازا ہے اور اس کا خصوصی خیال رکھنے
اور خدمت و حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد الہی ہے:
تیرے رب کا یہ فیصلہ صادرہو چکا ہے کہ تم لوگ اسکے سوا کسی کی عبادت ہرگز
نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ (بنی اسرائییل: 23)بلکہ ماں
کے ساتھ حسن سلوک کو والد سے بھی زیادہ اہمیت دی۔ صحیح بخاری و مسلم میں
حدیث ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے پاس ایک آدمی آیا او اس نے عرض کیا:اے
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و سلم! میں کس کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کروں؟ نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس صحابی رضی اﷲ عنہ
نے پوچھا: اس کے بعد؟ تو فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس نے عرض کیا: اسکے
بعد؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اور اس نے کہا:
اسی کے بعد: تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ } (متفق
علیہ)
اسلام نے عورت کے ’’بیوی ‘‘ہونے کی حیثیت سے بھی بڑے حقوق بیان کئے ہیں۔
صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:خبردار
عورتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرو۔ وہ (اﷲ کی طرف سے) تمھارے زیردست
کنیزیں ہیں (متفق علیہ)
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے
سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرکی عورتوں کے لئے چھا ہے۔ } (ابوداؤد، ترمذی،
مسند احمد)
سبحان اﷲ عورت کی آزادی عورت کے حقوق کا واویلہ کرنے والے نبی آخر الزماں
حضرت محمد ﷺ کا فرمان عالی ِ شان پڑھ کر محسنِ انسانیت ﷺ کے غلاموں کے
غلاموں کے قدموں میں گر کر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں آج وقت ہے ورنہ
زندگی تو بے وفا ہے !فرمانِ عالی شان ہے کہ کسی بیوہ و مسکین کی مدد کرنے
والا ایسے ہے جیسے کہ کوئی اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو، یا پھر وہ
ایسے ہے جیسے کوئی بلاناغہ راتوں کو تہجد گزارہو، یا پھر کوئی مسلسل روزے
رکھنے والا ہو۔ } (بخاری و مسلم)
ثابت ہوا کہ عورت کے حقوق وہ ہی جو اسلام نے ساڑھے چودہ سوسال سے پہلے عورت
کو دئیے ہیں۔
|