اسلام میں عورت کا سماجی مقام و مرتبہ

اسلام تاریکی دنیا میں وہ مشعلِ راہ ہے جس نے اعتدال کا رویہ اپناتے ہوۓ جہاں عورت کا سماج میں ان کا جائز مقام و مرتبہ دلایا وہیں نہ انہیں چاردیواری میں مستقل قید کردیا نہ انہیں شتر مرغ کی طرح بےراہروی میں آزاد چھوڑدیا بلکہ انہیں نازک آبگینے کی مانند حیا کی چادر سے مزین کرکے ملکہ کا درجہ دیا. اسلام نے جس طرح عورتوں کو حقوق کے زیور سے آراستہ کیا ہے آپ دنیا کی تاریخ کے اوراق جانچ لیں ایسی نظیر کہیں نہیں ملے گی. ہوس و جاہلیت کی سولی پہ چڑھی زبوں حال عورت کو نسوانیت, عزت و وقار کا تاج پہنا کر معاشرے میں وہ مستحکم اور معزز مقام دیا کہ چہار سو آوازیں بلند ہونے لگیں...
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
خاک کے ذروں کو ہم دوش ثریا کردیا

فرق کہاں آتا ہے؟ وہ ہے اسلام کی بےنظیر تاریخ سے نابلدی. نہ صرف عورتیں بلکہ مرد بھی اسلام میں عورتوں کے کردار, ان کے حقوق سے یا تو ناواقف ہیں یا پھر اب بھی اپنے ذہن میں جاہلیت کا زہریلا بیچ لیے پہلوتہی اپنا رہے ہیں.
افسوس تو یہ ہے آج بھی معاشرہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ سماج مرد سے بنتا ہے حالانکہ معاشرے کی فلاح و بہبود عورت کے بغیر ناممکن ہے. اس اہم جز کو حقیر جاننا, اس کے وجود سے انکاری رہنا قدیم جاہلانہ سوچ کے حامل افراد کا وطیرہ رہا ہے. آج جب برابرئ حقوق کی بات ہوتی ہے تو مختلف طبقہ سوچ رکھنے والوں کے ہاں سے تنقید آتی ہے مرد اور عورت حقوق کی سطح پہ کبھی برابر نہیں ہوسکتے. اسلام نے ان تمام قبیح آراء کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں.
• اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ بحیثیت انسان عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد ربانی ہے :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
( النساء، 4 : 1)

• اﷲ تعالیٰ کے اجر کے استحقاق میں دونوں برابر قرار پائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.

’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو‘‘
( آل عمران، 3 : 195)

پس ثابت ہوا مرد و زن حقوق کی سطح پہ مساوی ہیں فرق ہے تو, مرد کو قوام کہا گیا. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد کو عورت پہ حاکم بنا دیا گیا بلکہ ایک درجہ بڑھادیا ہے اور وہ درجہ ہے ذمہ داری کا. عورت کا حق ہے اس کے محرم اپنے قوام ہونے کا فرض ادا کریں. عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:

عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ:۲۳۶)

"خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔"

ساتھ ہی اہل و عیال کی حفاظت کرے, عورت کو اپنے گھر میں پرسکون ماحول میسر کرے کہ ان کی اولاد کی تربیت مثبت انداز میں ہو اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل ہو.
جہاں عورت کو معاش کی فکر سے آزاد کیا گیا ہے وہیں اسے فیصلے کا اختیار بھی دیا گیا ہے کی ضرورت پڑنے پہ وہ کما بھی سکتی مگر اپنے تقدس و عفت کے حفاظت کرتے ہوۓ. اس دائرے میں رہتے ہوۓ جس کی نصیحت شریعتِ اسلام نے کی ہے.

آج جو لوگ مغرب کی زد میں آکر عورت کی معاشی خود مختاری پہ سوال اٹھاتے ہیں, ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے معاشی طور پر بھی عورت کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ عورت کو جائیداد میں اس کا حصہ دلایا تو وراثت میں جائز حق دیا ہے. قرآن میں اللّہ تعالیٰ ارشاد کرت ہیں. " لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ "
یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱)

یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی اقارب سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔

ساتھ ہی عورت کو اس بات کا مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے کہ اپنی ملکیت کو اگر کسی کاروبار میں لگائے تو اس کے منافع میں وہ بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ اس میں اس کا کو ئی شریک نہیں۔ پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے, لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ ساتھ ہی واضح کردیا کہ اگر عورت کمانے لگ جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا شوہر اس کا حق مارنے لگ جائے، نہیں بلکہ عورت کتنی ہی مالدار اور غنی کیوں نہ ہوجائے اس کے نان نفقے کا ذمے دار شوہر کو ہی ٹھہرایا گیا ہے.

وہیں اسلام عورت کو حقِ مہر دیتا ہے یعنی اگر اس سے زوجیت کا تعلق قائم کیا جائے تو اسے اس تعلق کے عوض رقم، زیور یا جائیداد جو بھی چیز طے کی جائے وہ ادا کی جائے اور شوہر کے لیے طے شدہ مہر کی رقم ادا کرنا فرض کردی گئی ہے۔

اللّہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ:

وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)

"عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاؤ۔"

اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مستحکم ہو. پر افسوس جہیزوں پہ بیش بہا خرچ کرنے والے اس معاشرے میں عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔

تاریخِ اسلام کے سنہرے پنوں کو پلٹیں تو پتہ چلتا ہے, اسلام کی پہلی کرن پڑتے ہی عرب سے معصوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم کا قلع قلمع کیا. حضرت عبداللّه بن عباس رضی اللّه عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ جس کی لڑکی پیدا ہو وہ اس کو زندہ رکھے، اس کی بے توقیری نہ کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اس کو خدا جنت میں داخل فرمائے گا۔ ‘‘ (مسلم)

عورتوں کے جائز حقوق کو ضبط کرنے والوں کو اسلامی تاریخ کے سنہرے ادوار کو سمجھنا بہت ضروری ہے, خاص کر دورِ محمدیﷺ. جہاں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ جیسے جلیل القدر صحابیءِ رسول کی والدہ محترمہ کو ان کی تعلیم کی بنیاد پر ریاستِ مدینہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے کلیدی درجہ دیتے ہوۓ وزیرِ خوراک کے عہدے پر فائز کر رکھا تھا۔ وہ خود مدینہ کے بازاروں میں جاتیں اور اشیاءِ خوردونوش اور دیگر معاملات کا جائزہ لیتیں۔ وہیں خود نبی ﷺ کے گھرانے میں حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ (ام المومنین) بھی نظر آتی ہیں، جو گھر میں رہ کر چمڑہ رنگنے کا کام کرتی تھیں اور مناسب پیسے کماتی تھیں اور اپنی کمائی میں سے بے پناہ صدقہ و خیرات کرتی تھیں۔ان کی اسی صفت کی وجہ سے نبی اکرمﷺ انہیں ’لمبے ہاتھوں والی‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ ذرا اور گہرائی میں جائیں تو حضرت عبداللّہ بن مسعودؓ کی اہلیہ محترمہ ملیں گی, جو عطر فروش تھیں جن کا بہت بڑا کاروبار تھا، یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر سے زیادہ کماتی تھیں۔ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے استفسار کیا کہ کیا میں اپنی کمائی اپنے شوہر کو دے سکتی ہوں کہ ان کے حالات تنگ ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس عمل کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ اس سے تمھیں دوگنا ثواب ملے گا، صلہ رحمی کا بھی اور صدقہ کا بھی۔ اگر عورتوں کا کمانا معیوب ہوتا تو حضور اکرمﷺ کبھی اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے. البتہ اگر یہ عمل اسلامی حدود سے سے باہر ہو تو سراسر غلط ہے.
وہیں ذرا اور گہری نگاہ ڈالیں تو اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہمیں میدانِ حرب میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ نظر آتی ہیں۔ جنگِ خیبر اور جنگِ قادسیہ میں طِب کی ماہر خواتین جنگوں میں زخمی ہونے والے مردوں کی مرہم پٹی کرتی نظر آتی ہیں. تو وہیں حضورِ اکرمﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ نے ایک لیڈر کی حیثیت سے حضرت علی ؑ کے ساتھ، چاہے ایک غلط فہمی کی بنیاد پر ہی سہی، جنگ بھی لڑی تھی. یہ تعلیم دیتے ہوۓ کہ اسلام کی فلاح و بقا کے لیے جو بھی کرنا پڑے کر گزرو.

آج بھی کچھ تنگ نظر, قدیم پسمندانہ سوچ رکھنے والے عورتوں کی تعلیم کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں. تُف تو یہ ہے کہ خود عورتیں بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کا کام فقط چولہا چوکھی اور بچوں کو سنبھالنا ہے. حالانکہ اللّہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ملکہ کا درجہ دے کر کائنات کا اہم کام سونپا ہے, معاشرے کی نشونما, اپنی اولاد کو بہترین تربیت دینا, اور گھر کو علم و ادب اور اسلام کے روشنی سے منور کرنا کہ معاشرہ بھی ایسا ہی بنے. عورتوں کی اس اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوۓ اسلام میں عورتوں کی تعلیم پر اس دور میں زور دیا گیا جب عرب میں گنتی کے افراد ہی پڑھے لکھے تھے اور عورتیں کسی گنتی ہی میں نہیں تھیں۔ عورت کا یہ حق ہے کہ اسے بہترین ماحول میں اسلامی علم و ادب اور دنیاوی ضروری ہنر کے زیور سے آراستہ ہو.

تعلیم و تربیت میں بچیاں پیچھے نہ رہ جائیں یا والدین ان کی تعلیم سے پہلوتہی نہ کرجائیں اس لیے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔( ابنِ ماجہ )
اسلام نے علم کو فرض قرار دے کر عورتوں کی راہ میں جو تمام رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "طلب علم فریضة" اور دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة(۶)

جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔

اسلام ہمیں عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بناتا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرسکتی ہے جو اسلام نے اس پر عائد کی ہے.

اسلام میں عورت کی تعلیم پر جتنا زور دیا گیا ہے اس کی روشن مثال اُم المومنین عائشہ رضی اللّہ عنہا کی زندگی سے ملتی ہے، جن کے بارے میں ان کے ممتاز ترین شاگرد عروہ بن زبیر کا کہنا ہے کہ " میں نے تفسیر قرآن، فرائض، حلال و حرام، ادب و شعر، اور تاریخ عرب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا".

بے شک امہات المومنین کی سیرتیں, ان کے فن امت کی عورتوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں. چنانچہ ہمارے سامنے آج حضرت عائشہ رضی اللّہ عنہا سے 2210 احادیث مروی ہیں. نہ صرف یہ بلکہ وہ طِب اور ریاضی کے علوم کی بھی ماہر تھیں. یہ وہ روشن مثال ہے جو ثابت کرتی ہے کہ اسلامی نظام کی حدود میں رہ کر عورت کیا کچھ نہیں کرسکتی۔۔!

حضرت ابو موسی اشعری جو خود ایک جید عالم تھے، فرماتے ہیں " جب صحابہ کرام رضوان اللّہ اجمعین کو کسی معاملے کے بارے میں علم نہ ہوتا تو ہم حضرت عائشہ رضی اللّہ عنہا سے دریافت کرتے اور وہ ہماری رہنمائی کرتیں".

آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہو گا۔ 8 ہزار صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا کے شاگرد ہیں۔

جنہوں نے پردے میں رہ کر دو ہزار سے زیادہ احادیث کو روایت کیا- پردے کے پیچھے سے ہی جنہوں نے اُس وقت کے لیڈروں کو سیاسی مشورے دیے، حجاب میں ہی آ نے والی نسل کی تعلیم و تربیت، خطبات اور وقت پڑنے پر امت مسلمہ کے انتشار کو مٹانے کے لیے فوج کی کمان بھی کی۔ اور یہ سب پردے کے آ داب کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیا۔ اگر اسلام عورت کے معاملے میں تنگ نظر اور بنیاد پرست ہوتا تو ام المومنین کبھی یہ مثالیں ہمارے لیے قائم کر کے نہ جاتیں۔

پر آج سوال یہ نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو کیا مقام و مرتبہ دیا بلکہ ضروری امر اس سوال کی کھوج اور عمل درآمادی کا ہے کیوں اب تک عورتوں کو پنے حقوق کے بابت درست معلومات نہیں ہیں؟ کیوں اب تک اسلام نے جو مقام و مرتبہ بتایا وہ اب تک نافذ نہ ہوسکا؟

یہ باتیں ہر مرد و عورت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورت کو کمزور نہیں بنایا کہ زمانہ اسے رگیدتا پھرے بلکہ وہ مستحکم مقام دیا جس کی عورت اعزازی ہے. جہاں وہ اپنی عفت کی حفاظت اور گھریلو ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں ایک فعال اورسرگرم کردار ادا کرسکیں. اللّہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے ہمیں دین پہ استقامت دیں اور وہ اسلامی معاشرہ تشکیل کرنے استطاعت دیں جہاں شریعت کے پابند رہتے ہوۓ عورتوں کو ان کے جائز حق ملیں. آمین.
 

Haya Zuhaa Rehman
About the Author: Haya Zuhaa Rehman Read More Articles by Haya Zuhaa Rehman: 8 Articles with 10541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.