دو دن قبل دلوں کو سکون اور راحت پہنچانے والی خبریہ
سامنے آئی کہ گجرات پولیس کی جانب سے 2001 میں جن 124 مسلم نوجوانوں کو
غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں گرفتار کیا گیاتھا انہیں
گجرات کی عدالت نے 20 سال بعد باعزت بری کردیاہے۔ اُن تمام لوگوں کے خلاف
اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا یعنی کہ سیمی جس پر کانگریس کے دور میں
پابندی لگی تھی اس سےجڑے رہنے کا اس سے وابستگی کا الزام تھا لیکن پولیس ان
تمام الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔اور دل پر پتھر رکھ کر ان تمام بے
گناہ اور معصوم افراد کو انہیں باعزت بری کرنا پڑا۔
قارئین میں آپ کو بتادوں کہ یہ تمام ۱۲۴؍بے گناہ افراد جنہیںگجرات میں
سورت کے راج شاہی ہال میں 27 تا 30 مارچ 2001 کو آل انڈیا مائناریٹی
ایجوکیشن بورڈ کی جانب سےمنعقدہ ایک سمینار سے گرفتار کرلیا گیا تھا جس میں
ملک بھر سے مسلم نوجوانوں نے شرکت کی تھی۔ اس سیمینار میں پورے ملک سے
تعلیمی اور علمی شخصیات ،ڈاکٹرس، انجینئرس، وکلاءاورسماجی خدمتگار شامل
ہوئے تھے ان پر الزام یہ لگا کہ یہ ملک میں غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے
والے ہیں تاہم سورت پولیس نے 27 مارچ کی رات پروگرام میں موجود تمام شرکاء
کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔گجرات پولیس نے تمام 124 مسلم نوجوانوں کو
سیمی (کلعدم تنظیم) کا کارکن بتایا تھا اور ان پر غیرقانونی سرگرمیوں میں
ملوث ہونے اور ملک کے خلاف کسی بڑی کاروائی کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام
عائد کیا تھا۔ تمام 124 ملزمین تقریباً ایک سال قید میں رہے۔لیکن اس دوران
میڈیا کی کارستانیوں کی وجہ سے ان سبھی کا کریئر اورسماجی و معاشی زندگی
برباد ہو گئی ۔ انہیں پولیس کی جانب سے بھی مسلسل ہراساں کیا جاتا
رہاپریشان کیا جاتا رہا۔ بالآخر انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن گذشتہ
20 سال سے مقدمہ چل رہا تھا اور ہر ماہ تمام ملزمین عدالت میں پیش ہورہے
تھے۔ہر ماہ ان تمام افراد کے ہزاروں روپئے خرچ ہورہے تھے۔وکیلوں کی فیس
،آنے جانے کے اخراجات کے علاوہ رہنے کھانے پینے کے لئے بھی اخراجات ان
تمام کو برداشت کرنے پڑے۔
قارئینسورت کی عدالت نے وہ تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس کی گونج آنے والے کئی
دنوں تک سنائی دے گی۔ عدالت نے اس معاملے میں سنیچر کو حتمی سماعت کرتے
ہوئے اپنا فیصلے میں تمام ۱۲۷؍ افراد کو با عز ت بری کرنے کا حکم دیا۔ واضح
رہے کہ ان۱۲۴افراد میں سے۵؍ افراد اب یہ فیصلہ سننے کے لئے اس دنیا میں
نہیں ہیںکہ وہ باعزت بری ہوچکے ہیں۔ ۲۰؍ سال کے طویل عرصے تک جاری رہنے
والی شدید ذہنی ، سماجی اور معاشی پریشانی سے اب یہ ملزمین آزاد ہو رہے
ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلےمیں کہا کہ پولیس ان ملزمین کے خلاف ایک بھی’ قابل
اعتماد ، واضح اور اطمینان بخش ‘ثبوت نہیں پیش کرسکی ۔۔۔چیف جوڈیشیل
مجسٹریٹ اے این دوے کی عدالت نے قابل تقلید فیصلہ دیتے ہوئے پولیس کی تفتیش
اور اس کے پورے کیس کے بخیے ادھیڑ دئیے۔ انہوں نے فیصلے میں شامل اپنے
تبصرے میں کہا کہ سورت پولیس اور استغاثہ نے ان افراد کے خلاف سنگین ترین
دفعات عائد کی تھیں لیکن وہ اتنے طویل عرصے میں ایک بھی ایسا ثبوت نہیں پیش
کرسکے کہ جسے قابل اعتباراور اطمینان بخش قرار دیا جاسکے۔ عدالت نے اپنے
تبصرے میں پولیس کی سخت سرزنش کرتے ہو ئے یہ بھی کہا کہ ان سبھی پر جس طرح
سے یو اے پی اے کا اطلاق کردیا گیا وہ تو اور بھی ناقابل قبول ہے کیوں کہ
ان میں سے کوئی بھی منظم مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل نہیں رہا ہے اور نہ ا ن
کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ پھر کیسے پولیس نے اتنی سخت دفعات ان پر عائد
کردیں؟
واضح رہے کہ جن ۱۲۷؍ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر کا تعلق
تو گجرات سے ہے لیکن ان میں مہاراشٹر کے ودربھ سے بھی بڑی تعداد میں نوجوان
تھے۔ ان کے علاوہ مدھیہ پردیش ، مغربی بنگال، تمل ناڈو ،کرناٹک، راجستھان
اور اتر پردیش کے بھی افراد تھے۔میرے شہر اورنگ آباد سے قابل احترام ضیاء
الدین صدیقی بھی اس کیس میں شامل تھے۔۔۔۔۔باعزت بری ہونے کے بعد ضیاالدین
صدیقی نےسب سے پہلے ’اللہ کا شکر ادا کیا اور سسٹم پر سوال اٹھایا‘۔ انہوں
نے کہا کہ ’20 سال بعد ہمیں مقدمہ سے بری کردیا گیا لیکن اس عرصہ کے دوران
جو تکالیف ہم نے اور ہمارے خاندان نے جھیلی ہیں اسے کیسے دور کیا جاسکتا
ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ قانونی جنگ کے دوران ہماری زندگی کے 20 سال پوری طرح
برباد ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔
میرے عزیزوہمارے ملک بھارت کے قانون کا سسٹم کچھ اسطرح کا ڈیزائن کیاگیا ہے
کہ جب کبھی کسی پر کوئی الزام لگتا ہے اور وہ اس کے تحت گرفتار ہوتا ہے تو
فیصلہ آنےتک یا تو وہ مرچکا ہوتا ہے یا پھر بے گناہی ثابت کرتے کرتے اس کی
اوالادیں بوڑھی ہوچکی ہوتی ہیں۔
ملک بھر میں اس طرح کے بہت سارےعدالت کے فیصلے آئے ہیں جن میں بڑی تعداد
میں گرفتاربرسوں جیلوں میں قید رکھے گئے مسلم نوجوانوں کو کئی سالوں کےبعد
عدالت نےباعزت بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔جب بے گناہی کا فیصلہ آیاتو وہ
بوڑھے، ان کا کیریر تباہ،،جوانی تباہ‘ گھر بکھرا ہوا، نوکری روزگار ختم، ان
کے بچے تعلیمی میدان میں پیچھےاوربے سہارا ،والدین ضعیف اور امراض کا
شکاراور رشتہ دار ان سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔ رشتہ دار تو رشتہ دار محلہ
اور کالونی میں ان سے اس طرح کا برتائو پیش کیا جاتا ہے اور ایسی نظرو ں سے
دیکھا جاتا مانو وہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ہوں۔
ایسے نوجوان جو بوڑھے ہو کر باعزت بری ہوتے ہیںانہیںنہ تو کوئی معاوضہ دیا
جاتا ہے اور نہ ہی ایسے وسائل پیدا کیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی باقی بچی
زندگی گزارسکیں۔اور تو اور قانون کے رکھوالے انہیں اس طرح سے باعزت بری
کرتی ہیں کہ معاشرے میں وہ بے عزت ہو کر رہ جاتے ہیں ان کا باعزت شہری
بنانے کے لئے ہمارے یہاں کوئی قانون نہیں ہے۔۔۔۔۔اور ان سب سے بڑھ یہ کہ ان
پولس والوں اور قانون کے رکھوالوں پر عدالت کیوں کوئی سزا طئے نہیں کرتی کہ
تم نے ان بے گناہو ںکے ۲۰۔۔۲۰ سال اور ۲۵۔۔۔۲۵ سال تباہ وبرباد کردئے۔ اب
تمہیں یہ سزا دی جائے گی۔۔۔نہیں دوستو بالکل بھی نہیں۔۔۔انہیں کوئی سزا
نہیں دی جاتی۔۔۔وہ ہر بار کی طرح کھلم کھلا دوسروں کی زندگیاں تباہ کرکے
اپنی زندگیوں میں مست ہوجاتے ہیں۔
اور ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ جیلو ں میں ہندو،برہمن، راجپوت،پنڈت اور نہ
جانے کتنے ہندوئوں کی الگ الگ ذات اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے
ہیں وہ بہت کم جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں جبکہ ان پر سنگین الزامات ہوتے
ہیں۔۔۔۔۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندووں کے مقابلے مسلمانوں کو جیلوں
میں زیادہ جانا پڑتا ہے اور وہی بھید بھاؤ کے شکار زیادہ ہوتے ہیں۔اسی طرح
امیروں کے مقابلے غریبوں کو زیادہ دن جیل میں بتانے پڑتے ہیں۔ جس ملک میں
پھانسی پر سیاست ہوتی ہو اور ایک قیدی کو محض اس لئے پھانسی پر چڑھایا جاتا
ہو کہ وہ مسلمان ہے اور دوسرے کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہو کہ وہ ہندو
ہے،ایسی جگہ پر انصاف کی بات کرنا کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ مسلمانوں کو
دہشت گردی کے جھوٹے مقدموں میں پھنسانا عام بات ہے اور پھر ان کی ضمانت میں
روڑے اٹکانا بھی عام بات ہے مگر دوسری طرف حکومت پارلیمنٹ میں اعلان کرتی
ہے کہ وہ سادھوی پرگیہ سنگھ، کرنل پروہت اور سوامی اسیمانند جیسے دہشت
گردوں کی ضمانت عرضی کی مخالفت نہیں کرے گی۔ یہی نہیں ہندوستان میں فرضی
انکاؤنٹر کا شکار ہونے والوں میں بھی سب سے زیادہ مسلمان ہی ہوتے ہیں۔
تازہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی جیلوں میں سے مسلمان اپنی
آبادی کے تناسب سے زیادہ ہیں۔یعنی کہ مسلمان جیلوں میں زیادہ تعداد میں
پائے گئے ہیں۔سارے ثبوت گواہ اور حقائق موجود ہونے کے باوجود بھی ہندو دہشت
گرد آر ایس ایس اور گوڈسے کی اولادیں سنگین جرم کرنے کے باوجود بھی رہا
ہوجاتی ہیں۔ان کے استقبال کی تیاریاں کی جاتی ہیں اور انہیں اس طر ح کے
جرائم کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔۔۔کیا یہی انصاف ہے۔۔۔انصاف کی دیوی کہتی
ہے "بھلے ہی 100 مجرم گرفت سے چھوٹ جائیں، سزہ نہ پا سکیں، لیکن کوئی ایک
بے گناہ بھی غلط طریقے سے ناانصافی کا شکار نہ ہو"۔۔۔کیا یہی اندھا قانون
ہے جسے واقعی کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔۔یاپھر اس کی آنکھ تعصب زدہ ہوچکی ہے
جسے صرف مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔
اور پھردوستوکیا یہ گودی اور بکائومیڈیاکے چاٹوکر اینکراب چلا چلا کر گلا
پھاڑ پھاڑ کر یہ خبریں نہیں بتائیںگے کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان باعزت
بری ہوئے ہیں۔جن پر بے بنیاد الزامات عائد کردئے گئے تھے۔۔۔کیا اس فیصلہ پر
گودی چینلوںپر ڈبیٹ نہیں ہوںگے۔۔۔؟ کہاں چلے گئے وہ قانون کے ایکسپرٹ جب وہ
پرگیہ،اسیما، اور تمام وہ ہندو دہشت گردوں کے لئے ٹی وی چینلوں میں کھلی
بحث زوروشور سے کررہے تھے۔ظاہر ہے کہ آپ مسلمان ہیں اس لیے آپ کی برائی
دکھا کرواہ واہی بٹوری جاتی ہے آپ کو مجرم ثابت کرنے کے لیے میڈیا میدان
میں کود پڑتا ہے اور ان کے چاہنے والے خوش ہوتے ہیں ۔۔میں پوچھنا چاہتا ہوں
20کروڑ ملّت اسلامیہ میںسے ایسے کتنے لوگ ہیں جو جو simi کو جانتے ہیں؟
کتنوں کو معلوم ہے کہ ان پر پابندی کیوں لگائی گئی ۔؟؟ظاہر ہے کہ نہ ہم
اخبار پڑھتے ہیں نہ ہماری نظر اتنی وسیع ہے۔نہ حالات حاضرہ سے ہم واقف رہتے
ہیں۔ہم کو تو جو کچھ میڈیا دکھاتا ہے اکثر اسی کو سچ سمجھ لیتے ہیں ۔ہمارا
معاملہ دوستو ایسا ہے۔۔۔میں ہمیشہ کہتا ہوں’’صبح ٹوٹسٹ ۔۔دوپہر میں گوشت
اور شام میں بے ہوش۔۔۔ہم جیسے بھی، جو کچھ بھی ہیں اس بات کی کوشش کریں کہ
حق وصداقت کو تلاش کرنے ہی میں یقین رکھیں گے اور پوری ملت اسلامیہ میں
اتحاد، اور اسے جسدواحد بنانے کا کام کریں گے۔رواداری، انصاف، تعلیم، اکرام
مسلم کے لیے اپنے دلوں کو وسعت دیں گے۔مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے
قانونی جدوجہد کریں گے ۔باعزت بری کیے گئے بے گناہوں سے آنکھیں نہ چرائیں
گے۔اُنھیں معاشرے میں عزت کامقام دیں گے،ان کے ساتھ ہمدردی اور مواسات کریں
گے۔مومنانہ فراست سے معاملات کو دیکھیں گے اور اپنے اوقات کو پُر امن تعمیر
ی کاموں میں لگائیں گے۔ایسے مظلوموں سے ہمدردی کرکے اپنا فرض ادا کریں گے۔
آئیے سورت کیس میں رہا کیے گئے سیمی کے ۱۰۰ سے زائد اپنے بھائیوں کا
استقبال کریں اور قید و بند کے شکار دیگر برادران کی حمایت میں آواز
اٹھائیں، انہیں مظلوم سمجھیں مجرم نہیں _۔۔۔اورحکومت سے سختی سے سوال کیا
جائےکہ ان ایک سو سے زائد لوگوں کی جو زندگی جیل میں برباد ہوئی اور جوکچھ
مصائب انہوں نے بیس سال میں انصاف حاصل کرنے کیلیے برداشت کیے، اس کی
بھرپائی کون کرےگا؟ اور کون ان قانون کے رکھوالوں کو سزا دے گا جنھوں نے ان
پر بے بنیاد الزامات عائد کئے تھے۔۔کیا بس ایسے ہی چلتا رہے گا ۔۔۔کہ بے
بنیاد الزامات میں مسلمانوں کو جیلوں میں ٹھونسا جائے او ر پھر ان کی
زندگیاں برباد کرکےایک دن یہ فیصلہ سنادیا جائے کہ وہ بے گناہ ہیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ سورہ کہف میں فرماتا ہے:’’وہ چند نوجوان تھےجو اپنے رب پر
ایمان لائے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔۔۔
چلئے دوستو۔۔۔اللہ سے دعا ہے کہ اللہ امت کی ہر جانب سے ہر فتنہ اور شرور
سے حفاظت فرما۔۔۔دجالوں کے فتنوں سے حفاظت فرما۔۔۔قوم کے روشن چراغوں کی
۔۔۔امت کی فکر کرنے والوں ۔۔۔سینوں میںامت کا درد اور کڑھن رکھنے والوں کی
خصوصی حفاظت فرما۔۔۔ان کی اوران کے اہل وعیال کی جان مال عزت وآبرو کی
حفاظت فرما۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔رہے نام اللہ
کا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔
|