|
|
“بہن بہت بہت مبارک ہو آپ کو“ سلطانہ بیگم نے اپنی سمدھن کو ان کی بیٹی کی
خوشخبری سناتے ہوئے مزید کہا “آپ تو جانتی ہیں اس موقع پر لڑکی کی دیکھ
بھال اس کے اپنوں سے زیادہ بھلا کون کرسکتا ہے اس لئے رواج کے مطابق ہم
چھٹے مہینے میں ہی آپ کی بیٹی کو آپ کے گھر بھیج دیں گے۔ اس کے علاوہ بھی
آپ جو بھی طاقت کی غذائیں اپنی بیٹی کو کھلانا چاہتی ہیں وہ ضرور لے آئیے
گا“ |
|
سلطانہ بیگم کی زبان کو تو بریک ہی نہیں لگ رہا تھا۔
دوسری طرف حمیدہ جو نانی بننے کی خبر سن کر ابھی پوری طرح خوش بھی نہ ہونے
پائی تھیں۔ انھیں تو سمدھن کی باتوں سے نئی پریشانیوں نے گھیر لیا۔ |
|
لوگ عام طور پر لڑکیوں کے حقوق پر بہت باتیں کرتے ہیں
لیکن ان پہلوؤں کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے معاشرے کی عورت پر براہِ راست
اثر انداز ہوتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر اس کے ماں باپ
خوش سے زیادہ ننھی بچی کے سسرال کے حوالے سے فکرمند ہوجاتے ہیں؟ اس کی وجہ
کچھ ایسے رسم و رواج ہیں جو لوگوں نے زبرداستی لڑکی اور اس کے خاندان سے
نتھی کر رکھے ہیں۔ |
|
جہیز اور فضول رسموں کے بہانے پیسے بٹورنا |
شادی میں گھر بھر کر جہیز دینے کے علاوہ کچھ ایسی رسمیں
بھی ہوتی ہیں جن کا مقصد کسی بہانے سے پیسے بٹورنے ہوتا ہے۔ ان رسومات میں
دولہے کو سلامی، لڑکی کے گھر والوں کی جانب سے لڑکے کو پورے خاندان کو جوڑے
دینا بلکہ اکثر گھرانوں میں تو ساس نندوں کو سونے کی کوئ چیز بنوا کر دینے
کی فرمائش بھی کی جاتی ہے۔ اور شادی تو محض شروعات ہے۔ اس کے بعد تو
فرمائشوں اور ڈیمانڈز کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو تب تک ختم نہیں
ہوتا جب تک لڑکی خود کسی کی ساس نہ بن جائے۔ |
|
|
ناشتہ لڑکی کے گھر سے آئے گا |
یہ بھی ایک ایسی ہی بے جا روایت ہے جس کا نا کوئی سر ہے
نا پیر۔ وہ لڑکی جو ایک رات پہلے ہی ٹرک بھر کر جہیز لے کر آئی اصولی طور
پر تو اس کی نئی زندگی کی شروعات کے موقع پر سرال والوں اور شوہر کی
ذمےداری ہوتی ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے لیکن نہیں۔ ابھی دلہن سو کر بھی
نہیں اٹھہ ہوتی اور سسرال والوں کی توقع ہوتی ہے کہ اس کے میکے والے پورے
خاندان کا ناشتہ لے کر حاضر ہوجائیں۔ |
|
|
چوتھی کی رسم |
لڑکی کی شادی کے بعد میں دعوت جو عموماً چوتھے دن ہوتی
ہے اور اسی مناسبت سے چوتھی کی رسم کہلاتی ہے۔ اس میں بھی لڑکی کے سسرال
والوں کے لئے ایک پوری بارات جیسا ہی اہتمام کیا جاتا ہے ورنہ سب کے منہ بن
جاتے ہیں۔ |
|
|
ہمارے ہاں پہلا بچے میکے میں ہوتا ہے |
شادی کے بعد جب دلہن کو اپنے پیروں کے نیچے جنت کی
خوشخبری ملتی ہے وہیں اس کے ماں باپ کے پیروں سے زمین کھسکنے لگتی ہے۔ کیوں
کہ اس دوران اپنی بیٹی کی صحت اور اسپتال کی زمہ داری انھیں ہی اٹھانی پڑتی
ہے۔ یہی نہیں بلکہ چھٹا یا ساتواں مہینہ لگتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ“بھئی
ہمارے ہاں تو پہلا بچہ میکے میں ہوتا ہے“ لڑکی کو باقاعدہ اس کے میکے بھیج
دیا جاتا ہے تاکہ بچے کی پیدائش کا سارا خرچہ اس کے میکے والے اٹھائیں۔
جبکہ اس سارے معاملے میں لڑکی کا شوہر جو ان معاملات کا حقیقی ذمہ دار ہے
یا تو اپنے گھر والوں کی حمایت کرتا ہے یا پھر چھپ سادھے تماشہ دیکھتا ہے۔ |
|
|
نانی کے گھر سے کیا آیا |
بچے کے دنیا میں آتے ہی اس کے ننھیال پر بچے کے لئے تحفے
تحائف کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ عقیقے پر تو نانی کو تقریباً چھوٹا موٹا
جہیز ہی تیار کر کے دینا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سالگراہ یا آنے والے ہر
چھوٹے بڑے موقع پر لڑکی کے گھر والوں سے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کا
طریقہ ڈھونڈھا جاتا ہے۔ |
|
|
|
اس سارے معاملے کو اگر دیکھا جائے تو شادی کے بعد عورت
کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کا اصل زمہ دار اس کا شوہر ہوتا ہے۔ بچے کی
ولدیت میں باپ کا نام صرف خانہ پری کے لئے نہیں آتا بلکہ بچے کی پیدائش اور
ہر طرح کی ذمہ داری اٹھانا باپ کا ہی فرض ہے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ مرد اس
موقع پر اپے فرائض ادا کرنے کے بجائے انتہائی بےشرمی سے تمام ذمہ داریاں
بیوی کے گھر والوں کو سوپ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ کیا ایک مرد کی غیرت
گوارا کرتی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی اور بچے کا خرچہ کوئی اور
پورا کرے؟ اور اگر واقعی مرد بچوں اور بیوی کے اخراجات اپنے سسرال سے ہی
پورے اٹھونا چاہتے ہیں تو اس صورت میں مرد کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ |
|