|
ایک نوجوان نے دارالافتاء الاخلاص سے جہیز کے متعلق سوال
پوچھا کہ |
|
“میری شادی اس سال یعنی 2021 میں اللّه کے حکم سے ہونے
جا رہی ہے، میں نے دل سے جہیز نہ لینے کا ارادہ کیا ہے اور میری والدہ
صاحبہ نے بھی میری ساس کو منع کیا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سامان نہ دیں، لیکن
میری ساس نے یہ کہا کہ میں نے اپنی پہلی بیٹی کو بھی سامان دیا تھا اور اب
دوسری بیٹی کو بھی ویسے ہی سامان دینگے۔
|
|
مہربانی فرما کر مجھے اس کا حل
بتائیں کہ اگر میں جہیز لوں تو کیا میں گناہگار ہونگا؟ حلانکہ میری والدہ
صاحبہ نے منع بھی کر دیا ہے اور اللّه کی قسم میرا دل جہیز لینے کو نہیں
چاہ رہا ہے“ |
|
جس کا تفصیلی جواب دارالافتاء الاخلاص نے ان الفاظ میں
دیا |
|
“ نکاح کے وقت لڑکی کے رشتے داروں کی طرف سے جو اشیاء دی
جاتی ہیں، ان کو "جہیز" کہا جاتا ہے۔ حضور ﷺ سے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ
کے نکاح کے موقع پر ان کوکچھ ضروری چیزیں دینا روایات سے ثابت ہے، اس لئے
اگر کوئی باپ یا ماں اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو جائز
ہے، لیکن جہیز دینے میں تین بنیادی باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے: |
|
1- اپنی حیثیت کے مطابق دیا جائے، حیثیت سے زیادہ نہ دیا
جائے۔ |
|
2- ضروری چیزیں دی جائیں، اسراف نہ کیا جائے۔ |
|
3- نام و نمود کے لئے نہ ہو ، کیونکہ یہ اپنی اولاد کے
ساتھ نیک سلوک ہے، اس لیے اس میں اعلان اور نمائش کی ضرورت نہیں ہے۔“ |
|
مزید شرعی مسائل جاننے کے لئے وزٹ کریں : https://alikhlasonline.com |
|