روبرو ہے ادیب: دانیال حسن چغتائی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
لکھاریوں کے لئے حوصلہ افزائی بے حد اہم ہوتی ہے، یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کی وجہ سے راقم السطور نے روبرو ہے ادیب کا سلسلہ شروع کیا ہے اور نامور و نئے لکھاریوں سے گفتگو کرکے قارئین کو اپنے پسندیدہ لکھاری کے حوالے سے معلومات دینے کا آغاز کیا ہے، یاد رہے شروع شروع میں اس کا مقصد محض نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی تھا مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ سب لکھاری معاشرے کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں تو سب کو اس سلسلے میں مدعو کیا جانا چاہیے۔ ہمارے آج کے مہمان دانیال حسن چغتائی صاحب ہیں، اُن کے خیالات اور زندگی کے چند پہلو یہ گفتگو بے نقاب کرتی ہے۔۔۔۔!
سوال:آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے، اپنے ادبی سفر کی شروع سے آج تک کی داستان سنائیں؟ جواب: السلام علیکم اس بندہ ناچیز کو دانیال حسن کہتے ہیں۔ کہروڑ پکا کے علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق ہونے کے باعث بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق وراثت میں ہی ملا۔ سب سے پہلی تحریر دو ہزار سات میں نوائے وقت ملتان میں یوم کشمیر پر مضمون شائع ہوا لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ 2017 میں نانا جان رحمتہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد ادبی سفر شروع کیا ۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ قریبی اعزہ کی اکثریت دنیاوی بکھیڑوں میں پڑ کر ادب سے دور ہو گئی ۔ چنانچہ اب کسی نہ کسی کو تو بیڑہ اٹھانا ہی تھا۔ 2018 سے جاری ہونے والا یہ سفر تا حال جاری ہے۔ اب تک ماہنامہ مسلمان بچے، بچوں کا اسلام ، ہمدرد نونہال، اور تعلیم و تربیت میں پچاس کے قریب کہانیاں شائع ہو چکی ہیں الحمد اللہ۔ علاوہ ازیں مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے چالیس کے قریب کالمز اور فیچرز اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اب تک کے ادبی سفر میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نامی بندہ کی کتاب ہے جو طباعت کے آخری مراحل میں ہے اور ان شاءاللہ بہت جلد منصفہ شہود پر نمودار ہوگی۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک لکھاری کیوں گوشہ نشین ہو جاتا ہے؟ جواب: ایک لکھاری یا ادیب چونکہ حساسیت پسند ہوتا ہے ۔ اسے معاشرے میں ہونے والی تنقید اور عامیانہ رویے کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ ان چیزوں کی تاب نہیں لا پاتے اور جلد ہی منظر نامے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر پسماندہ علاقوں کے ادباء کے ساتھ یہ مسئلہ اور بھی زیادہ ہے۔
سوال: حوصلہ افزائی کیوں ایک لکھاری کے لئے ضروری ہے؟ جواب: حوصلہ افزائی کسی بھی لکھاری کے لئے آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کئی با صلاحیت لکھاری بار بار مسترد ہونے کی وجہ سے ہمت ہار دیتے ہیں۔ اگر میں اپنی مثال دوں تو میری ابتدائی تحریریں مسترد ہوئیں۔ لیکن ایک دن مجھے تعلیم و تربیت کی مدیر سے فون موصول ہوا۔ انہوں نے چند بنیادی چیزوں کے بارے میں بتایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سے اگلے ہی ماہ میری تحریر تعلیم و تربیت کی زینت بنی جس کا علم مجھے اعزازی شمارے موصول ہونے پر ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ موجودہ رسائل میں بچوں کا تنزیل اور مسلمان بچے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔
سوال: اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟ جواب: جب یوم کشمیر پر مضمون شائع ہوا تو میں نے خود کو گویا ہواؤں میں اڑتے ہوئے محسوس کیا۔ اور خود پر یقین قائم ہوا کہ میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ لیکن بڑوں نے سمجھایا کہ پہلے بڑے ادیبوں کو پڑھو پھر تحریر کے میدان میں قدم رکھنا۔ اور شاید ان کا یہ کہنا بر محل تھا۔
سوال:آپ کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ کون سا ہے؟ جواب: اب تک کی زندگی میں وہ لمحہ جب میرا حفظ قرآن مکمل ہوا۔
سوال: کن موضوعات پر ادب اطفال میں لکھنا بے حد ضروری ہے؟ جواب: بچوں کی تربیت، اسلامی تاریخ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اخلاقیات،
سوال: آپ منفی رائے کو کس طرح سے لیتے ہیں؟ جواب: میں تنقید کو مثبت انداز میں لیتا ہوں۔ لیکن تنقید برائے تنقید کا قائل نہیں۔ ہاں تنہائی میں اس کے بارے میں سوچتا ضرور ہوں کہ یہ بات اگر ہوئی ہے تو اس کو بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے میرے تنقید نگار مجھے مزید بہتر کرنے پر اکساتے ہیں۔
سوال: آپ خواتین کی آزادی کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟ جواب: اسلام نے مرد اور عورت کی آزادی کا جو دائرہ کار متعین کر دیا ہے۔ میں اس کا ہی قائل ہوں۔ اس حد سے آگے بڑھنا شاید معاشرے میں فتنہ پردازی کو جنم دیتا ہے۔
سوال:آپ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو تحریروں میں بیان کرنا پسند کرتے ہیں؟ جواب: جی ہاں بالکل۔ میری کئی نگارشات ایسے ہی واقعات پر مبنی ہیں جو میرے ساتھ یا میرے قرب و جوار میں وقوع پذیر ہوئے۔
سوال:اب تک کتنی کتب /تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں؟ جواب: پچاس کہانیاں۔ چالیس مضامین/ کالم ۔ ایک کتاب طباعت کے آخری مراحل میں ہے۔ باقی سات کتب بشمول سیرت خلفاء راشدین تقریباً تیار ہیں ۔لیکن جب وسائل ہوں گے تب ہی ان کی اشاعت کے بارے میں سوچا جا سکے گا۔
سوال:آپ کی نظر میں قارئین کی پذیرائی اور ایوارڈ لکھاری کو مزید اچھا کرنے پر اُکساتے ہیں؟ جواب: جی ہاں بلکل قارئین کی کی طرف سے پذیرائی لکھاری کے جذبہ تحریر کو مہمیز دیتی ہے۔ مگر ایوارڈ وغیرہ کو میں ثانوی حیثیت دیتا ہوں کہ آپ کا اصل ایوارڈ آپ کے قارئین ہوتے ہیں۔
سوال:آپ نے ابھی تک کس اُردو لکھاری/ادیب کو خوب پڑھا ہے،کتنا متاثر ہوئے ہیں؟ جواب: اشتیاق احمد صاحب کو بہت پڑھا ہے۔ اور میں ان کے انداز تحریر سے بہت متاثر ہوں ۔ کہیں کہیں میری تحریر میں ان کے اسلوب کا آہنگ بھی آ ہی جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ میں ان کے دور ادارت میں ادبی سفر شروع نہ کر سکا جس کا قلق ہے۔
سوال:کیا کبھی اپنی آپ بیتی لکھنا چاہیں گے؟ جواب: فی الحال ایسا کوئی ارادہ نہیں تاہم اگر اللہ رب العزت نے چاہا تو شاید ایک دہائی کے ادبی سفر کے بعد شاید اس بارے میں سوچوں کیونکہ ابھی میں خود کو طفل مکتب ہی سمجھتا ہوں۔
سوال: کیا مثبت سوچ کسی کی زندگی کو بدل سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں۔ آپ کی زندگی پر سوچ کا گہرا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ آپ کی سوچ کا دھارا جس سمت کی طرف ہوگا زندگی کی ڈگر اسی سمت چل پڑے گی۔
سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟ جواب: لکھنا ایک ہنر ہے اور کسی بھی دوسرے ہنر کی طرح اس کو بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خوبی چند افراد میں پیدائشی ہوتی ہے وہ غلطی پر ہیں۔ کوئی بھی شخص جو لکھنے پڑھنے کے بنیادی قائدے سے واقف ہے اور لکھنے کا شوق رکھتا ہے وہ ایک اچھا لکھاری بن سکتا ہے۔ مسلسل مطالعہ، طویل مشق اور ذخیرہ الفاظ کامیابی کی کلید ہیں۔
سوال: آپ کے مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟ جواب: یہی کہ جتنی کار حیات باقی بچی ہے ۔ اس میں کچھ ایسا کر جاؤں کہ وہ ذخیرہ آخرت ثابت ہو۔ اب خواہ وہ تحریر کی شکل میں ہو یا کسی اور نہج پر۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سوال: آپ کے خیال میں کس طرح سے بچوں کو رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب: بچوں کو ابتدا سے ہی معیاری اردو رسائل و جرائد کی طرف راغب کر کے ان کو کتب بینی اور ادب کی طرف مائل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایک تو وہ اردو سے روشناس ہوں گے ساتھ کتب بینی کے بھی رسیا ہو جائیں گے۔
سوال: آپ کے خیال میں کوئی مخصوص کردار تخلیق کرکے لکھاری کو اپنی الگ پہچان بنوانی چاہیے؟ جواب: مخصوص کردار کی پہچان زیادہ عرصہ برقرار نہیں سکتی ۔ علاوہ ازیں اگر ایک مخصوص کردار کی چھاپ لگ جائے تو لکھاری دیگر اصناف میں دقت محسوس کرتا ہے ۔ اور قارئین کا اصرار اسی کردار کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں ادب اطفال میں انفرادیت کے حوالے سے نوجوان لکھاریوں کو کام کرنا چاہیے؟ جواب: جی بلکل نئے موضوعات پر کام کرنا چاہیے۔ اور بہت سے نئے لکھاری ایسا کر بھی رہے ہیں۔ ایک ہی طرح کا مواد پڑھ کر قارئین بھی اکتا جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انگریزی ادب کو اردو میں ترجمہ کرنا بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
سوال: آج کے ادب اطفال میں کن لکھاریوں کے کام کو آپ بے حد پسند کرتے ہیں؟ جواب: عہد حاضر میں محمد فیصل علی صاحب، احمد رضا انصاری اور کاوش صدیقی صاحب میرے پسندیدہ ادیبوں میں شامل ہیں۔
سوال: آپ کہانیوں کے پیچھے جاتے ہیں یا پھر و ہ آپ کو تلاش کرکے قلم کے ذریعے بیان ہو جاتی ہیں؟ جواب: کہانیاں خود آ جاتی ہیں۔ میرا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بھی کوئی خیال ذہن میں کوندتا ہے تو اسے نوٹ پیڈ پر لکھ کر رکھ لیتا ہوں۔ بعد میں پھر اسے مکمل کر لیتا ہوں۔
سوال: آپ کو کیا دیگر ہم عصر ادیبوں سے کوئی مسئلہ رہا ہے؟ جواب: دیگر ادیبوں سے مجھے اب تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا الحمد اللہ۔ لیکن ادیبوں کی باہمی سیاست دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے جرائد ایسے ہیں جن کا رویہ نئے لکھاریوں کے ساتھ شودر جیسا ہوتا ہے۔ نام لے کر میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا۔
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ جواب: میں اپنے قارئین کا بہت مشکور ہوں جن کی قیمتی آراء مجھے مختلف ذرائع سے وقتاً فوقتاً موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ ان تمام خیر خواہوں کا شکریہ جو اپنی دعاؤں میں اس بندہ ناچیز کو یاد رکھتے ہیں ۔ آخر میں جناب ذوالفقار علی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ یہ چند الفاظ ان کے اصرار کی مرہون منت ہیں۔ وعلیکم السلام۔
آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔ ۔ختم شد۔ |