اسلام میں قمری سال کی بنیادقمری مہینوں پر ہے، اسی طرح
اسلامی تاریخ کی بنیاد سن ہجری پر مشتمل ہے۔ویسے تو تمام دن اور مہینے سب
اللہ کریم کے ہیں اور اللہ کریم ہی کے لئے ہیں، مگرمسلمانوں کے نزدیک بعض
مہینوں کو دوسرے مہینوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل ہے۔ جیسا کہ ماہِ محرم،
ربیع الاول، رمضان المبارک اور ذی الحجہ۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا کا جہاں
پر بہت مفید استعمال جاری ہے جیسا کہ قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت اور دینِ
اسلام کی دعوت و تبلیغ جاری ہے اور بہت سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو ان کی
اپنی پہچان کروائی جا رہی ہے تاکہ وہ عارضی زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر
ہمیشہ ہمیش کی زندگی کو مقصدِ حیات بنا سکیں، وہیں پر سوشل میڈیا کے غیر
ذمہ درانہ استعمال کی بدولت لامحدود برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔جس میں سے
اک برائی بغیر تحقیق کئے کسی بھی بات کو حدیث سمجھ کر آگے شیئر کردینا۔جیسا
کہ ربیع الاول کے مبارک مہینہ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر یہ
پیغام دیکھنے کو بہت ملتا ہے کہ ”ریبع الاول کا مہینہ مارچ کی اپریل کی
فلاں تاریخ کو شروع ہورہا ہے، نیچے والی لائن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ نبی
کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کسی نے سب سے پہلے ربیع الاول کے مہینہ کی اطلاع
دی اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے جبکہ جنت الفردوس میں داخل کر دیا جائے
گا۔ اسی طرح سے آج فیسبک کے اک page پر اک پوسٹ دیکھنے کو ملی کہ ”رمضان
شریف کا پہلا روزہ 13 اپریل 2021 بروز منگل کو ہوگا ان شاء اللہ، دوسری
لائن میں لکھا ہوا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کی خبر کسی کو
سب سے پہلے دے گا اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے“۔ اس پوسٹ کو دیکھ کر پہلے تو
حیرانی ہوئی پھر پریشانی ہوئی بالآخر بہت غصہ بھی آیا کہ فیسبک کی اس پوسٹ
کو قریبا 125 سے زائد لوگوں نے جنت کے حصول اور دوزخ سے چھٹکارا حاصل کرنے
کے لئے آگے شئیر بھی کردیا تھا۔ان لوگوں کی ٹائم لائن سے مزید کتنے لوگوں
نے پوسٹ کو شیئر کیا ہوگا، یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ان من گھڑت پوسٹوں
اور پیغاموں پر صرف”انا للہ وانا الیہ راجعون“ ہی کہا جاسکتا ہے۔بہرحال اک
اچھی چیز یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ بہت سے نوجوانوں نے اس پوسٹ کے نیچے
کمنٹس میں اس پوسٹ کو ڈلیٹ کرنے کا کہا اورساتھ ہی ساتھ بہت سے نوجوانوں نے
فیس بک پیج کے ایڈمن سے اس حدیث کا ریفرنس نمبر بھی پوچھا۔ پچھلے سال علاقہ
کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں اردو خطبہ کے دوران خطبہ
دینے والے صاحب نے بھی بالکل اسی طرح کی من گھڑت روایت کا بیان کیا کہ ماہ
ربیع الاول کے مہینہ کی آمد آمد ہے اوراپنی تقریر کے دوران جناب نے بھی ان
من گھڑت روایات کے مطابق ماہ ربیع الاول کی آمد کی خبر دینے کی بناء پر جنت
واجب ہونے کی خوشخبری سنائی، راقم نے اُسی وقت اُٹھ کر ان صاحب کو ٹوکنے یا
سوال پوچھنے کی جسارت کا ارادہ کیامگر وطن عزیز میں مروجہ مذہبی شدت پسندی
کے خوف کی وجہ سے عین اردو خطبہ کے دوران جرات نہ کرسکا کہ خدانخواستہ میرے
سوال پوچھنے اور ممبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر فائض ان
صاحب سے اس روایت کی صحیح حدیث کا ریفرنس پوچھ لیا اور اگر کسی منچلے نے اس
بات کا بُرا محسوس کرلیا تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کہیں ر اقم کی پورے مجمع
میں پٹائی نہ ہوجائے۔ بہرحال سارا دن دل بہت بے چین رہا، بالآخر اُس مسجد
کی انتظامیہ کے اک فعال ممبر کو عرض کی کہ جمعہ کی تقریر میں صاحب نے یہ
روایت بیان کی تھی، ان سے پوچھ لیا جائے،اللہ کا شکر ہے مسجد انتظامیہ کے
اس رکن نے مجھے تسلی دی کہ انتظامیہ نیان صاحب سے پوچھ گچھ کی ہے تو انہوں
نے بتایا کہ انہوں نے یہ روایت فیسبک سے پڑھی تھی، اور یہ کہ ان کو خطبے
میں بیان کی گئی غلط روایت کی تصحیح کروا دی گئی ہے اور وہ اگلے جمعہ والے
دن پورے مجمع کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کریں گے اور اللہ کے حضور
معافی بھی مانگیں گے۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر مسجد کے
امام ان جعلی اور من گھڑت روایات کا شکار ہوسکتے ہیں تو میرے جیسے کم علم
لوگ اس فریب سے کیسے بچ سکتے ہیں اور وہ بھی عین اُس وقت کہ جب منکرینِ
حدیث کا فتنہ بھی عروج پر ہو اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی محبت کو دلوں کو خرچ خرچ کر نکالنے کی کوشش
کی جارہی ہے۔ہمارے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں جھوٹ بولنے اور جھوٹ کو
پھیلانے کے بارے میں سخت ترین وعیدیں ہیں۔ آئیے اک نظرقرآن و حدیث کے چند
حوالہ جات کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔مومنو اگر کوئی گناہگار تمہارے
پاس کوئی خبر لے کر آئے توخوب تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو
نادانی سے نقصان پہنچا دو، پھرتم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔(سورۃ
الحجرات 6) جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان
نہیں لاتے۔ اور وہی جھوٹے ہیں. سورہ النحل کی آیت نمبر 105۔تو بتوں کی
پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔(سورۃ الحج 30)۔دیکھو خالص عبادت
اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ
کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔ تو
جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بیشک
اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔(سورۃ الزمر 3)۔ اے اہل
ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔(سورۃ التوبہ
119)۔ صحیح بخاری کی حدیث نمبر 109 میں درج ہے کہ: ہم سے مکی ابن ابراہیم
نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے
واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں
کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔اسی طرح سے ترمذی کی حدیث نمبر 2660
میں درج ہے کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی حدیث
مبارکہ ہے کہ:علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے
والا جہنم میں داخل ہو گا“۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف
بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے
یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ
برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا
رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح
بخاری، حدیث 6094)۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ
بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا
جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔ (صحیح بخاری حدیث 6095)۔ابوامامہ رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے
جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر
ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے
اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے
لیے جو خوش خلق ہو“۔(ابوداؤد حدیث 4800، و قال الشیخ الألبانی حسن)۔سنی
سنائی بات بیان کرنا انسان کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے،حضرت ابوہریرہ سے مروی
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے
لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق آگے پھیلا دے۔(صحیح
مسلم حدیث نمبر 9)۔اگر صرف خبریں دینے سے ہی جنت مل سکتی اور جہنم سے آزادی
کا پروانہ مل سکتا تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد اور دیگر عبادات کیساتھ
ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کا حکم نہ ملتا۔اسلئے خالی خبر
دینے سے اگر دوزخ کی آگ حرام ہوتی تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وا ٓلہ
واصحابہ و بارک وسلم اپنے پیارے صحابہ کرام کو حقوق اللہ اور حقوق العباد
کر ادا کرنے کی اس حد تک تلقین نہ فرماتے،اگر صرف بابرکت مہینوں کی خبر کی
خوشخبری دینے سے جنت کا حصول اتنا آسان ہوتا تو کیا وجہ تھی کہ صحابہ کرام
نے رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اللہ کے پیارے رسول ﷺ کے ساتھ غزوات میں
شدید اور مشکل ترین حالات میں جنگیں لڑیں، کچھ شہید ہوئے اور کچھ نے
تلواروں، نیزوں، تیروں سے اپنے پیارے اور نرم و نازک جسموں کو کٹوایا اور
چھلنی چھلنی کروایا۔عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ کی زبان
مبارک سے جنت کی یقینی ٹکٹیں حاصل کرنے کے باوجود بھی یہ صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کس قدر اللہ کریم سے ڈرتے تھے، ہر وقت حقوق اللہ
اور حقوق العباد کو پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے، ان میں کوئی
اگر کسی قبر پر کھڑا ہوتا تو اللہ کے ڈر اور قبر کے عذاب کے خوف سے رو رو
کر اپنی داڑھیوں کو تر کرلیا کرتے تھے۔جبکہ انکے پاس جنت کی حقیقی معنوں
میں tickets بھی موجود تھیں۔دینا داری کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے کہ
کوئی طالب علم سارا سال سکول بھی نہ جائے، اور گھر میں پڑھے بھی نہیں، تو
کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی طالب علم بغیر تیاری کے امتحانات میں کامیاب
ہوسکے۔تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق ادا کئے
بغیر ہم جنت کے ٹکٹ حاصل کرلیں۔ اللہ کریم ہم سب مسلمانوں کو ہدایت نصیب
فرماتے ہوئے حق، سچ کا ساتھ دینے اور اپنی عقل کو استعمال کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔اور ہم کو جھوٹ بولنے، جھوٹ پھیلانے اور جھوٹوں کا ساتھی بننے
سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں
نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اور آپ ﷺ کے
اصحاب پاک رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر۔ آمین ثم آمین۔نوٹ: اس تحریر
میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول قرآنی آیت، حدیث مبارکہ کے ترجمہ،معنی،املاء،
لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر
کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے
تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
|