میں ﷲ سے کہوں گی کہ آئندہ انسانوں کی شکل نہ دکھائے

’’میں اﷲ سے کہونگی کہ آئندہ مجھے انسانوں کی شکل نہ دکھائے‘‘ یہ الفاظ بھارتی مسلم قوم کی اُس بیٹی کے ہیں جس نے چند روز قبل سماجی بے حسی کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا لیا اور مرنے سے پہلے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیاہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کی ماؤں کی آنکھوں میں جو غم و غصہ ہے وہ بیان سے باہر ہے کیونکہ ایک بیٹی کا درد ماں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا جبکہ اس کی مسکراہٹ میں تو اس قدر بے بسی تھی کہ جیسے چیخ حلق میں گھٹ کر رہ گئی ہو اور اب وہی چیخ فضاؤں میں گونج رہی ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عائشہ کے اس عمل کو جسٹیفائی کرنے کے لیے ہزاروں دلیلیں بھی دی جائیں تو بھی اس کا عمل قابل معافی یا قابل ستائش نہیں ہے۔ اسلام میں خود کشی حرام ہے کیونکہ زندگی اﷲ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے‘ انسان کا جسم اور زندگی دونوں اﷲ کی امانتیں ہیں جس میں خیانت آخرت میں تباہی کا باعث ہو سکتی ہے لہذا بنی نوع انسان کو ہر گھڑی صبر وتحمل ،اعتدال اور توازن پر قائم رہنے کا حکم دیا گیاہے تبھی توخود سوزی کا ارتکاب کرنے والی لڑکی چونکہ مسلمان تھی اس لیے اس نے اپنے آخری ویڈیو پیغام میں اعتراف کیا ہے کہ’’ ممکن ہے اب مجھے جنت نہ ملے‘‘ لیکن جس کرب و غم سے ویڈیو پیغام جاری کیا گیا اس نے ہر درد مند دل کو رلا دیا ہے بلاشبہ یہ کوئی پہلی عائشہ نہیں ہے جسے سماج نے اپنی مکروہ رسموں اور ہوس کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی اور اس نے دلبرداشتہ ہو کر موت کو گلے لگایا بلکہ ایسی ہزاروں عائشہ ہیں جو پاکستان و بھارت میں جہیز جیسی لعنت کا شکار ہو کر خود سوزی کی مرتکب ہو چکی ہیں مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا‘ نہ ہی اس رسم کے خاتمے کے لیے مناسب قوانین کا اطلاق کیا گیا اور نہ ہی اب پڑے گا کیونکہ ہم صرف اپنے گھر میں لگی آگ کو ہی آگ سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے کے گھر لگی آگ ہمیں محض تماشا لگتی ہے سوال تو یہ ہے کہ جب اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں تو یہ رسم ہمارے معاشرے میں لازم و ملزوم کیوں بن چکی ہے اور ہم اس سے چھٹکارا کیوں نہیں پانا چاہتے جبکہ ہندووانہ رسوم کے خلاف تقریریں تو ہر پلیٹ فارم پرہوتی ہیں اورمذہبی جماعتوں کی طرف سے ایسا لٹریچر اور کتابیں بھی تقسیم کی جاتی ہیں جو اس رسمِ بد کی برائیوں کو اجاگر کرتی ہیں ۔

بے شک ’’انما الاعمال با نیات ‘‘ شاید ہماری نیت میں کھوٹ ہے کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جہیز کی رسم برصغیر پاک وہند میں ہندو دھرم کے زیر اثر شروع ہوئی کیونکہ ہندو اپنے قدیم قانون (منو) کیوجہ سے بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھے اس کی تلافی کے لیے انھوں نے یہ رواج ڈالا کہ وہ رخصتی کے وقت کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے درحقیقت ہندوؤں نے جہیز کے نام پر سازو سامان دیکر بیٹیوں کو وراثت سے محروم کرنے کی راہ نکالی تھی مزید ثابت کیا تھا کہ بیٹی واقعی بوجھ ہے کیونکہ اسلام نے بیٹی کو رحمت کہہ کر بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم کا خاتمہ کیا تھا اور وراثت میں حصے دار بنایا تھالیکن چونکہ ہندوانہ معاشرے میں دینی تعلیمات اور عقائد و اعمال کی تبلیغ کافقدان تھا اسی لیے مسلمانوں نے بھی بتدریج اس رسم کو اپنا لیاہندو اثرات کیوجہ سے معاشرے میں داخل ہونے والی یہ رسم اب پاکستان و بھارت میں ایک لعنت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں اور تقریباًساٹھ فیصد کی زندگیاں شادی کے بعد عذاب ہوجاتی ہیں کیونکہ انھیں مسلسل تشدد، حیوانیت اور طعنہ زنی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین سے ان کی حسب خواہش نقد روپیہ اور ساز و سامان لیکر آئیں اور جب ہر قسم کے استحصال کے بعد بھی کچھ نہیں ملتا تو بعض جگہوں میں لڑکی کو زندہ جلادیا جاتا ہے اور بسا اوقات لڑکی خود بھی انتہائی قدم اٹھا لیتی ہے حالانکہ یہ رسم بد اسلامی تعلیمات اور شریعت کے مزاج کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ اسلام نے تو اس کے برخلاف مہر،نان نفقہ اور دعوت ولیمہ کی ذمہ داری بھی شوہر پر رکھی اور عورت کو نکاح میں ہر طرح کی مالی ذمہ داری سے دور رکھا تھا بلکہ فقہا کے یہاں تو اس بات کا تصور ہی نہیں تھا کہ مرد بھی عورت سے روپے کا مطالبہ کر سکتا ہے اسلیئے بھی اس مسئلہ پر کتب ہائے فقہ میں تذکرہ نہیں ملتا یعنی اسلام میں جہیز کا کوئی تصو ر ہی نہیں ہے بلکہ اسلام لڑکی کی بہترین ’’تعلیم و تربیت ‘‘ پر زور دیتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب عزت و شرافت اور تعلیم و تربیت کا معیار دولت سمجھی جاتی ہے اور انسانیت کی کوئی قدر نہیں تبھی میں کہتی ہوں کہ یقینا اسلام کے پابند اور ایماندار لوگ نہیں مل سکتے مگر جب بیٹیوں کی شادی کیا کریں تو انھیں یہ تلقین کر کے رخصت کیا کریں کہ بیٹی ! ہم نے انسان کا بچہ کا دیکھ کر رشتہ طے کیا ہے لیکن اگر جانور نکل آیا تو واپس لوٹ آنا کیونکہ طلاق کوئی گالی نہیں اورنہ ہی اسلام میں ایسی کوئی پابندی ہے کہ خود غرضوں اور جانوروں کے لیے خود کو گنوایا جائے لیکن ایسا بھی کوئی نہیں کرے گا کیونکہ ہمارے ہاں بیٹی کو بوجھ کی طرح ہی اتارا جاتا ہے اور لوٹ آنے پر ایسا بوجھ سمجھا جاتا ہے جسے صرف موت ہی اتار سکتی ہے

بہرحال جہیز کیلئے عورت کا استحصال قابل مذمت ہے جو کہ صدیوں سے ہو رہا ہے اگر حکمران اس سلسلے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتے تو انھیں چاہیے کہ جیسے مغربی و یورپی ممالک نے ضرورت مندوں‘بیماروں اور بوڑھوں کے لیے وظیفے مقرر کر رکھے ہیں اور اس سے قبل مدینے کی اسلامی ریاستوں میں بھی بیواؤں کے معقول وظائف مقرر تھے ایسے ہی جس گھر میں بیٹی پیدا ہو آپ اس بیٹی کا وظیفہ مقرر کر دیا کریں اور شرط عائد کر دیں کہ وہ پیسے صرف لڑکی کے جہیز میں خرچ ہونگے کیونکہ ماں باپ اپنے بچوں کی ضروریات تو خود کو بیچ کر بھی پوری کر دیتے ہیں مگر خود کو بیچ کر بھی بیٹی کا جہیز پورا نہیں کر پاتے ۔۔

 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.