ارشادِ ربانی ہے:’’ لوگو! یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق
لے کر آگیا ہے‘‘۔اس نعمتِ عظمیٰ کا شکرانہ تو یہ ہے کہ :’’ ایمان لے آؤ‘‘
کیونکہ ایسا کرنا ،’’ تمہارے ہی لیے بہتر ہے‘‘۔ شکر کے بجائے کفر کی روش
اختیار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ، ’’ اگر انکار کرتے ہو تو جان
لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے
اور حکیم بھی‘‘۔ یعنی جب اتنی وسیع و عریض کائنات اطاعت و فرمانبرداری بجا
لاکر تعریف و تسبیح بیان کرہی رہی ہے تو تمہارے انکار سے خدا کا کچھ نہیں
بگڑے گا مگر یاد رہےکہ رب کائنات حکیم ہونے کا ساتھ علیم بھی ہے ۔ وہ لوگوں
کی کارستانیوں سے خوب واقف ہے اور اس کا پورا بدلہ دے کر رہے گا۔ اس آیت
سے قبل تمہید کے طور پر فرمایا گیا:’’اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اُس نے
تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے، اور اِس پر ملائکہ بھی گواہ
ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے ‘‘۔
منکرین حق کے بارے میں فرمایا’’ جو لوگ اِس کو ماننے سے خود انکار کرتے ہیں
اور دوسروں کو خدا کے راستہ سے روکتے ہیں وہ یقیناً گمرا ہی میں حق سے بہت
دور نکل گئے ہیں‘‘۔ یہاں پر پہلےان کا ذکر کیا گیا جو خودتو نہیں مانتے
لیکن دوسروں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن جاتے ہیں ۔ایسوں کو کافر کے ساتھ باغی
قرار دےکر ان کی بابت فرمایا گیا:’’ ا ِس طرح جن لوگوں نے کفر و بغاوت کا
طریقہ اختیار کیا اور ظلم وستم پر اتر آئے اللہ ان کو ہرگز معاف نہ کرے گا
اور انہیں بجز جہنم کے کوئی راستہنہ دکھائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے‘‘ ۔ یہاں باغیوں کو ان کے ناقابلِ
معافی ظلم و ستم کے سبب دوزخ کے دائمی عذاب کا مستحق بنائے جانے وعید سنائی
گئی ہے۔ ایسے ظلم کا ادراک لازم ہے۔
عربی لغت میں فعل کے طور پر ظلم کا اطلاق کئی معنیٰ میں ہوتا ہے۔ مثلاً
زیادتی کرنا، غلط روش اختیار کرنا، نا انصافی کرنا، حق تلفی کرنا، بدسلوکی
کرنا، حد سے تجاوز کرنا، کسی چیز کا غلط جگہ استعمال کرنا ۔ بے موقع
استعمال کرنا وغیرہ ۔ عام طور پر ظلم ان میں سے کسی ایک معنیٰ میں استعمال
ہوتا ہے لیکن کبھی کبھاران سارے مطالب پر محیط سانحہ بھی رونما ہوجاتا ہے ۔
مثلاً دسمبر 2001 میں آل انڈیا مائناریٹی ایجوکیشن بورڈ کےپروگرام میں شرکت
کرنے والے123 افراد پر اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کو تقویت پہنچانے
کا الزام لگا کر گرفتار کرلینا اور یو اے پی اے (UAPA) کے تحت مقدمہ درج کر
کے بعد 15 ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دینا ۔ اس معاملے پہلے تو
ایس آئی ایم پر پابندی ہی غلط تھی پھر ان بے قصور لوگوں گرفتار کرنا
زیادتی و ناانصافی تھی۔ ابتداء میں ضمانت نہیں دینا ان کی حق تلفی تھی اور
جیل کے اندر بدسلوکی حد سے تجاوز تھا ۔
اس گرفتاری کا بیجا اورغلط استعمال وہ میڈیا ٹرائل تھا کہ جس کے ذریعہ
بےقصور لوگوں کے خلاف بڑے پیمانے پر دشنام طرازی کی گئی۔ معاشرے میں ان کے
حوالے سے بدگمانیاں پیدا کرکےانہیں بدنام کیا گیا۔ اس دوران کئی افراد کا
روزگار متاثر ہوااور وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ضمانت کے بعد مقدمہ
شیطان کی آنت کی مانند طویل تر ہوتا چلاگیا اور بیس سال کی محنت و مشقت کے
بعد بھی پولس کوئی ٹھوس ثبوت مہیا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ۔ عدالت نے
ان کے خلاف لگائی جانے والی دفعات کو غیر اطمینان بخش اور باطل قرار دے کر
سب کو اس مقدمہ سے باعزت بری تو کردیامگر بھول گئی کہ انصاف کی تاخیر انصاف
سے تردید کے مترادف ہوتی ہے۔ اس لیے اسے عدل نہیں کہا جاسکتاکیونکہ اتنی
بڑی تعداد میں افرد کو 20 سال تک جھوٹے کیس میں پھنسا کر اذیت و پریشانی
میں مبتلا کرنے کی ناانصافی کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزا نہیں
سنائی گئی۔ سزا سے بچنے والوں کے لیے قرآنی وعید یہ ہے کہ :’’بے شک ہم نے
آپ سے پہلے ان کی قوموں کی طرف کھلی نشانیاں کےساتھپیغمبر بھیجے ۔ پھر ہم
نے مجرموں سے بدلہ لیا اور ہم پر اہلِ ایمان کی مدد کرنا لازم
ہے‘‘۔الحمدللہ استعانت کی بشارت تو پوری ہوگئی، مگر انتقام کا وعدہ بھی
پورا ہوکر ر ہے گا ان شاء اللہ ۔
|