برطانیہ کے وہ پاکستانی نژاد ڈاکٹر جن کے جنازے میں پورا علاقہ سڑکوں پر تھا

image
 
آج سے تقریباً 52 برس قبل لندن کی ایک پارٹی میں آئرش نژاد ایک نرس کی ملاقات ایک نوجوان پاکستانی ڈاکٹر سے ہوئی۔ پہلی ہی نظر میں ان کا اس شخص پر دل آ گیا۔ یہ سنہ 1969 کی بات ہے جب انسان نے پہلی مرتبہ چاند پر قدم رکھا تھا۔
 
ان کا نام ڈاکٹر کرامت اللہ مرزا تھا اور اس رات انہیں دل دے بیٹھنے والی نرس کا نام اسٹیل سٹوپس تھا۔ اس دن کے بعد سے وہ ڈاکٹر صاحب اکثر ان کا ہاتھ تھام کر ٹہلتے ہوئے انہیں گھر تک چھوڑنے جاتے۔ تین برس بعد دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ ہمیشہ کے لیے تھامنے کا فیصلہ کیا اور شادی کر لی۔
 
گزشتہ برس 84 سالہ ڈاکٹر مرزا نے کورونا وائرس سے متاثر ہو کر اپنی آخری سانسیں لیں۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ آخری دم تک انہیں اپنے مریضوں کی فکر رہی۔
 
برطانیہ میں ایسکس کے ’کلیکٹن آن سی‘ نامی علاقے میں وہ مقامی خاندانوں کی تقریباً تین نسلوں کا علاج کرتے رہے۔
 
جس وقت ان کا جنازہ اٹھا علاقے کے تمام لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ان کی خدمات کے اعزاز میں تالیاں بجائیں۔ لوگوں کی آنکھیں بھرائی ہوئی تھیں۔
 
اسٹیل نے کہا 'مجھے لگتا ہے کہ اگر انہیں ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اتنی اہمیت ہے تو وہ بہت خوش ہوتے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ لوگ انہیں اتنا چاہتے ہیں۔'
 
image
 
انہوں نے بتایا کہ 40 برس قبل مرزا جس محلے میں رہنے آئے تھے وہاں سے اتنی محبت پا کر وہ بہت جذباتی محسوس کر رہی ہیں۔
 
سنہ 1974 میں علاقے کے ایک ڈاکٹر صاحب کو دل کا دورہ پڑ گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر مرزا نے لی۔ پھر پرانے ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد ڈاکٹر مرزا کو یہ نوکری مستقل طور پر دے دی گئی اور اس وقت سے یہی ان کا گھر ہے۔
 
اسٹیل نے بتایا 'مرزا اس علاقے میں پہلے ایشیائی نژاد ڈاکٹر تھے اس لیے شروع میں لوگ اکثر انہیں سمجھنے میں غلطی کر دیتے تھے۔'
 
انہوں نے بتایا کہ لوگ پہلے مرزا کے پاس آتے تھے اور پھر اپنی تسلی کے لیے دوسرے ڈاکٹر کو دکھانے بھی جاتے تھے۔
 
اسٹیل کے مطابق زیادہ تر چیزیں زندگی میں بغیر منصوبہ بندی کے ہو رہی تھیں۔ 'انہوں نے یہ نوکری پکڑی اور یہی کے ہو کر رہ گئے۔'
 
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر مرزا کے بارے میں یہ تشویش بھی کافی عرصہ ظاہر کی جاتی رہی کہ وہ پاکستان سے جو کچھ سیکھ کر آئے تھے وہ برطانوی طبی معیاروں کے اعتبار سے کافی تھا یا نہیں۔ لیکن آخر کار وہ بہت مقبول ہو گئے اور لوگوں کو یقین بھی آ گیا کہ وہ ایک عمدہ ڈاکٹر تھے۔'
 
ڈاکٹر مرزا پر کورونا کا اثر غیر متوقع طور پر اچانک ہوا۔ وہ دل کے مرض کے لیے پہلے سے ادویات لے رہے تھے۔
 
image
 
اسٹیل اپنے شوہر کے ساتھ کلینک میں بطور نرس کام کیا کرتی تھیں۔ کورونا سے متاثر ہونے کے بعد ابتدائی دنوں میں تو وہ گھر پر ہی رہتے رہے اور اسٹیل ان کا خیال رکھتی رہیں۔
 
اسٹیل نے بتایا کہ ڈاکٹر مرزا کبھی ایک دن کی بھی چھٹی نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کے بستر پر پڑ جانے سے وہ اور ان کے بچے بہت فکرمند ہو گئے۔
 
جب مرزا کے خون میں آکسیجن کی سطح 90 فیصد سے بھی کم ہو گئی تب انہیں ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔
 
اسٹیل نے بتایا کہ اس وقت بھی انہیں یہی فکر تھی کہ ان مریضوں کا کیا ہو گا جو پہلے سے اپائنٹمنٹ لے چکے تھے۔
 
انہوں نے کہا 'جب ہم ایمبولنس میں ہسپتال گئے تب میں نے نہیں سوچا تھا کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آ سکیں گے۔'
 
اسٹیل کے بقول 'انہوں نے خود کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ یہ وائرس ان کی جان لے لے گا۔'
 
اسٹیل مرزا نے بتایا 'ڈاکٹر مرزا نے جنگ کے میدان سے ہیضہ کی وباء جیسے تمام ہنگامی حالات میں کام کیا۔ انہوں نے موت کو متعدد بار شکست دی تھی۔ انہیں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا ہو گا کہ وہ اس بار بچ نہیں پائیں گے۔'
 
انہوں نے کہا 'مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اب حیات نہیں ہیں۔ مجھے شاید لگتا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔'
 
image
 
 
اسٹیل کے بقول ان کے رشتے کا آغاز کسی محبت کے طوفان کی طرح نہیں ہوا تھا لیکن وہ محبت انہیں شادی کے رشتے میں باندھنے میں کامیاب رہی۔
 
انہوں نے بتایا 'ہمارے پس منظر میں بہت فرق تھا اس لیے مجھے خود کو ڈھالنے میں تھوڑا وقت لگا۔'
 
اسٹیل کے مطابق ڈاکٹر مرزا نے ان سے مذہب تبدیل کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ اسٹیل نے کہا 'شادی سے پہلے ہم تین سال ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے۔ ہم یقینی طور پر سمجھنا چاہتے تھے کہ شادی کرنا صحیح فیصلہ ہوگا یا نہیں۔'
 
ڈاکٹر مرزا نے شادی کے بعد پاکستان میں مقیم اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ انہوں نے برطانیہ میں ایک مسیحی خاتون سے شادی کر لی ہے۔ جب وہ شوہر کے ساتھ ان کے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان گئیں تو انہیں تہذیبوں اور معاشروں کے درمیان فرق دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی۔ 'تمام باتوں کے باوجود وہ اتنے زبردست انسان تھے کہ میں اس سب سے نمٹنے میں کامیاب رہی۔'
 
پاکستان پہچنے پر اسٹیل مرزا کے لیے ایک سرپرائز موجود تھا۔ وہاں جا کر انھیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مرزا کی ایک اہلیہ بھی ہیں جن سے ڈاکٹر مرزا کے دو بچے بھی ہیں۔
 
حالانکہ انھیں یہ تو معلوم تھا کہ ڈاکٹر مرزا کی ایک شادی ہو چکی ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے اور بچے کی پیدائش کے دوران ان کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ تاہم یہ بات انھیں پاکستان پہچنے پر معلوم ہوئی کہ ان سے شادی سے پہلے ڈاکٹر مرزا کی ایک نہیں بلکہ دو شادیاں ہو چکی تھیں۔
 
ان کی دوسری شادی پاکستان کے ایک قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون سے ہوئی تھی جن سے ان کی ایک بیٹی بھی ہیں۔ جب اسٹیل کی ملاقات اس بیٹی سے ہوئی تو وہ بیٹی خود بھی ایک ماں بن چکی تھیں۔
 
image
 
چھٹیوں پر سٹاف کو ساتھ لے جاتے:
اسٹیل نے بتایا کہ ڈاکٹر مرزا بہت بڑے دل کے مالک تھے۔ وہ اپنے کلینک میں کام کرنے والے سٹاف کے تمام لوگوں کو اپنے ساتھ چھٹیوں پر بھی لے جاتے تھے۔ وہ انہیں چیک ریپبلک، فرانس، سپین اور سلوواکیا لے گئے۔
 
اسی کلینک میں کام کرنے والی لورین ماکسلی نے بتایا 'ان کا رویہ ہمارے ساتھ بہت زبردست تھا۔'
 
ڈاکٹر مرزا کے ساتھ 18 برس تک کام کرنے والی ماکسلی نے کہا 'وہ اپنے خاندان اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہم ان کے لیے خاندان کے افراد کی طرح تھے۔'
 
ماکسلی نے کہا کہ ڈاکٹر مرزا کے بغیر کلینک خالی خالی لگتا ہے۔ مریض بھی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں بات کرتے ہیں اور سٹاف سے بھی پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر مرزا کے بغیر ان کا کیا حال ہے۔
 
ماکسلی نے بتایا کہ کسی کی طبیعت کم خراب ہو یا زیادہ ڈاکٹر مرزا سب کا ایک جیسا خیال رکھتے تھے۔ 'انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ آپ کا مذہب، ذات یا رنگ کیا ہے۔'
 
ڈاکٹر مرزا کے انتقال کے بعد کلینک میں خطوط اور تحائف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ ماکسلی نے بتایا کہ یہ سب کسی کے لیے بھی بہت جذباتی تجربہ ہے۔ 'ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ لوگ اتنی محبت کا اظہار کریں گے۔'
 
ماکسلی نے بتایا کہ ان کے جنازے کے گزرتے وقت ایسا منظر تھا جیسے کسی ڈاکٹر کا نہیں بادشاہ کا جنازہ ہو۔ انہوں نے کہا 'وہ ہمیشہ لوگوں کے لیے موجود ہوتے تھے اور آخری وقت میں لوگ ان کے ساتھ موجود رہے۔'
 
Partner Content: BBC Urdu>
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: