باطل نظام کو بدلنے کیلئے جدو جہد کرنا ہی بڑی ’’ عبادت ‘‘ ہے

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شمشاد اختر
ایک شخص شریعت پرامکانی حد تک سو فیصد بھی عمل کر رہا ہے ۔چنانچہ وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہے ۔ شراب بھی کبھی نہیں پی۔رشوت کبھی نہیں لی ۔لیکن اس کے باوجود اس کی اطاعت نامکمل اور عبادت ناقص ہے کیوں ؟ دراصل جس نظام کا میں اور آپ حصہ ہیں وہ باطل کا نظام ہے ۔ہمارا سیاسی نظام سیکولر ہے۔ اﷲ کے احکام اور اس کی شریعت نافذ نہیں ہے۔ معاشی نظام سارے کا ساراسود ، جوئے اور لاٹری پر مبنی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ’’ کہ ایک زمانہ آئے گا جب کوئی شخص سود نہیں کھا ئے گا لیکن پھر بھی اس کا غبار اور دھواں اس کے اندر جائے گا ۔‘‘

دیکھئے یہاں کس قدر حکیمانہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یعنی اگر ہوا آلودہ ہو جائے تو کیا آپ سا نس نہیں لیں گے ! تنفس کے ذریعے غبار لا محالہ پھیپھڑوں میں جائے گا جو پھیپھڑوں کے لئے نقصان دہ ہے۔آج ہماری معیشت ، زراعت ، تجارت اور معاشرت میں سود ہی سود ہے قرضے لے کر اپنی ضروریا ت زندگی پوری کی جا رہی ہیں بنک اکاؤنٹ سودی ہیں یہ ہے وہ الجھاؤ کہ آج اپنے ذاتی افعال میں شریعت پر سو فیصد کار بند شخص بھی اجتماعی زندگی میں باطل نظام کی اطاعت کر رہا ہے اس حوالے سے سورہ المائدہ کے ساتویں رکوع میں تین مقامات پر ایک لفظ کے فرق کے ساتھ اﷲ تعالی کا واضح فیصلہ موجود ہے آیت ۴۴ میں ارشاد ہے : ’’ اور جوکوئی فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق جو کہ اﷲ نے اتارا ، سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ ‘‘ آیت ۴۷ کے مطابق : ’’ اور جو کو ئی فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق جو کہ اﷲ نے اتارا ، سو وہی لوگ فاسق ہیں ۔‘‘

اس کا حل کیا ہے ؟ایک شخص اکیلا نظام تو بدل نہیں سکتا ۔کہیں اور بھی اسلام قائم نہیں کہ وہاں ہجرت کر سکے۔اس کے لئے ایک لفظ ہے کفارہ ۔جیسے بعض گناہوں کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔جس گناہ میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا کفارہ کیا ہے؟ سب سے پہلے تو اس نظام کو ذہناََ تسلیم مت کیجئے بلکہ اس سے شدید نفرت رکھیے ۔حدیث میں اس شدید نفرت کا نام جہاد بالقلب ہے ۔پھر اس نظام کو (Serve) نہ کیجئے جیسا کہ تمام اداروں عدلیہ ، سول سروسز وغیرہ میں ہو رہا ہے۔اس کے بعد اس باطل نظام میں اپنا نام پیدا کر نے اور دولت و جائیداد کے حصول تگ و دو نہ کیجئے۔یہ تین تو منفی امور ہیں ۔مثبت طور پر یہ کیجئے کہ اپنی زندگی کو احتجاج کے انداز میں گزاریں ،اپنا وقت ، پیسہ اس نظام کو تلپٹ کر کے اﷲ کے نظام کو قائم کرنے کی جدو جہد میں لگا ئیے۔یہ کفارہ ہو جائے گا ۔ اگر ایسا نہیں تو ہم اس نظام یعنی اﷲ کے باغیوں کے ساتھی ہیں ۔ سورہ المائدہ کی آیت ۶۸ میں واضح طور پر فرما دیا گیا کہ : ’’(اے نبی ﷺ!)کہہ دیجئے کہ اے کتاب والو، تم کسی راہ پر نہیں جب تک قائم نہ کرو تورات اور انجیل کواور جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے اترا ۔‘‘باطل نظام کے تحت زندہ رہنا بھی باطل ہے اگر ہم اسے بدلنے اور اس کی جگہ نظام حق قائم کرنے کی جدو جہد نہ کر رہے ہوں ۔اس حلال و حرام کے تصور کو سمجھیں کہ ایک شخص سور کا گوشت کھا رہا ہے تو کہیں گے کہ حرام کھا رہا ہے ۔اور دوسری طرف ایک شخص مرغی کا گوشت کھا رہا ہے لیکن وہ مرغی اس نے کسی کی جیب کاٹ کر خریدی تھی ۔ اب بتا ئیے وہ حلال کھا رہا ہے یا حرام ؟اس اعتبار سے باطل نظام کے تحت جینا بھی حلال نہیں جب تک کہ آپ اس کے خلاف اورنظام حق کو قائم کرنے کے لئے کوشش نہ کریں ۔اور یہ کو شش ، جدو جہد ایک منظم جماعت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ نظام کو بدلنے کا مطلب انقلاب لا نا ہے ۔اور انقلاب ان چھوٹے موٹے کاموں سے نہیں آسکتا۔خون دئیے بغیر انقلاب آسکتا توحضرت محمد ﷺ کا انقلاب بغیر قطرہ خون کے ہوتا ۔اسی طرح جا ن لیجئے کہ یہ کوئی اضافی نیکی کا کام نہیں بلکہ لازمی بنیادی فریضہ ہے یعنی جہاں نظام باطل ہے وہاں اس نظام کے خلاف جدو جہد بندہ مومن پر فرض ہے اگر یہ باتیں آپ پر واضح ہو گئی ہوں تو اب یہ کام آپ کا ہے کہ آپ کو ئی جماعت ، کوئی تحریک تلاش کریں ،جماعت یا تحریک کے بغیر یہ کام ہو نہیں سکتا ۔ جن انبیاء کو جماعت یا رفقاء نہیں ملے ،وہ کوئی نظام قائم کیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔حضرت موسی ؑ کے پاس چھ لاکھ کی نفری تھی لیکن جب جنگ کا وقت آیا تو ان میں سے صرف دو آدمی نکلے ۔لہذا کسی جماعت کا ہونا لازمی ہے اور پھر ان کارکنوں کا اپنے قائد کے ہمراہ نکلنا اس باطل نظام کے خلاف یہ اس سے بھی ضروری ہے۔

لوگ اگلا سوال کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ جماعتیں اور تحریکیں ہیں کیا پتہ کو نسی جماعت یا تحریک ٹھیک ہے اس کا سادہ سا جواب ہے وہ جماعت ٹھیک ہے جس کا اسلام کو نافذ کرنے کا طریقہ سیرت محمدی ﷺ سے ماخوذ ہو بس اس کے ساتھ چل پڑو ۔اس جماعت کی قیادت کے قریب جا کر دیکھئے کہ اس سے خلوص کی خو شبو آتی ہے یا دنیا داری کا دھندا معلو م ہوتا ہے ۔! قیادت کا اخلاص اور خلوص بہت ضروری ہے،کیونکہ پیچھے چلنے والوں میں ہر طرح کے لوگ ہو سکتے ہیں ۔ آنحضور ﷺ کے پیچھے چلنے والوں میں جہاں نہایت مخلص جانثار سا تھیوں کی مضبوط جماعت تھی وہاں کچھ منا فق بھی شامل تھے۔حضور ﷺ کو ابتدائی دس سالوں میں صرف سو آدمی ملے تھے۔ حاصل کلام یہ کہ اگرچہ بین الاقوامی حالات ، پاکستان کا مستقبل اپنی جگہ بہت اہم موضوعات ہیں لیکن میرے اور آپ کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ روز محشر اﷲ کی طرف سے یہ شکوہ نہ ہو کہ تم دنیا میں میرے با غیوں کے وفادار رہے تھے کیونکہ اس سے بڑی بغاوت دنیا میں کبھی نہیں ہوئی جو آج ہے ۔آج کی دنیا میں اﷲ کے نظام کو انسانی زندگی سے نکال دیا گیا ہے عرب ممالک کو ہی دیکھ لیں وہ کس کے پیروکا ربنتے جا رہے ہیں اور ہماری پالیمنٹ میں ، مارکیٹوں کے اندر حتی ٰکہ گھروں میں بھی اﷲ کے احکام کو روندا جا رہا ہے اس سے نجات کا واحد ایک راستہ ہے سب مل کر اس نظام کو بدلیں وہ صرف انقلاب سے ہی ممکن ہے ۔ لہذاایسی جماعت اور تحریک کا ساتھ دیں جو اس کو بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو اور اس کی قیادت کا طریقہ انقلاب بھی مصطفوی انقلاب پر مبنی ہو ۔
 

A R Tariq
About the Author: A R Tariq Read More Articles by A R Tariq: 65 Articles with 47407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.