ازدواجی زندگی کا آغاز دونوں فریقین کے لیے انوکھا اور
دلکش ہوتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں بچیوں کی پیدائش سے ہی ان میں احساس ذمہ
داری پیدا کر دی جاتی ہے-یہ نہ پہنو، ایسے نہ کھاؤ، ایسے نہ چلو، ایسے نہ
ہنسو، بیٹھا ایسے جائے سویا ایسے جائے غرضیکہ مائیں بیٹیوں کو ساری زندگی
شادی کے لیے اور سسرال کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتی ہیں-
کچھ مائیں تو یہاں تک بیٹیوں سے کہہ دیتی ہیں کہ جتنا پڑھنا ہے شادی سے
پہلے پڑھ لو، سسرال جا کر کوئی پڑھائی نہیں ہو سکتی-یہ بات اس لحاظ سے درست
بھی ہے کہ بچوں کی مصروفیات میں نئی مائیں تعلیم اور گھر دونوں پہ توجہ
نہیں دے پاتیں-کچھ مائیں یہ کہتی ہیں جو شوق پورے کرنے ہیں والدین کے گھر
ہی پورا کر لو نجانے آگے سسرال کیسا ملے-
ایک لڑکی کی پیدائش سے لے کر رخصتی تک وہ ذہنی طور پر اگلے گھر جانے، اس
گھر کو اپنا بنانے، ہر قربانی دینے اور نئی زندگی کی بنیاد رکھنے کے لیے ہر
لحاظ سے تیار ہوتی ہے-ہمارے معاشرے میں گھر بسنا ہی عورت سے منسوب کر دیا
گیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے-
کہتے ہیں میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں-ازدواجی زندگی کی گاڑی کے بھی یہی
دو پہیے ہیں جو اسے زندگی بھر چلاتے ہیں-اگر ایک ہی پہیے پہ سارا بوجھ ڈال
دیا جائے تو وہ وزن کو سہار نہیں پاتا اور پھٹ جاتا ہے-یہی وجہ ہے کہ ہمارے
معاشرے کی خواتین کی کثیر تعداد ذہنی دباؤ، ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار
ہے-عورت پہ اس کی بساط سے بڑھ کر ڈالا گیا بوجھ اس کو ذہنی دباؤ سمیت کئی
امراض میں مبتلا کر دیتا ہے-پاکستانی معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین گھر کی
ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھا رہی ہیں-گھر سے باہر کام کرنی والی خواتین نا
صرف اپنا بلکہ اپنے بچوں سمیت سسرال والوں کے بھی اخراجات برداشت کرتی
ہیں-گھر بسانے اور ازدواجی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خواتین
قربانی دینے کا کوئی بھی موقع فراموش نہیں کرتیں-ملازمت پیشہ خواتین کے
ساتھ ساتھ وہ خواتین بھی اس معاشرے کا فعال رکن ہیں جو اپنے گھروں کے اندر
ہی رہ کر کام کر رہی ہیں
ان خواتین میں آن لائن جان کرنے والی خواتین سے لے کر، سلائی، کڑھائی،
دستکاری کرنے والی خواتین، بچوں کو قرآن اور ٹیوشن پڑھانے والی خواتین،
کھانا بنا کر سپلائی کرنے والی خواتین، کپڑے بیچنے والی خواتین، پینٹنگ اور
خطاطی کرنے والی خواتین سب ہی شامل ہیں-یہ وہ خواتین ہیں جو اپنے گھر کی
معاشی ترقی کے لئے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں-بچوں یا سسرال کی
مشکلات کے باعث گھر سے نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا-گھروں میں رہنے والی
خواتین بھی مسلسل اپنے گھر کی صفائی اور تزئین و آرائش میں مصروف عمل نظر
آتی ہیں-
جہاں تک بات کی جائے ازدواجی زندگی میں عورت کے کردار کی تو گھریلو خاتون
سے لے کر ملازمت پیشہ خاتون تک ہر کوئی ازدواجی زندگی میں بے سکونی کا ذکر
کرتا نظر آتا ہے-ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور دکھائی دیتا ہے-کہیں
ڈاکٹر بہو کو یہ کہہ کر گھر بیٹھا لیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد نوکری نہیں
کروانی تو کہیں سرکاری نوکری کرنے والی سے شادی ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ
شادی کے بعد بیوی اپنا بوجھ خود اٹھائے-کہیں سسرال والے بچوں کے اخراجات کے
لیے زبردستی نوکری کے لیے اکساتے ہیں تو کہیں نوکری کرنے والی کو ہر آنے
والے کے سامنے بے عزت کیا جاتا ہے کہ یہ گھر کے کام ہی نہیں کرتی-
ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں گھر بسانے کی سب ذمہ داری عورت کے سر پہ
عائد کر دی جاتی ہے-کیا مرد اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہے؟ نہیں، بلکہ مرد
اس میں برابر کا شریک ہے-درحقیقت یہ بھی ہماری ماؤں کی غلط تربیت ہے جو
لڑکیوں کو تو پیدائش سے سسرال میں جینے کے لیے تیار کرتی ہیں مگر بھول جاتی
ہیں کہ اس بیٹے کی بھی تربیت بے حد ضروری ہے جو اس عورت کو گھر میں جینے
دے-جس شخص کے لیے وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے گی وہ شخص بھی بدلے میں اتنی
ہی عزت و احترام سے نوازے-جو اس عورت کا حق ہے-
مرد گھر کا حاکم ہوتا ہے اور اسے یہ درجہ اس کے رب نے دیا ہے-لہذا مرد کی
تربیت بھی اسی لحاظ سے کی جانی چاہیے کہ وہ ایک عادل حکمران کی طرح رعایا
سے انصاف کر سکے-
''ہر شخص اپنی رعیت کے متعلق جوابدہ ہے''
مرد کی رعیت میں اس کے بیوی بچے والدین سب شامل ہیں-اسلام ہمیں اعتدال اور
میانہ روی کا درس دیتا ہے مگر پاکستانی معاشرے کے مرد کے سامنے ہمیشہ
والدین کا پلڑہ بھاری رہتا ہے-
کہتے ہیں کہ شادی کے بعد عورت جس پلڑے میں آ کر بیٹھتی ہے وہ پلڑہ بہت ہلکا
ہوتا ہے یعنی اس کی کسی چیز، کسی بات، کسی دلیل کی سسرال میں کوئی اہمیت
نہیں ہوتی-مگر اپنی سلیقہ شعاری، وفا، محبت، قربانی، خلوص اور بے پناہ خدمت
کے غوض وہ پلڑا بھاری ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر وہ مرد اس جانب جھک جاتا
ہے-بات درست بھی ہے اور ازدواجی زندگی کی کامیابی کی کنجی بھی سمجھی جاتی
ہے-جس کنجی کے ذریعے مرد کے دل کا تالا کھولا جا سکے-مرد کے دل کے تالے
کھولنے کے لیے تو مائیں کافی ساری کنجیاں بیٹیوں کے ہاتھ میں دے کر بھیجتی
ہیں جیسے صبر کی کنجی، قربانی کی کنجی، منہ بند رکھنے کی کنجی، اچھے پکوان
پکا کر میدے سے دل تک رسائی حاصل کرنے کی کنجی، سسرال والوں کی غلط باتوں
پہ برداشت کی کنجی،ایثار اور محبت کی کنجی، غرضیکہ ڈھیروں کنجیوں کو بیوی
شوہر کے دل کا تالا کھولنے کے لیے استعمال کرتی ہے مگر ان میں سے کوئی بھی
چابی کارآمد ثابت نہیں ہوتی-ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پتھر دل شوہر کبھی موم
نہیں ہوتا؟ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتنی خدمات کے بعد بھی کبھی عورت کو صلہ
نہیں ملتا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کبھی عورت کی قربانیوں کا ذکر نہیں کیا جاتا
نہ ہی اس کی تعریف کی جاتی ہے؟ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ساری کنجیاں آزمانے کے
بعد عورت تھک ہار کر زندگی سے ہی مایوس ہو جاتی ہے؟
سب سے پہلے یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی فرد واحد پہ
منحصر نہیں بلکہ یہ باہمی تعاون اور باہمی ہم آہنگی پر منحصر ہے-عورت اپنے
گھر کو بنانے کے لیے جتنی مرضی بھی قربانیاں دے دے شوہر کا ساتھ اگر نہیں
تو یہ رشتہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا-
جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہر
کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے-کسی بھی کامیاب عورت سے اس
کی کامیابی کے سفر میں ساتھ دینے والے مرد کے متعلق پوچھیں تو کنواری لڑکی
اپنے باپ کا اور شادی شدہ اپنے شوہر کا ذکر کرے گی-وہ تمام خواتین جو بڑے
بڑے عہدوں پر فائز ہیں یا کوئی بڑی کمپنی یا بزنس چلا رہی ہیں ان کے پیچھے
ان کے شوہر کا دیا ہوا اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے جو ان خواتین کو آگے
بڑھانے پر اکساتا ہے-یہ خواتین اپنے کام کے ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی
کامیاب نظر آتی ہیں اس کی وجہ ان کے شوہر کی جانب سے ملنے والا سہارا ہے جس
نے انہیں تھام رکھا ہے-
اچھا شوہر، کامیاب ازدواجی زندگی کے حصول کے لیے بہت معاون ہے-اس کے لیے
ہمیشہ اپنے رب سے دعا کی جائے کہ وہ اچھے لوگوں کا ساتھ نصیب کرے-شادی کے
وقت والدین لڑکے کی شکل صورت، تعلیم، نوکری، تنخواہ سب دیکھتے ہیں مگر
شرافت، خاندان اور دین داری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں-
''عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں''
والدین کو چاہیے کہ شادی کرتے وقت اچھے خاندان کو پیسے پہ فوقیت دیں کیونکہ
دین دار لوگ جنہیں اﷲ تعالیٰ کا خوف ہو وہ دوسروں کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی
کی طرح سمجھتے ہیں-
شادی شدہ زندگی کامیاب رہی یہ تو زندگی کے اختتام پر پتہ چلتا ہے-عمر
گزارنے کے بعد ہی مشاہدہ تمام زندگی کی کامیابیوں اور ناکامیاں آشکار کرتا
ہے-
دوسروں کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ صبر کرنے والی عورت کامیاب رہتی ہے، مگر
ساتھ ایک بات قابل غور ہے گھر اور شادی چلانے اور بسانے والا مرد ہوتا
ہے-عورتیں تو سب ہی صبر کرتی ہیں، گھر بساتی ہیں یہ مرد ہیں جو کسی کو ملکہ
بنا کر رکھتے ہیں کسی کو جوتے کی نوک پہ-اس لیے شادی کی کامیابی مرد کے
اچھا ہونے میں بھی پوشیدہ ہے-صابر اور صلح جو قسم کے مرد ہمیشہ اپنا گھر ہر
حال میں بسائے رکھتے ہیں، بیوی پھوہڑ اور زبان دراز ہو تب بھی مرد حضرات جو
صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ایسی بیویوں کے ساتھ گزارا کر لیتے ہیں
البتہ کچھ اولاد ماں پہ چلی جاتی ہے اور کچھ باپ پہ-
جس طرح گاڑی متوازن پہیے کے ساتھ چلتی ہے بالکل اسی طرح زندگی کی گاڑی بھی
متوازن رشتوں سے چلتی ہے میاں بیوی کو یہ گاڑی مل کر چلانی پڑتی ہے-اگر مرد
غصے ہے تو عورت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے اور اگر عورت تھک چکی ہے یا بیمار
ہے تو شوہر اس کی خدمت کرے اور اس کا دکھ سکھ کا ساتھی بنے اس صورتحال میں
پیچیدہ صورتحال پہ بھی قابو پایا جا سکتا ہے-
ازدواجی زندگی کی کامیابی فقط ایک فرد پہ منحصر نہیں بلکہ یہ میاں بیوی
دونوں کی ذمہ داری ہے کہ اس تعلق کو مضبوط اور خوشگوار بنانے کے لیے کوشاں
رہیں تاکہ بچے بھی اپنی آنے والی نسل کے ساتھ اچھے برتاؤ اور صبر و تحمل کا
مظاہرہ کریں
|