قُرآنِ کریم اور قصہِ دُرِ یتیم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 23 تا 30 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قضٰی ربک
اَلّا تعبدوا اِلّا ایاہ
وبالوالدین احسانا اما
یبلغن عندک الکبر احدھما
اوکلٰھما فلا تقلھما اف ولاتنھرھما
وقلھما قولا کریما 23 واخفض لھماجناح
الذل من الرحمة وقل رب ارحمھما کما ربیٰنی صغیرا
24 ربکم اعلم بمافی نفوسکم ان تکون صٰلحین فانہ کان
للاوابین غفورا 25 واٰت ذالقربٰی حقہ والمسکین وابن اسبیل ولا
تبذر تبذیرا 26 ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین وکان اشیطٰن لربہ
کفورا 27 و اما تعرضن عنہم ابتغاء رحمة من ربک ترجوھا فقل لھم قولا
میسورا 28 ولا تجعل یدک مغلولة الٰی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد
ملوما محسورا 29 ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہٖ خبیرا
بصیرا 30
اے ھمارے رسول ! آپ کے رب نے یہ فیصلہ کردیا ھے کہ آپ نے میرے سوا کسی کا کارگزار نہیں بننا اور اپنے والدین کے ساتھ محبت و مہربانی اور عاجزی و فروتنی کے سوا کوئی ایسا رویہ بھی کبھی اختیار نہیں کرنا کہ جس سے اُن کے دل میں بال آجاۓ اور جب اِن میں سے کسی ایک کو اِس کی ڈھلتی عُمر ڈھیلا کردے یا دونوں کے دونوں کے دونوں عُمر رسیدگی کے دور میں داخل ہو جائیں تو اِن کے سامنے اپنی سانسوں کے زیر و بَم میں بھی ارتعاش پیدا نہیں ہونے دینا اور نہ ہی اِن کے سامنے کوئی ایسی دُکھ بھری آواز بلند کرنا جو اِن کے دل کے آب گینے کو ٹھیس پُہنچاۓ اور اِن کے ساتھ جب بھی کوئی بات کرنا تو اتنی نرمی اور ملائمت سے کرنا کہ اِن کا دل شاد و آباد ہوجاۓ اور آپ کے والدین کی جس ڈھلتی عُمر کا ذکر ہوا ھے اگر آپ کی زندگی میں اُن کے جسم و جان پر وہ ڈھلتی عُمر اپنا سایا ڈال دے تو آپ اپنے دست و بازُو کو اُن کے لیۓ اپنے دو پَر بنالینا اور پھر اپنے اِن دو پروں کو اُن کے ڈُوبنے اور ڈولنے والے ناتواں جسموں پر ڈال کر اُن کے جسم و جان کو اِن کی نرمی اور حرارت میں چُھپالینا اور اپنے اِس عمل کے دوران اپنے رَب سے یہ دُعا و استدعا بھی کرتے رہنا کہ اے میرے رَب ! تُو اِن دونوں کے ساتھ اِن کے بڑھاپے میں ایسی ہی محبت و مہربانی کر جیسی محبت و مہربانی یہ میرے بچپن میں میرے ساتھ کیا کرتے رھے ہیں لیکن یہ بات ہرگز نہ بُھولنا کہ والدین کے ساتھ اَولاد کی یہ محبت و مہربانی خالصتاً انسان کے دل کا معاملہ ھے اِس لیۓ اِس معاملے میں جس انسان نے جو بھی عمل کرنا ھے وہ دل سے کرنا ھے اور تُم لوگوں نے اِس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا کہ اللہ تعالٰی تُمہارے دلوں میں چُھپے خیالات کو بخوبی جانتا ھے ، اگر تُم بَھلے لوگوں کی طرح بَھلائی کرو گے تو اللہ تعالٰی تعالٰی تُمہاری خطا پوشی کرے گا اور تمہیں تُمہارے اِن اعمالِ خیر کا اَجر بھی دے گا ، ماں باپ کے جن حقوق کا ذکر ہوا ھے اُن حقوق کے بعد ترجیحی بُنیادوں پر جو تین انسانی گروہ تُمہاری مدد کے سب سے زیادہ مُستحق ہوتے ہیں اُن میں پہلا گروہ تُمہارے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والے اُن انسانوں کا گروہ ھے جن کے ساتھ تُمہارا خُونی یا انسانی رشتہ ھے اور دُوسرا انسانی گروہ جو تُمہاری امداد کا مُستحق ھے وہ اُن بے کس لوگوں کا گروہ ھے جو کسی بھی طرح کی جانی یا اَنجانی وجوہ کے باعث کام کاج سے محروم ہو کر معاشرے میں غیر مُعطل ہو چکا ھے اور انسانی معاشرے میں تُمہاری مدد کا تیسرا مُستحق وہ گروہ ھے جو کسی بھی وجہ سے گھر سے بے گھر یا پھر گھر سے دُور ہو چکا ھے اور یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیۓ کہ جب تُم اِن مُستحق لوگوں کی مدد کرو تو اِن کو اپنی پسند کی چیز مُہیا کرنے کے بجاۓ اُن کی ضرورت کی چیز مُہیا کیا کرو اور جب تُم یہ مدد کرو تو اَندھا دُھند داد و دہش کے بجاۓ طریقے ، سلیقے اور اعتدال و توازن کے ساتھ مدد کرو تاکہ دُوسروں کی مُحتاجی دُور کرتے کرتے تُم خود بھی کہیں اتنے مُحتاج نہ ہو جاؤ کہ اِس کے بعد کسی کی مدد ہی نہ کر سکو ، حقیقت یہ ھے کہ انسان کی دسترس میں آنے والا مال اللہ تعالٰی کی ایک نعمت ہوتا ھے اور اِس نعمت کی ناقدری کرنے والے لوگ شیطان کے بھائی بند بن جاتے ہیں کیونکہ شیطان اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والا ایک علامتی کردار ھے ، اگر تُمہارے پاس ایسے وقت پر کوئی حاجت مند آجاۓ جب تُم خود بھی مُحتاجی سے دو چار ہو تو ایسے وقت پر آنے والے حاجت مند کے ساتھ جُھنجلا کر گرم گفتاری کا مظاہرہ نہ کرو بلکہ اُس کو اِس نرم روی کے ساتھ اپنی بات سمجھاؤ کہ وہ تُمہاری مجبوری اور معذوری کو آسانی کے ساتھ سمجھ جاۓ اور کسی کو کُچھ دیتے وقت تُم اپنا ہاتھ اتنا پیچھے مت کھینچو کہ تُمہاری گردن سے جا لگے اور نہ اتنا آگے بھی مت بڑھاؤ کہ تُم مال ضائع کرنے یا پھر اپنے مال کی نمائش کرنے والوں میں شمار کیۓ جانے لگو اور پھر ایک تَھکے ہارے ملامت کار بن کر بیٹھے کے بیٹھے رہ جاؤ اور انسانی تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ انسان کی روزی اُس کی سعی و عمل سے مشروط ھے اور جو شخص قوانینِ فطرت میں رہتے ہوۓ اپنی صلاحیت کے مطابق سعی و عمل کرکے اپنی روزی میں وُسعت اور فراخی پیدا کرنا چاہتا ھے تو اللہ تعالٰی اپنی قُدرت سے اُس کی روزی بڑھانے کے اَسباب فراہم کر کے اُس کے رزق کو بڑھاتا رہتا ھے کیونکہ اللہ تعالٰی ہر لَمحہ و ہر آن اپنے بندوں کی خبر گیری کرتا رہتا ھے اور اُن کے اعمال و افعال کو بھی دیکھتا رہتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے0 کم و بیش 230 اَحکامِ نازلہ کے مطابق عالَم کا خالق و مالک صرف اللہ تعالٰی ھے اور عالَم میں اللہ تعالٰی کا جو فطری قانون Natural Law قائم و جاری ھے وہ عالَم کے اُس حُکمران کی حکمرانی کا قانونِ مرضی will of the ruler ھے اور قُرآن ہی کے اَنگنت اَحکامِ نازلہ کے مطابق عالَم کے لیۓ اللہ تعالٰی کا مُستقل دستور permnent consitution قُرآن ھے اور قُرآن کے اِس عملی قانون prctical Law میں ایک وہ معروف نظریہِ افادیت utilitrianism بھی موجُود ھے جس کے تحت اللہ تعالٰی نے انسان کو جو اَحکامِ اَمر و نہی دیۓ ہیں اُن اَحکامِ اَمر و نہی میں اَحکام کی ایک قسم وہ ھے جس میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو کوئی ایسا حُکم دیا ھے جس حُکم کا اطلاق درحقیقت تو صرف اُس رسول کی ذات گرامی پر ہی ہوتا ھے لیکن بالتبع اُس کا اطلاق اُن اَفرادِ اُمت پر بھی ہوتا ھے اور نظریہِ افادیت کے اِس قانون کے تحت قُرآن میں اَحکام کی دُوسری قسم وہ ھے جو ساری نوعِ انسانی کو دیۓ گۓ ہیں اور نوعِ انسانی کے ایک فرد کے طور پر اِس میں وہ ذاتِ گرامی خود بھی شامل ھے جس پر قُرآن نازل ہوا ھے ، سُورةُالاسرٰی کی اٰیاتِ بالا جو اِس قانون کی ایک بہترین مثال ہیں اِن کی اٰیت 23 اور 24 میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو اَمر حاضر کے صیغہِ واحد مذکر کے ساتھ جن دو باتوں کا حُکم دیا ھے اُن میں پہلی بات یہ ھے کہ آپ کے رَب نے اپنی خاص عدالت سے آپ کے لیۓ ایک تو یہ خاص حُکم جاری کیا ھے کہ آپ نے اپنے پروردگار کے سوا کبھی بھی کسی اور ہستی کا کارگزار نہیں بننا اور آپ کے رَب نے اپنی خاص عدالت سے آپ کے لیۓ جو دُوسرا حُکم جاری کیا ھے وہ یہ ھے کہ آپ نے اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ محبت و مہربانی اور عاجزی و فروتنی کے ساتھ پیش آنا ھے اور آپ نے اپنے والدین کے ساتھ کبھی بھی کوئی ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا جس سے اُن کے دل میں کوئی بال آجاۓ اور جب اُن میں سے کسی ایک کو اُس کی ڈھلتی عُمر ڈھیلا کردے یا دونوں کے دونوں عُمر رسیدگی کے دور میں داخل ہو جائیں تو اُن کے سامنے اپنی سانسوں کے زیر و بَم میں بھی ارتعاش پیدا نہیں ہونے دینا اور نہ ہی اُن کے سامنے کوئی ایسی دُکھ بھری آواز بلند کرنا ھے جو اُن کے دل کے آب گینے کو کوئی ٹھیس پُہنچاۓ اور اُن کے ساتھ جب بھی کوئی بات کرنی ھے تو اتنی نرمی اور ملائمت سے کرنی ھے کہ اُن کا دل شاد و آباد ہو جاۓ اور آپ کے والدین کی جس ڈھلتی عُمر کا ذکر ہوا ھے اگر آپ کی زندگی میں اُن کے جسم و جان پر وہ ڈھلتی عُمر اپنا سایا ڈال دے تو آپ نے اپنے دست و بازُو کو اُن کے لیۓ اپنے دو پر بنا لینا ھے اور پھر اپنے اِن دو پروں کو اُن کے ڈوبنے اور ڈولنے والے ناتواں جسموں پر ڈال کر اُن کے جسم و جان کو اِن کی نرمی اور حرارت میں چُھپا لینا ھے اور آپ نے اپنے اِس عمل کے دوران اپنے رَب سے یہ دُعا و استدعا بھی کرتے رہنا ھے کہ میرے رَب ! تُو اِن دونوں کے ساتھ اِن کے بڑھاپے میں ایسی ہی محبت و مہربانی کر جیسی محبت و مہربانی یہ میرے بچپن میں میرے ساتھ کیا کرتے تھے ، اِن دو اٰیات کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنا رُوۓ سُخن اپنے نبی کے بجاۓ اپنے نبی کی اُمت کی طرف کرلیا ھے اور اٰیت 25 میں اُمت کو جمع کے صیغوں کے ساتھ یہ خطاب فرما کر اُمت کے ہر ایک فرد کو والدین کے ساتھ اُسی محبت و مہربانی کی تعلیم دی ھے جس محبت و مہربانی کی تعلیم اِس اُمت سے پہلے اِس اُمت کے کے نبی کو دی ھے تاکہ قُرآن کا حُکم بھی اُمت کو سمجھ آجاۓ اور نبی کا اُسوہِ حسنہ بھی اُمت کے ذہن پر نقش کالحجر ہو جاۓ ، اِن تین اٰیات کے بعد اٰیاتِ بالا کی اٰیت 26 میں ترجیحی بُنیادوں پر نبی اور اُمتِ نبی دونوں کو انسانی معاشرے کے اُن تین گروہوں کے ساتھ معاشی و معاشرتی مدد کرنے کا حُکم دیا ھے جس کا بُنیادی نُکتہ یہ ھے کہ اِس مدد میں نہ تو اپنا ہاتھ اتنا تنگ کرلینا کہ وہ تُمہارے جسم سے آگے نہ بڑھ سکے اور نہ ہی تُم اتنی کشادہ دستی کا مظاہرہ کرنا کہ تُم آنے والے وقت میں معاشی بَدحالی کا شکار ہونے والے انسانوں کے ساتھ خیر کا یہ عمل دوبارہ نہ کر سکو بلکہ تُم ہمیشہ اِس بہتر حال میں رہو کہ جس طرح وقت کے اِن بے کس لوگوں کو آج تُم نے لینے والوں کی قطار سے نکال کر دینے والوں کی قطار میں شامل کیا ھے اسی طرح تُم آئندہ بھی مُحتاج کو مُختار بنانے کا یہ عمل جاری رکھو کیونکہ دینے والے یہ ہاتھ ہی مُردہ قوموں کی رگوں میں زندگی کی حرکت و حرارت پیدا کرتے ہیں اور جو لوگ انسانی معاشرے میں یہ اعمالِ خیر اَنجام دیتے رہتے ہیں اللہ تعالٰی اُن کو دیکھتا رہتا ھے اور اُن کو اِن کے اعمالِ خیر کا بدلہِ خیر بھی اُن کو دیتا رہتا ھے ، قُرآنِ کریم کے اِس سلسلہِ کلام میں قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ قُرآنِ کا یہ واحد مقام ھے جس مقام پر اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو مُخاطب کر کے اپنے اِس عدالتی فیصلے کا اعلان کیا ھے ، اللہ تعالٰی کے اِس حُکم میں جس حرفِ "اُف" سے روکا گیا ھے اُس کا ایک استعمال عالَم میں رُونما ہونے والے کسی بڑے حادثے پر اظہارِ حیرت کرنے کے لیۓ ہوتا ھے اور ایک استعمال اپنے اندرونی رَنج کو ظاہر کرنے کے لیۓ ہوتا ھے ، مقصدِ کلام یہ ھے کہ تُمہاری نظروں نے کسی حادثے کو دیکھا ہو یا تُمہارے دل کی زمین پر رَنج و درد کا کوئی قافلہ گزارا ہو تُم اپنے بوڑھے والدین کے سامنے اپنی زبان سے ایک مُختصر سے حرفِ تاسف "اُف" کے ساتھ بھی ظاہر نہ کرنا کیوں کہ وہ تو تُم سے اتنی والہانہ محبت کرتے ہیں کہ اُن کا نازک دل تو تُمہارے اِس ہلکے سے تاسف سے ہی کٹ کر رہ جاۓ گا لیکن اِن اٰیات میں آنے والے یہ نازک اِحساسات اپنی جگہ ، سوال یہ ھے کہ عُلماۓ روایات کی روایات کے مطابق جس ہستی کے والدین اُس کے بچپن اور جوانی میں کبھی موجُود ہی نہیں تھے تو اللہ تعالٰی نے اپنے ایک مُنفرد فیصلے کے ذریعے اُس ہستی کو اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ محبت و مہربانی کی جو تعلیم دی ھے اور اُن کے جسم کے لیۓ اپنے وجُود کو ڈھال بنانے کی جو تلقین کی ھے اُس کا مقصد کیا ھے ، اگر آپ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے اور آپ کی والدہ بھی آپ کی عھدِ کمسنی میں دُنیا سے رُخصت ہوچکی تھیں تو پھر اہلِ روات کی دُرِ یتیم والی روایات کو کہاں رکھا جاۓ اور قُرآن کی اِن اٰیات کو کہاں رکھا جاۓ لیکن حقیقت تو یہ ھے کہ اہلِ روایت کی دُرِ یتیم والی اِس کہانی کی غرض تو صرف یہ ثابت کرنا ھے کہ آپ کا بچپن بکریاں چراتے ہوۓ گزرا ھے ، انسانوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا کبھی کوئی موقع ہی نہیں ملا اور آپ کی جوانی بھی سخت تنگ دستی میں گزری ھے ، بَس لے دے کر ایک مُشفق چچا کے بعد سیدہ خدیجہ کی دولت نے ہی ایک وقت تک آپ کو مالی سہار دیا لیکن اُن کی وفات کے بعد آخر دم تک پھر وہی غُربت آپ کے ساتھ ساتھ رہی حالانکہ سیدنا محمد علیہ السلام اپنے عھدِ جوانی ہی میں اپنے وقت کے ایک مُتمول اور ایمان دار تاجر کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور سیدہ خدیجہ نے آپ کی اِن ہی صفات کو دیکھ کر آپ کو اپنے مالِ تجارت کا ذمہ دار بنایا تھا اور سُورةُالاَحزاب کی اٰیت 53 کے مطابق سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد اکثر و بیشتر آپ کے گھر پر کھانے کے لیۓ آپ کے اصحاب و احباب کی اتنی دعوتیں ہوا کرتی تھیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کے اَصحاب کے لیۓ قُرآن میں یہ حُکم نازل کیا کہ نبی گھر پر آیا کرو تو کھانے کے وقت سے بہت پہلے نہ آیا کرو اور کھانے کے بعد بہت دیر تک بیٹھے بھی نہ رہا کرو ، تُمہاری کھانے سے پہلے اور بعد کی طویل نشستوں پر میرے نبی کا دل دُکھتا ھے لیکن وہ اپنی طبعی شرافت کے باعث کھانے پر آنے والے کسی مہمان سے کُچھ نہیں کہتے مگر اہلِ روایت نے تو یہ سارا کھلواڑ صرف یہ ثابت کرنے کے لیۓ کیا ھے کہ آپ کو آپ کے ایک چچا نے پالا ھے ورنہ تو سارے زمانے میں آپ کا تو کوئی ایک بھی پُرسانِ حال نہیں تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455479 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More