#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاسرٰی ،
اٰیت 16 تا 22 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اذا اردنا
ان نھلک قریة
امرنا مترفیھا ففسقوا
فیھا فحق علیھاالقول فدمرنٰھا
تدمیرا 16 وکم اھلکنا من القرون من
بعد نوح وکفٰی بربک بذنوب عبادہٖ خبیرا
بصیرا 11 من کان یریدالعاجلة عجلنالہ فیھا
مانشاء لمن نرید ثم جعلنالہ جھنم یصلٰھامذموما
مدحورا 18 ومن ارادالاٰخرة وسعٰی لھا سعیہا وھو مؤمن
فاولٰئک کان سعیہم مشکورا 19 کلانمد ھٰٓؤلٓاء و ھٰٓؤلاء من عطاء
ربک وماکان عطاء ربک محظورا 20 انظر کیف فضلنا بضہم علٰی بعض
وللاٰخرة اکبر درجٰت واکبر تفضیلا 21 لا تجعل مع اللہ الٰھااٰخرفتقعد
مذموما
مخذولا 22
اے ھمارے رسول ! ھم نے جب کبھی بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے کسی نافرمان
بستی کے نافرمان لوگوں کو حق کا پیغام دے کر اُن پر اپنی حُجت تمام کی ھے
تو پھر ھم نے اُس بستی کے اُن لوگوں پر اپنے عذاب کا تازیانہ برسانے کا یہ
طریقہ اختیار کیا ھے کہ ھم نے اُن لوگوں پر اُن کے آسُودہ حال اور بَد خصال
لوگوں کو مُسلّط کر دیا ھے اور پھر جب اُن لوگوں کے وہ بدترین لوگ اُن کے
شہروں اور اُن کی بستیوں میں ھمارے قانون کی کُھلم کُھلا نافرمانی کرنے لگے
ہیں تو اُن کی اِس اعلانیہ نافرمانی کے بعد ھم نے اُس قوم کے شہروں اور
بستیوں کو اِس طرح زیر و زَبر کردیا ھے کہ اَب اُن بستیوں میں اُن بستیوں
کے ماتم سرا کھنڈرات کے سوا کُچھ بھی موجُود نہیں رہا ھے ، تُم چاہو تو
انسانی تاریخ اور اِس کی طُولانی سرگزشت پڑھ کر دیکھ لو اور پھر اِس بات پر
غور کرو کہ ھماری زمین پر نُوح کے بعد کتنی قومیں آئی ہیں اور کتنی قومیں
اپنے اجتماعی جرائم کے نتیجے میں اجتماعی طور پر سینہِ زمین سے اُتر کر
بطنِ زمین میں جا چکی ہیں ، یقین کرو کہ تُمہارا پروردگار بذاتِ خود اپنے
بندوں کے اعمالِ حیات کو دیکھتا ھے ، اُن کے کارِ معصیت کی خبر رکھتا ھے
اور زمین پر فساد کا بیج بونے والے فسادی لوگوں کو زمین سے مٹا دیتا ھے ،
اگر تمہیں یہ بات جاننے میں دلچسپی ھے کہ انسانی بستیوں میں جو لوگ پہلے
خوش حال ہوجاتے ہیں ، پھر بَدخصال ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے شہروں اور
بستیوں کے لیۓ باعثِ زوال ہوجاتے ہیں تو ھم پہلے مرحلے میں ہی اُن کا ٹیٹوا
کیوں نہیں دُبا دیتے تو اِس کی وجہ صرف یہ ھے کہ ھم نے انسان کو طلب کی جو
آزادی دی ھے اُس آزادی کے تحت جو لوگ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ اپنے آنے
والے کَل کا توشہ آج کے آج ہی لے لینا اور کھا لینا چاہتے ہیں تو ھم اُن کی
طلب اور اپنی مَنشا کے مطابق اُن کو دیتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب اُن
کے آنے والا کَل اُن کا آج بن کر اُن پر آجاتا ھے تو ھم اُن کے کَس بَل
نکال کر اُن کو اُن کی اُس بَدبختی کی طرف لے جاتے ہیں جو اُنہوں نے اپنی
حریصانہ جلد بازی میں اپنا مُقدر بنا لی ہوتی ھے لیکن اُن جلد باز لوگوں کے
برعکس جن کا ھم نے ذکر کیا ھے ، جو لوگ اپنے آنے والے دن کے لیۓ اپنے جانے
والے دن میں جلدی بازی کا مظاہرہ کرتے عُجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اُن کی
یہ عُجلت خیر کے ارادے سے ہوتی ھے اور خیر کے لیۓ ہوتی ھے ، ھم اُن لوگوں
کو تو خیر اطمینان سے نوازتے ہی نوازتے ہیں لیکن اِس سے بھی اھم بات یہ ھے
کہ ھم اُم کی اِن ذمہ دارانہ کوششوں کی قدر دانی بھی کرتے ہیں ، جن دو جلد
باز کرداروں کا ھم نے ذکر کیا ھے اِن میں ایک کردار تو وہ ھے جو اپنی آنے
والی زندگی کے لیۓ اپنے آج سے کُچھ نہ کُچھ پَس انداز کرتا رہتا ھے اور
دُوسرا وہ جلد باز کردار ھے جو اپنے آنے والے کَل کا توشہ آج کے آج ہی کھا
جاتا ھے ، ھم اِن دونوں کرداروں کو اِن کی خواہش کے مطابق دیتے رہتے ہیں
کیونکہ آپ کا رب جس کو جو کُچھ دینا چاہتا ھے اُس کو کوئی روک نہیں سکتا
لیکن تُم لوگوں کے لیۓ سب سے زیادہ قابلِ غور بات یہ ھے کہ ھمارے نزدیک اِن
دو انسانی کرداروں میں کس کردار کا کردار اُس کی برتری کا باعث ھے اور کون
سے کردار کا کردار اُس کی ابتری کا باعث ھے ، حقیقت یہ ھے کہ گزری اور
گزرنے والی حیات کے مقابلے میں آنے والی حیات درجے اور فضیلت میں برتر اور
بلند تر ھے اور یہ باتیں جو ھم نے تُمہارے لیۓ بیان کی ہیں اِن باتوں کا
لازمی تقاضا یہ ھے کہ تُم اللہ تعالٰی کے اَحکام کے ساتھ کسی اور کے اَحکام
کی ہر گز اطاعت نہ کرنا ، اگر تُم ھمارے اِس حُکم کی خلاف ورزی کرو گے تو
عزت کی دوڑ میں سب سے پیچھے رہ جاؤ گے اور ذلّت کی دوڑ میں سب سے آگے نکل
جاؤ گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورةُالاَسرٰی کی پہلی اٰیت سیدنا محمد علیہ السلام کے شہرِ مکہ سے ہجرت
کرکے شہرِ مدینہ میں جانے کی وہ پیشگی خبر ھے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ
کو سفرِ ہجرت سے پہلے بذریعہ وحی دی گئی ھے ، اِس پہلی اٰیت میں دی گئی اِس
پہلی خبر کے بعد آنے والی سات اٰیات میں اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کی اُس
قدیم قوم کا دینی و تاریخی اَحوال بیان کیا ھے جس قدیم قوم کی کُچھ جدید
باقیات شہرِ مدینہ میں موجُود تھیں اور اِن سات اٰیات کا مقصد و مُدعا
سیدنا محمد علیہ السلام کو اُس قدیم قوم کی اِس جدید نسل کے موجُودہ دینی و
سیاسی اور اخلاقی و معاشرتی کردار و عمل سے آگاہ کرنا تھا تاکہ جب آپ مکے
سے ہجرت کر کے مدینے میں جائیں تو آپ کو اُس قدیم قوم کی اِس جدید نسل کے
جدید کردار و عمل کے سمجھنے میں کوئی مُشکل پیش نہ آۓ ، اِن سات اٰیات کے
بعد آنے والی سات اٰیات میں سیدنا محمد علیہ السلام پر اللہ تعالٰی نے وہ
اَحکام نازل کیۓ ہیں جو سارے عالَمِ انسانیت کے لیۓ وہ قابلِ فہم اور
مُشترکہ اَحکام ہیں جو انسان کی عقلِ سلیم و فطرتِ سیلم میں ہمیشہ سے
موجُود ہیں اور جن کی صحت و صداقت کو انسان کی عقلِ سلیم اور فطرتِ سلیم
ہمیشہ ہی تسلیم کرتی رہی ھے اور اَب موجُودہ سات اٰیات میں اِس بات کا ذکر
کیا گیا ھے کہ زمین کی جو اَقوام اللہ تعالٰی کے اِن فکری و فطری اَحکام کا
انکار کرتی ہیں تو وہ اللہ تعالٰی کی اُس سزاۓ ہلاکت کی مُستحق ہو جاتی ہیں
جو زمین پر کسی قوم کو دی جانے والی آخری اور انتہائی سزا ہوتی ھے اور اللہ
تعالٰی کا مَنشا چونکہ انسان کو کوئی ایسی انتہائی سزا دینا نہیں ھے اِس
لیۓ اِس بات کو سمجھنا لازم ھے کہ قُدرت کے نظامِ اصلاح و تربیت میں سزا کا
نصاب کیا ھے اور سزا کے نفاذ کا طریقہ کیا ھے اور قُدرت کے اِس نظام میں
انسان ایک ابتدائی سزا سے اُس انتہائی سزا تک کس طرح پُہنچ جاتا ھے کہ جس
کے بعد اُس کو صفحہِ ہستی سے مٹادینا ہی اَمرِ لازم ہو جاتا ھے ، انسان کو
دُنیا میں ملنے والی اِس سزا کو سمجھنے کے لیۓ قُرآنِ کریم کی اُن دو
اصطلاحات کا سمجھنا لازم ھے جن میں سے ایک معروف اصطلاح "عذاب" ھے جس کا
قُرآنِ کریم نے مُختلف مقامات پر مُختلف صیغ و ضمائر کے ساتھ کم و بیش 385
بار ذکر کیا ھے جبکہ دُوسری معروف اصطلاح "آخرة" ھے اور اِس اصطلاح کا بھی
قُرآنِ کریم نے مُختلف مقامات پر مُختلف صیغ و ضمائر کے ساتھ کم و بیش 215
بار ذکر کیا ھے ، عذاب کا مُطلق معنٰی ایک مُطلق سزا ھے جو جُرم کی نوعیت
کے اعتبار سے بڑی بھی ہوتی ھے اور چھوٹی بھی ہوتی ھے اور جو ایک زندہ انسان
پر جسمانی بیماری کی صورت میں بھی آتی رہتی ھے ، معاشی تنگ دستی کی شکل میں
بھی وارد ہوتی رہتی ھے اور ایک معاشرتی سنگ دلی کے رُوپ میں بھی نازل ہوتی
رہتی ھے لیکن اہلِ روایت کی غلط رَوی اور غلط روایات کی وجہ سے مُسلم
معاشرے میں عذاب صرف اُس سزا کو سمجھا جاتا ھے جو زمانہِ ماضی میں کبھی
کبار زمین کی کسی قوم پر ہلاکت کی صورت میں آئی ھے اور قُرآنِ کریم نے اُس
سزا کا اللہ تعالٰی کی ایک آخری اور انتہائی سزا کے طور پر ذکر کیا ھے اور
اَمرِ وقعہ یہ ھے انسان پر زندگی بھر انسان کی جہالت ، انسان کی غلط سوچ
اور انسان کے غلط فیصلوں کی بنا پر جو رَنج و درد وارد ہوتا ھے وہ بھی اپنے
مقصد و معنی کے اعتبار سے ایک عذاب ہی ہوتا ھے کیونکہ عذاب کا معنی وہ رَنج
و درد ھے جس کو ایک زندہ انسان محسوس کرتا ھے ، اِس کا مطلب یہ ھے کہ عذاب
وہ اذیتِ جسم و جان ھے جو ایک زندہ انسان کے جسم و جان پر اُس کی کسی غیر
فطری روش کی بنا پر وارد ہوتی رہتی ھے ، جہاں تک "اخرة " یا "الاٰخرة" کی
مُحولہ بالا اصطلاح کا تعلق ھے تو یہ "اَوّل کی ضد ھے جس کا معنٰی پہلی چیز
کے بعد ایک دُوسری چیز ھے اور اسی مناسبت سے موت کے بعد ملنے والی زندگی
اور مقامِ زندگی کے لیۓ بھی"آخرة" و "الاٰخرة" وغیرہ کے الفاظ استعمال کیۓ
جاتے ہیں اور یہ "آخر" یا "آخرة" کے الفاظ اپنے مقصد و معنی کے اعتبار سے
انسانی زندگی کے لَمحہِ موجُود سے لے کر زندگی کے ہر اُس لَمحے تک پھیلے
ہوۓ ہیں جو انسان کے مُستقبل میں آتا ھے اِس لیۓ یہ خیال بھی ایک باطل خیال
ھے کہ آخرہ کے لفظ سے آخرت کا وہی ایک زمانہ مُراد ھے جو موت کے بعد آنا ھے
اور آخرت کی نعمت و انعام سے بھی وہ نعمت و انعام مُراد ھے جس نے مرنے کے
بعد انسان کی دسترس میں آنا ھے ، یہ تو وہی فلسفہِ جہالت ھے جو اہلِ جہالت
نے انسان کو اللہ تعالٰی کے وجُود کے انکار پر مجبور کرنے کے لیۓ وضع کیا
ھے لیکن سوال یہ ھے کہ ایک انسان کو آخر اپنے اُس خیالی خالق سے کیا دل
چسپی ہو سکتی ھے جو انسان سے عمل کا اِس دُنیا میں مطالبہ کرے اور اُس کے
اجر کا مرنے کے اربوں برس بعد وعدہ کرتا ہو ، قُرآن انسان کو جس اللہ
تعالٰی سے متعارف کراتا ھے وہ ہر ایک اِنسان کو حرکت و عمل کی تعلیم دیتا
ھے اور ہر ایک انسان کے ہر ایک مُثبت و مَنفی اعمال کی جزا و سزا بھی پہلے
اس دُنیا میں دیتا ھے اور پھر اُس دُوسری دُنیا تک دیتا چلا جاتا ھے جس
دُوسری دُنیا کا اُس نے وعدہ کیا ھے ، سواۓ اُن چند انسانی اعمال کے کہ جن
کا انسان کے اُن معاملات سے تعلق ہوتا ھے جن کے انسان کی جہالت کے باعث اُس
دُنیا میں فیصلے مُعلق ہو جاتے ہیں اور جن کو آخری انصاف کے لیۓ اُس دُنیا
میں جانا ہوتا ھے جس دُنیا میں ہر فیصلہ اللہ تعالٰی نے بذاتِ خود کرنا
ہوتا ھے اور وہ یومِ حساب انہی مُعلق فیصلوں کے لیۓ برپا کیا جاتا ھے جن کو
انسانی عقل اپنے عقلی و مَنطقی اَنجام تک پُہنچانے سے پہلے ہی اپنے مَنطقی
اَنجام تک پُہنچ جاتی ھے ، مُحولہ بالا سات اٰیت میں اللہ تعالٰی نے انسان
پر یہ بات واضح کی ھے کہ جب کبھی بھی کوئی قوم زمین پر اللہ تعالٰی کے
اَحکام کو بار بار رَد اور غیراللہ کے اَحکام کو بار بار قبول کرتی ھے تو
اللہ تعالٰی اُس قوم پر اُس قوم کے اُن بدترین لوگوں کو مُسلط کر کے اُس
قوم کو اپنے عذاب سے دو چار کرتا ھے جو بَدترین لوگ اُس قوم پر خدا کا عذاب
نافذ کرنے والے خدائی نمائندے ہوتے ہیں ، پھر جب تک کوئی قوم خُدا کی
نافرمانی کرتی رہتی ھے تو دُنیاۓ جہنم کے یہ جہنمی کارندے اُس جہنمی قوم پر
مُسلط رہتے ہیں ، پھر جو قوم سمجھ کر سنبھل جاتی ھے تو وہ اِس عذاب سے
بَچالی جاتی ھے اور جو قوم نہیں سمجھتی اور نہیں سنبھلتی تو وہ قوم ہلاک
کردی جاتی ھے ، اللہ تعالٰی کا یہی وہ اَزلی و اَبدی قانون ھے جو اَزل سے
جاری ھے اور اَبد تک کے لیۓ جاری ھے ، اٰیاتِ بالا میں دُوسرا مضمون وہی ھے
جو گزشتہ اٰیات میں ایک اجمال کے ساتھ بیان ہوا تھا اور موجُودہ اٰیات میں
ایک تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ھے اور اُس مضمون کا ماحصل یہ کہ ہر زندہ انسان
کے لیۓ اللہ تعالٰی کے پاس اُس کی عملی کار کردگی کے مطابق اُس کے رزق کا
ایک Debit Account موجُود ھے جس میں جو انسان جو کماتا ھے وہ جمع ہوتا رہتا
ھے اور جس سے جو انسان جو خرچ کرتا ھے وہ صَرف ہوتا رہتا ھے اور جو انسان
اپنے اِس Account کو ختم کرنا چاہتا ھے وہ ختم کردیا جاتا ھے ، روزی کا
زمین میں پیدا کرنا اللہ تعالٰی کا کام ھے ، روزی کو زمین میں گھوم پھر کر
تلاش کرنا انسان کا اپنا کام ھے اور جس انسان کی استطاعت سے جو روزی جمع
ہوتی ھے اُس کے وقت کا تعین اور تقسیم کا کام یقینا اللہ تعالٰی خود کرتا
ھے لیکن اُس روزی کے تا دیر موجُود رہنے یا جلد ختم ہوجانے کا سارا دار و
مدار انسان کی طلب اور انسان کے خرچ پر ھے !!
|