فروغ اُردو زبان اورہمارا کردار
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی صاحب سے اُردو کی ترویج و ترقی کے حوالے سے ملاقات کا احوال
|
|
|
پاکستان میں اُردو کو سرکاری زبان تو قرار دیا جاتا ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کو مکمل طور پر رائج کرنے کے حوالے سے آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک مختلف ادارے اورافراد اس کی ترقی و ترویج کے لئے کام کرتے رہے ہیں انہی میں سے ایک محترم پروفیسر محمد سلیم ہاشمی صاحب عرصہ دراز سے اُردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ ایک نجی تعلیمی ادارے کے سربراہ کے طور پر بھی کام کررہے ہیں اور دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ ان کے بچے بھی اُردو کی ترقی میں بھرپور ساتھ دیتے ہیں، عممومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی مثال کم نظر آتی ہے۔
ان سے اُردو زبان کی ترقی وترویج کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو حسب وعدہ پیش ہے، امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔۔۔
سوال:سب سے پہلے تو یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ آپ کی ”اُردو“ زبان سے محبت کا آغاز کب ہوا؟
جواب۔: میری اردو سے محبت میرے بچپن سے جڑی ہے۔ میں ایک علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، والدین، بہن بھائی سب لکھے پڑھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والے۔ جس عمر میں بچے لکھنا پڑھنا سیکھ رہے ہوتے ہیں، ہم میر اور غالب کے کلام کی تشریح سنتے تھے، علامہ اقبال کا کلام گنگناتے تھے۔ پھر میری والدہ نے بڑی کہانیاں اور نظمیں سنائی، معلوم بھی نہیں کب یاد بھی ہو گئیں۔ ان میں سے بہت سی پنجابی میں تھیں مگر اردو کی کہانیاں اور نظمیں بھی ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔ پھر ہمارے گھر میں کئی روزانہ اخبارات اور ماہانہ رسائل و جرائد آتے تھے، جو ہمیں علم اور ادب سے جوڑے رکھتے تھے، ہماری علمی تشنگی کو سیراب کرتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ نصابی کتب ہم اسکول میں باقاعدہ پڑھائی شروع ہونے سے پہلے ہی پڑھ لیتے تھے:
سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ اُردو نظام تعلیم ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا کر سکتا ہے؟
جواب:جی بالکل، جیسے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی اپنی زبان میں علم حاصل کر کے ترقی یافتہ ہوئے ہیں۔ پاکستان بھی اسی طرح ترقی یافتہ ہوگا۔ انگر یزی نے تو آج تک ہمیں کچھ نہیں دیا۔ ہم علم، سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت میں کہیں نہیں ہیں۔ علم سارے کا سارا، شروع سے آخر تک اردو میں ہوگا تو ہمیں اس کی سمجھ آئے گی، ہمارے ذہنوں کی بند گرہیں کھلیں گی، ہم بھی نئے جہاں دریافت کریں گے، ہم بھی ستاروں پر کمندیں ڈالیں گے، ہم بھی ایجادات کریں گے، ہم بھی ترقی یافتہ ہو جائیں گے۔
سوال: اُردو کے قومی زبان کے طور پر نفاذ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟
جواب:کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انگ ریزی ان کے رزق کا وسیلہ ہے، ان کے مفادات کی نگہبان ہے، ان کی نسلوں کی محافظ ہے، ان کی نالائقیوں کو چھپانے کا وسیلہ ہے۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے میں اپنا فائدہ سمجھتے ہیں، کچھ کم ہمت ہیں، کچھ آئین نو سے ڈرتے ہیں۔ غرض لوگوں کی ایک کافی بڑی تعداد ہے جو انگ ریزی کو اپنا محافظ سمجھتی ہے، اس کا پشتیبان ہے، ان میں بیوروکریسی سے زیادہ استاد، وکیل اور ڈاکٹر ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انگ ریزی ان کی آمدنی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ۔ یہ سب لوگ اردو کے نفاذ میں اصل رکاوٹ ہیں۔ ایک اور طبقہ بھی ہے جو صاحب اقتدار و اختیار ہے جن کا خیال ہے کہ اردو میں کام نہیں چل سکتا، جو انگ ریزی کے قوانین، کتابوں کے ڈھیر دیکھ کر بدک جاتے ہیں کہ ان سے ان کا ترجمہ نہیں ہو سکے گا۔ بیچارے یہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کتنی بڑی قوم ہے جو کروڑوں افراد پہر مشتمل ہے، جو کام چند دنوں میں ہو سکتا ہے ان کی دانست میں یہ کئی صدیوں ،میں بھی نہیں ہو سکتا۔
سوال: کسی بھی زبان کو: قومی زبان قرار دینے کا فائدہ کیا ہے؟
جواب:ہم اس زبان میں علم حاصل کریں گے، کاروبار مملکت چلائیں گے جو ہماری اپنی زبان ہوگی۔ کیا اپنے گھر میں رہنا کسی دوسرے کے گھرمیں رہنے سے زیادہ پر لطف اور آرام دہ نہیں ہوتا؟ جناب یہ اس ملک کو خوشحال کر دے گا، یہاں ترقی لائے گا، پھر ایک اور بڑی بات پاکستانی دنیا بھر میں دربدر ہونے سے، رسوا ہونے سے بچ جائیں گے۔ ہمارا ملک بھی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوگا۔
سوال: آپ کے خیال میں ذرائع ابلاغ اُردو کی ترویج و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
جواب:جی نہیں، یہ تو اردو اور پاکستان کے مجرم ہیں، کوئی انسانوں کی حکومت ہو تو ان کو لگام ڈالے، مگر حکومتوں اور ان چینلوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
سوال:آپ نے ابھی تک کس اُردو لکھاری/ادیب کو خوب پڑھا ہے،کتنا متاثر ہوئے ہیں؟
جواب:بڑے لوگوں کو پڑھا ہے اور جس جس نے اچھا لکھا ہر ایک سے متاثر ہوا۔ ہر اچھا شاعر اور ادیب متاثر کرتا ہے، اتنے نام ہیں کہ رات ختم ہو جائے، بات ختم نہ ہو۔ اور یہ اردو کا اعجاز ہے کہ بے شمار لوگوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔
سوال: ایک اچھے اُردو لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟
جواب:ایسا لکھے جو عام فہم ہو، ایسی زبان میں لکھا جائے جو آسانی سے سمجھ آئے۔ اپنی تحریعر کو خواہ مخواہ فلسفوں اور پیچیدہ خیالات سے آلودہ نہ کرے،، سیدھے سادے انداز میں سیدھی سادی بات کرے۔ میں اس بارے میں روسی ادیبوں سے بہت متاثر ہوں، جو جکچھ جیسا نظر اتا ہے ویسا ہی لکھ دیتے ہیں اور یہی بات ان کو عظمت سے ہم کنار کرتی ہے۔ اپ دیکھیں جتنے لوگوں نے آسان اور سادہ لکھا ہے وہی بڑے سمجھے گئے ہیں۔ میر، غالب، اقبال، فیض فراز، کرشن چندر، پریم چند، غلام عباس، مرزا ادیب، منٹو، ممتاز مفتی،، ابن انشا، تاڑر، اشفاق احمد، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، رضیہ بٹ، مشکل لکھنے والوں کی بھی وہی چیئز مقبول عام ہوئی ہے جو آسان زبان میں لکھی گئی ہے، غالب، اقبال اور اشفاق احمد کو دیکھ لیں۔
سوال: اُردو کے اکثر لکھاری اپنی تحریروں میں جا بجا انگریزی کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا ہم اُن کو اُردو کا دشمن قرار دے سکتے ہیں؟
جواب:ان کو پوچھنا چاہئے کہ ان کا کیا مسئلہ ہے۔ ویسے میرے خیال میں ان کو اردو آتی ہے نہ انگ ریزی۔ دیکھیں اگر ان کو یہ زبانیں اتی ہوں تو ان میں لکھیں، اردو میں لکھیں یا انگ ریزی میں۔ ان کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ ان کو ان میں سے کوئی زبان بھی ٹھیک طرح سے نہیں اتی تو بہتر نہیں ہے کہ پہلے کوئی ایک زبان اچھی طرح سیکھ لیں پھر لکھنا شروع کریں۔ یہ طرز تحریر تو ان کی جہالت کو آشکار کرتا ہے ان کو پڑھا لکھا دکھاتا ہے نہ ان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر چھوڑتا ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک اُردو سے محبت رکھنے والا شخص کس طرح سے اس زبان کی ترقی وترویج کے لئے بھرپور کردار ادا کر سکتا ہے
جواب:اردو کے نفاذ کے لئے ہماری جدوجہد کا حصہ بن جائے، اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔ دیکھیں اردو کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں، کہیں بھی نہیں ہیں۔ یاد رکھیں اور ہمیشہ یاد رکھیں، اردو کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کو اردو کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ اپنے تعلیمی سفر، موجودہ مصروفیات اور نجی زندگی کے حوالے سے قارئین کو کچھ بتائیں۔
جواب:میں لاہور میں پلا بڑھا، راولپنڈی میں زیادہ تر تعلیم حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی سے علم نباتات میں ماسٹر کیا۔ 33 برس سے پڑھا رہا ہوں۔ مری، جہلم، لاہور اور کچھ دیگر شہروں میں ملازمت کی۔ آج کل ایک نجی کالج میں سربراہ ادارہ کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں۔ ۔ والدین وفات پا چکے ہیں۔ ہم سات بہن بھائی ہیں، الحمدللہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ الحمدللہ۔ تین بچے ہیں، ایک بیٹا دو بیٹیاں، بیٹا ایم بی اے کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نجی ادارے میں ملازم ہے۔ بیٹی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم ایس کر رہی ہے۔ چھوٹی بیٹی میٹرک میں ہے۔
سوال: اُردو تحریک کے حوالے سے کام کرنے والوں کے اپنے بچے اُردو زبان کی ترویج و ترقی سے دور کیوں رہتے ہیں؟
جواب:میرے بچے تو میرے ساتھ ساتھ ہیں، تحریک کے ہر پروگرام میں میرے ساتھ شریک ہوتے ہین، عزیز ظفر آزاد مرحوم کے بچے خصوصی طور پر ان کی صاحب زادی حرا بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ ہے، محترم جمیل بھٹی صاحب اور محترمہ فاطمہ قمر کے بچے بھی تقریبات اور اجلاسوں میں اکثر حاضر ہوتے ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے اہل خانہ اس مقصد میں ہمارے ساتھ ساتھ ہیں، انہوں نے ہمیں سہولت اور گنجائش دی ہے تو ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ میں تو اپنے بچوں کا از حد شکر گزار ہوں کہ ان کے حصے کا سارا وقت تحریک کو دیا ہوا ہے مگر ان کے ماتھے پر ذرا سی شکن نہیں اتی۔
سوال: اُردو پڑھنے لکھنے میں اساتذہ کے کردار کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب:اساتذہ اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دیں۔ اپنے بچوں میں اردو سے محبت کو اجاگر کریں۔ انہیں بتائیں کہ یہ ہماری زبان ہے اور یہی زبان ان کو علم تک پہنچا سکتی ہے۔ ان کو درست اردو سکھانے کی کوشش کریں۔ ان پر پاکستان اور اردو کے تعلق کو ہر وقت واضح کرتے رہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں کس طرح سے بچوں کو اُردورسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟
جواب:ان کو شروع سے ہی اردو کی کہانیاں اور نظمیں سنائیں، پھر ذرا بڑے ہوں تو ان کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیں، ان کو اردو کے رسائل و جرائد دیں، بچوں کے ماہانہ رسائل دیں، اردو تو ہمارے جینز میں شامل ہے وہ کیوں نہ اردو پڑھیں گے۔
سوال: کیا اُردو قومی زبان بن جائے تو پھر ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟
جواب:پاکستان کو ایک قوم بنانے کا یہی ایک راستہ ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اردو کے نفاذ میں رکاوٹ اس لئے بھی ڈالی جا رہی ہے کہ اس ملک میں بسنے والے کہیں ایک قوم نہ بن جائیں۔
کہ یہ ٹوٹا پوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔
سوال: اُردو سے محبت کرنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب:پاکستان میں نفاذ اردو کے لئے یک سو، متحد اور متحرک ہو جائیں، یہ آپ کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ اس ملک کی انے والی نسلوں کی بقا اور تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ ہماری آزادی استحکام اور سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔ ۔ختم شد
|