واحد بھائی کی کہانیاں۔ایک جائزہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر: زوالفقار علی بخاری
مزاح نگاری آسان کام نہیں ہے مگر چند لکھنے والوں کے نزدیک یہ مزاح لکھنا بائیں ہاتھ کا کھیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ واحد بھائی کی کہانیاں نوشاد عادل کے قلم سے یوں بیان ہوئی ہیں کہ نوعمر سے لے کر بوڑھے تک اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔نوشاد عادل بچوں کے معروف ادیب ہیں جن کی اس کے علاوہ نو کے قریب کتب منظر عام پر آچکی ہیں اور پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے والی ڈربہ کالونی بھی اسی صاحب کتاب کا کارنامہ ہے۔آپ بیتیوں کے حوالے سے کتاب سامنے لانا بھی نوشاد عادل اورمحبوب الہی مخمور صاحب کا منفرد کام ہے۔
واحد بھائی کی کہانیاں کے حوالے سے خود نوشاد عادل کچھ یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ایسے ہی مذاق ہی مذاق میں یہ سیریز لکھ ڈالی تھی ۔ جب میں ہمدرد نونہال کا معاون مدیر ہوا کرتا تھا ۔ وہاں شعبہ ادارت میں عجیب و غریب کردار تھے ۔ جب اپنے بھائی فہد عادل کے ساتھ پہلی بار گیا تھا تو شعبہ ادارت میں زور زور سے خرّاٹے گونج رہے تھے ۔ماحول ایسا تھا کہ میں اسے اسپتال کا جرنل وارڈ کہا کرتا تھا ،جہاں مریض اپنی اپنی جگہوں پر سارا دن کراہتے رہتے تھے۔ نونہال کی ڈاک کا کام ایک صاحب شاہد بھائی کرتے تھے۔ پھر اُنھوں نے زندگی کاپہلا موبائل کیا خریدا ،ہم سب لوگوں کے ہاتھ تفریح آ گئی ۔ وہ سارا دن موبائل گھورتے اور اس کی ٹونز بجا بجا کر سر ہلاتے رہتے۔ کوئی نمبر سیو بھی نہ تھا ،لہذا ہم لوگ کچھ کچھ دیر بعد بیل دیتے تو جھپٹ کر موبائل اُٹھا کر دیکھتے ۔ اس کے علاوہ وہاں ہمدرد صحت کا کام کرنے والے غیاث الدین صاحب ، نونہال ادب کے ڈاکٹر فرحت کھتری عصمت علی پٹیل، شاہ محمد ، سینئر معاون مدیر سلیم فرخی ، کمپوز سہیل قریشی اور اکرم وارثی بھی ہوتے تھے ،ان سب حضرات کے کردار اس سیریز میں موجود ہیں ۔ غیاث الدین بھائی کو ریاض صاحب کردیا ۔ شاہد بھائی کو واحد بھائی لکھ دیا ۔اس میں " صاحب " کا کردار مسعود احمد برکاتی مرحوم کا بھی شامل ہے ۔ بنی بنائی سیریز کے تمام لوازمات موجود تھے ۔ تب یونہی پہلی کہانی " موبائلیا " لکھ دی ۔ سبھی کو پسند آئی ۔ برکاتی صاحب بھی مسکراۓ ۔ شائع ہونے کے بعد پسندیدگی کے توقع سے زیادہ خطوط آۓ ۔خطوط میں مزید کہانیوں کی فرمائشیں آتی تھیں۔ اس طرح سلسلہ چل نکلا۔ اس سیریز کی صرف ایک کہانی میزبانیاں نونہال کے بجاۓ انوکھی کہانیاں میں شائع ہوئی تھی ۔ پھر علم و عرفان کے گل فراز صاحب نے انتہائی محبت سے اس سیریز کی تمام کہانیوں کو ایک کتاب کی لڑی میں پِرو کر محفوظ کر دیا ۔
بچوں کے لئے لکھنے کے حوالے سے بھی نوشاد عادل کی اپنی ایک رائے ہے۔ اسی حوالے سے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں: بچوں کے ادب میں اکثریت عام انداز کی مزاحیہ سیریز لکھی گئی ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کچھ لکھا جاۓ کہ پہلے کبھی کسی نے نہ لکھا ہو ۔ اس سیریز کی کہانیوں کے نام روایت سے ہٹ کر تھے ، جو کبھی کسی نے نہیں لکھے ۔ مکھی پر مکھی مارنا مجھے کبھی قبول نہیں رہا ۔ کم اور منفرد لکھنے پر ہمیشہ عمل کیا اور ہمیشہ کروں گا ، کسی کے پیچھے چلنے کے بجاۓ ایسا لکھا جاۓ کہ لوگ آپ کے پیچھے محسوس یا غیر محسوس طریقے سے چلنے کی کوشش کریں۔
اس کتاب کا انتساب قلم کے جادوگر کہلانے والے محترم اشتیاق احمد صاحب کے نام دل چسپ انداز میں کیا گیا ہے جو کہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسا انتساب نوشاد عادل جیسا ادیب ہی پیش کر سکتا تھا۔اس میں تقریبا بائیس کے قریب کہانیاں ہیں اور یہ بھی دل چسپ بات ہے کہ کہانیوں کے عنوانات منفرد انداز میں رکھے گئے ہیں جو کہ قاری کو پڑھنے کی جانب کھینچتے ہیں۔
اگر قارئین ان کہانیوں کو پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ واقعی حیرت انگیز بات ہے کہ اس طرح کا منفرد مزاح پہلے ادب اطفال میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔اگر آپ اپنے وقت کو اچھے اورمزے دار طریقے سے گذارنا چاہتے ہیں تو آج ہی اس کتاب کو درج ذیل پتے سے حاصل کرے اپنے دنوں کو مزاح سے رنگین کرلیں۔ علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور 04237352332 |