عارف حسن وسطوی
منصورخوشتراس وقت اردو دنیا کا ایک مشہورنام ہے۔گذشتہ ایک دہائی میں
منصورخوشتر نے ادب اورصحافت کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں
وہ قابل رشک ہیں۔اتنی کم عمری میں ادب وشاعری،تنقید وتحقیق اورصحافت نگاری
کے میدان میں وہ جس سرعت کے ساتھ کام کررہے ہیں اس لحاظ سے فی الوقت کوئی
ان کا ثانی نہیں ہے۔منصورخوشتر کی علمی وادبی سرگرمیاں دربھنگہ شہر سے نکل
کر قومی اوربین الاقوامی سطح تک متعارف ہوچکی ہیں ۔جہاں جہاں اردو کی بستی
آباد ہے وہاں منصورخوشتر کا نام اورکام ستاروں کی طرح روشن اورعیاں ہے۔مجھے
یہ لکھنے میں قباحت نہیں کہ منصورخوشترجیسے نوجوان کے دم خم سے دربھنگہ شہر
بھی ایک دبستان کی شکل اختیارکرچکا ہے۔بیک وقت د وادبی رسالوں کی
ادارت،اخبارات کے لیے صحافت نگاری،المنصورٹرسٹ کی ذمہ داری اوراس ٹرسٹ کے
زیراہتمام ہرسال کم وبیش ایک درجن چھوٹی بڑی ادبی محفلوں کا انعقاد ،کتابوں
کی تصنیف وتالیف وغیرہ یہ سارے کام منصورخوشتر کے 24 گھنٹے کے مشغلے
ہیں۔منصورخوشتر نے اپنے ادبی شوق کو اتنا مہمیز کیا ہے اوراسے ایسی وسعت
عطا کی ہے جسے دیکھ کر عقل حیران ہے۔ منصورخوشتر آج کی تاریخ میں ادب کاایک
برانڈ ہیں۔انھیں کام کرنے کا جنون ہے۔ان کی پرواز بہت دورتک ہے۔مشکل سے
مشکل چیلنجزبھی منصورخوشتر کی دسترس سے باہرنہیں معلوم پڑتے ہیں۔وہ مواقع
کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ادب کے بڑے سے بڑے
سورماؤں نے بھی منصورخوشترکی حصولیابیوں کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن منصورخوشتر
کی انفرادیت میری نظر میں یہ ہے کہ وہ بلندی حاصل کرنے کے بعد بھی Down To
Earth انسان ہیں۔ان کی شخصیت میں جو توازن ہے وہ ایسے ویسوں کو کہاں نصیب
ہوتا ہے۔عاجزی،انکساری اورشرافت سے عبارت منصورخوشترکی شخصیت کے نقوش ادب
میں بھی اپنی ممتاز شناخت بنا چکے ہیں۔وہ کسی بھی طرح کی ادبی عصبیت کے
شکار نہیں ہیں۔انھوں نے اپنی فکر کو کشادہ اورذہن ودل کو تنگ نظری سے
دوررکھا ہے۔تفریق کی کوئی دیوارانھوں نے نہیں اٹھائی ہے۔منصورخوشتر لکھنے
پڑھنے والے ہرچھوٹے بڑے قلمکار کا استقبال کرتے ہیں۔کہنا چاہیے کہ نوواردوں
کے لیے توانھوں نے پلیٹ فارم ہی مہیا کررکھا ہے۔وہ پابندی کے ساتھ اپنے
رسائل میں نئے قلمکارں کو جگہ دیتے ہیں۔اس وسعت قلبی کے سبب ادبی حلقوں میں
منصورخوشتر مقبول بھی ہیں اورمحبوب بھی۔ میں منصورخوشتر کی جملہ فتحیابیوں
پر انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اورمستقبل میں ان کی ذات سے اوربہتر امیدیں
وابستہ رکھتا ہوں۔
منصورخوشتر کے ادبی کارنامے جستہ جستہ تحریروں کی شکل میں اخبارات ورسائل
کی زینت بنتے رہے ہیں۔ان پر لکھنے والوں میں بڑے بڑے نام بھی ہیں،مشاہیربھی
ہیں،نسبتاً کم معروف بھی ہیں اورنووارد بھی ہیں۔ منصورخوشتر کے دوست اور
دست راست نوجوان شاعروادیب کامران غنی صباؔ نے محنت،محبت اور عرق ریزی کے
بعد ایسی تمام تحریروں میں سے چند کا انتخاب کرکے اسے کتابی شکل دی ہے
اوراس کتاب کا نام ’’منصورخوشتر:نئی صبح کا استعارہ ‘‘رکھا ہے۔اس کتاب میں
منصورخوشتر کی اب تک کی کارکردگیوں کو خوبصورت انداز میں سمیٹ لیا گیا
ہے۔چند مضامین منصور خوشتر کی شخصیت کا احاطہ کرتی ہیں۔چند مضامین منصور
خوشتر کے فن کا مطالعہ کرتی ہیں،جن میں ان کی شاعری اورصحافت نگاری کا
بالخصوص مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔کچھ تحریریں ’’دربھنگہ ٹائمز‘‘کے مخصوص
شماروں پر تبصرے کی شکل میں پڑھنے کوملتی ہیں۔کچھ تحریریں ایسی ہیں جن میں
منصورخوشتر کی کتابوں پرمبسوط تبصرے ہیں۔بعض تحریریں تاثراتی نوعیت کی بھی
ہیں۔مرتبّ کتاب کامران غنی صبا نے ایسے تمام مضامین کو اکٹھا کران کا
انتخاب کرلیا ہے ،جس سے کسی بھی نئے جاننے والے کے نزدیک منصورخوشتر کا
مجسم خاکہ پیش نظر آجائے گا۔ ڈاکٹر اسرائیل رضا نے بہت صحیح لکھا ہے:
’’عزیزی کامران غنی صباؔ نے ڈاکٹرمنصورخوشتر کے کارناموں پر محیط مضامین کو
یکجا کرکے ایک بڑا کام کیا ہے۔منصورخوشتر جیسے نوجوان ہمارے معاشرے کے
نوجوانوں کے آئیڈیل ہونے چاہئیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب خاص طورسے ادب
وصحافت کا ذوق رکھنے والی نئی نسل کے لیے امیدوں کے چراغ روشن کرے گی۔‘‘
(بیک کور۔’’منصورخوشتر:نئی صبح کا استعارہ‘‘)
ان مضامین کی ترتیب میں اس جانب توجہ نہیں دی گئی ہے کہ ذیلی عنوانات کے
تحت منصورخوشتر کی شخصیت اورفن کے الگ الگ پہلوؤں کو الگ الگ پیش
کیاجائے۔خلط ملط کی وجہ سے مضامین کی ترتیب میں وہ حسن باقی نہیں رہا جو اس
کتاب کا متقاضی تھا۔غالباً مرتب کتاب نے مشاہیر کے ناموں کو ہی ذہن میں رکھ
کر فہرست مکمل کرنے میں عافیت محسوس کی۔بہرکیف ۔ان تمام تحریروں میں جو چیز
مشترک ہے وہ ہے منصورخوشتر کے ادبی فتوحات کا ذکر۔مبصّرین نے منصورخوشتر کی
کارگزاریوں کو باریک بینی سے دیکھا اورپرکھا ہے۔اس کا مطالعہ کیا ہے اورپھر
کوئی رائے قائم کی ہے۔ان تحریروں میں منصورخوشتر کے تعلق سے حوصلہ افزا
اوراطمینان بخش تاثرات ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔نہ کہیں لفّاظی ہے اورنہ کہیں
آسمان زمین کو ایک کرنے کی کوشش،بلکہ ہر جگہ ایک وقار کاپاس ولحاظ باقی
ہے۔کہنا چاہیے کہ ان تحریروں میں منصورخوشتر کے فنّی جہات،فکری امکانات اور
ادبی کارگزاریوں کا منصفانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔چند اقتباسات ملاحظہ
ہوں:
’’منصورخوشتر صاحب آپ لائق ستائش ہیں کہ آپ ایک ایسے دورمیں جبکہ اردو
وزبان آزمائشی دورسے گزررہی ہے اوراس کا ادب امتحانات کے کرب میں مبتلا
ہے۔آپ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔خداآپ کے
عزائم کوقائم رکھے اورادب کی روشنی ارد وحلقوں میں پھیلتی رہے۔‘‘
(اسلم چشتی:پونے۔ص:۲۰)
’’اردوزبان وادب کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کے نازوادا اٹھانے
اوراس کی زلف وگیسوکو سنوارنے والے دیوانوں میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں جن
کا اردو سے براہِ راست تعلق یا اس زبان کے درس وتدریس سے ناطہ نہیں رہا
ہے۔ایسے عاشقوں نے اس زبان سے نہ صرف عشق کیا ہے بلکہ جاں سپاری کے ثبوت
بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ارد و کے ایسے ہی عاشقوں میں سے ایک ڈاکٹر
منصورخوشترہیں۔‘‘
(ابوبکرعباد۔شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی۔ص:۲۲)
’’اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک پہنچتے پہنچتے اردو ناول نے زبان وادب
اورناول کو نئی دنیاؤں سے روشناس کرایا ہے کہ نہیں؟یہی وہ اہم ترین نقطہ ہے
جس کا ادراک ڈاکٹر منصورخوشتر کوہوا اورانھوں نے دربھنگہ ٹائمزکے صفحات
پرناول کی نبض کوجانچنے کا فیصلہ کیا۔یہ ایک کٹھن اورجانگسل مرحلہ تھا۔ناول
نمبرسے اردو ادب کے قاری پر ناول کی تاریخ کے ساتھ اس کے ماضی،حال
اورمستقبل کے دریچے کھلتے چلے گئے۔دربھنگہ ٹائمز کے مدیر کی ناقدانہ
صلاحیتوں نے اس جریدے کے ناول نمبر کو ایک مستقل دستاویز میں ڈھال دیا
ہے۔‘‘
(حامدسراج:پاکستان۔ص:۲۵۔۲۶)
’’منصورخوشترکی غزلوں میں احساس کا پلّہ بھاری ہے ۔آج کی زندگی نیم کا کڑوا
پیڑہے۔اس نیم کے پیڑ کی کڑواہٹ جب منصورخوشترکی غزلوں میں لبادہ اوڑھ کر
نظرآتی ہے توتنہائی کا غم،خواب اورحقیقت کا تصادم،بے چہرگی کا کرب اورصنعتی
زندگی کا قہر سامنے آتا ہے۔‘‘
(مناظرعاشق ہرگانوی۔ص:۳۰)
’’منصورخوشتر پُرعزم ،خوشدل اورمنکسرالمزاج نوجوان شاعر ہے۔اس کی شاعری ایک
ایسے نوخیز پودے کی طرح ہے جو بزرگوں کی دعاؤں،زندگی کی اداؤں اورذوقِ
جستجوکی شائستہ فضاؤں میں آبیاری پر یقین رکھتا ہے۔اسے معلوم ہے کہ مشقِ
سخن کے ساتھ ساتھ ذاتی تجربات ومشاہدات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔لہذاو ہ ذہن
ودل کے ساتھ ساتھ چشم ظاہروباطن کو متحرک رکھتا ہوا منزل کی طرف گامزن
دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(فاروق ارگلی۔ص:۴۸)
’’خوشترکی غزلوں کی ایک خوبی صاف اورشفاف براہِ راست اسلوب ہے۔معاملاتی
نوعیت کے اشعار میں بھی اظہارکی یہ خوبی ہے۔شدّتِ تاثیر کے لحاظ سے ان کے
تجرباتی اورحقیقت پسندانہ اشعار میں لہجہ کی درّاکی ہے۔اشعاررمزوایماسے
آشنا ضر وری ہیں مگرصرف ضروری حد تک۔‘‘
(عبدالمنّان طرزی۔ص:۵۷)
’’منصورخوشترجمود میں تحریک کی ایک لہر ہیں۔مجھے ان کی ذات میں امکانات کی
ایک نئی کائنات آباد نظرآتی ہے۔ایک ایسے عہد میں جب ذہنوں میں انجمادی
کیفیت طاری ہو،صارفی معاشرت کی ترجیحات کی وجہ سے ذوق وشوق کے زاویے
اورمشاغل کے محورتبدیل ہورہے ہیں۔ایسے میں ادب وثقافت کے لیے اپنے شب وروز
کوو قف کردینا جنوں نہیں توکیاہے۔ادب سے جنون کی حد تک یہی محبت میری
نظرمیں منصورخوشتر کومحترم بناتی ہے۔‘‘
(حقانی القاسمی۔ص:۶۳)
’’ڈاکٹر منصورخوشتراوراردخدمات کا میدان کانفرنسوں اورسمیناروں کا انعقاد
بھی ہے ۔المنصورایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیراہتمام انھوں نے اکثروبیشتر ادبی
وصحافتی تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں،مگر’’اردوبیداری‘‘،’’عبدالمنان طرزی‘‘
اور’’اردوصحافت‘‘کے تعلق سے تین ایسے بڑے قومی سمینارانھوں نے کیے ہیں جو
نہ صرف تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ بے شمار افادیت کے حامل بھی رہے
ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر شہاب ظفراعظمی۔ص:۹۸)
طوالت کے سبب تمام مشاہیرکے اہم اقتباس کو نقل کرپانا مشکل ہے۔لیکن ان کے
اسمائے گرامی کی شمولیت ناگزیر ہے ،جس سے اس کتاب کی افادیت واضح ہوتی
ہے۔ایسے مستند ،پختہ مشق اورمعروف قلمکاروں میں نعیم بیگ،مشتاق احمد
نوری،اویس احمد دوراں،ثناء الہدیٰ قاسمی،ظفرحبیب،جمال اویسی،نذیرفتح
پوری،احمدسہیل،سیداحمد قادری،ریحان غنی،اقبال واجد،رہبرچندن پٹوی،عطا
عابدی،خورشید حیات،قیام نیّر،بدرمحمدی،شمیم قاسمی،مجیراحمد آزاد،سلیم
انصاری،اشرف کمال،انورآفاقی،احسان عالم،غلام نبی کمار،امتیاز انجم،خالدہ
خاتون،جمیل اخترشفیق،نجم الثاقب نستوی،فرقان سنبھلی،نصرالدین بلخی،نوشاد
منظر،ڈاکٹرآصف،مستفیض احمد عارفی،ذکوان رشید،مظفراحسن رحمانی،عارف اقبال
اورصفی الرحمن’’راعین‘‘کے نام شامل ہیں۔ان نامو ں کے علاوہ اورکئی ایسی
محترم اورمہتم بالشان شخصیتیں بھی ہیں جن کے مختصر تاثرات مرتب کتاب کامران
غنی صبا نے اپنی تحریر’’عرضِ مرتب‘‘لکھتے ہوئے سمیٹ لی ہیں۔اس کتاب
’’منصورخوشتر:نئی صبح کا استعارہ ‘‘کے آخری حصّے میں منظوم تاثرا ت بھی
ملتے ہیں۔یہ منظوم تاثرات بھی منصورخوشتر کی کتابوں پر تبصرے ،ان کی ادبی
وصحافتی سرگرمیوں کے تذکرے اور مزید روشن مستقبل کی دعاؤں سے مزئین ہیں۔جن
اصحابِ قلم کے منظوم تاثرات شامل کتاب ہیں وہ ہیں:عبدالمنان طرزی،احسان
ثاقب،پرویز اقبال لکھمنیاوی،امان ذخیروی،احمد علی برقی اعظمی،احسان عالم
اورحیدروارثی۔نمونے کے طورپر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
درِ منصورخوشتر بتان ِ رشک آزر
ہمہ جہتی عوامل قلم میں ان کے شامل
پسِ جدّت شعاری حدِ پرواز اونچی
حدِ دربھنگہ ٹائمز دردربھنگہ ٹائمز
(احسان ثاقب۔ص:۲۷۳)
ہیں خود وہ شاعرادیب بھی ہیں،ہے فکر وفن میں انھیں مہارت
ہنر ہے تخلیقیت کاان میں،ہے ساری تحریراک نمونہ
ہراک شمارہ کمال ہے ادب میں اونچے مقام کا ہے
دعاہے اپنی اسی طرح سے رسالہ جاری رہے ہمیشہ
ہیں جتنے صنفِ ادب کے جوہر وہ سب کو کرتے ہیں اس میں شامل
وہی مرتب وہی مصنف،انہیں کی کاوش کا ہے یہ ثمرہ
ہے شخصیت بھی وجیہہ ان کی،ہے چہرے پراک وقارطاری
ابھی توبالکل ہی نوجواں ہیں مگرہنر میں ہیں خوب پختہ
(پرویز اقبال لکھمنیاوی۔ص:۲۷۶)
روز افزوں ہے ترے فن کی ضیامنصوردیکھ
سراٹھاکر آسماں پر توذرا منصوردیکھ
حاسدوں کی با ت سے توکس لیے مغموم ہے؟
چاند پر لہرارہا پرچم ترامنصوردیکھ
(امان ذخیروی۔ص:۲۸۱)
ڈاکٹر منصورخوشترکا سخن ہے دلنشیں
اُن کے حُسنِ فکروفن پر آفریں صدآفریں
عہدِ حاضرکے ہیں وہ اک شاعرِ بیدارمغز
کرتے ہیں،ہموارجو فکری تناظرکی زمیں
(احمد علی برقی اعظمی۔ص: ۲۸۲)
صحافی وشاعروہ منصورخوشتر
ادب کے خزانے کے تابندہ گوہر
ہے سہ ماہی’دربھنگہ ٹائمز‘جن کا
جہانِ صحافت کا نقشِ منوّر
ہے اہلِ ادب کی محبت جو حاصل
بہت پیارکرتے ہیں ان سے سخنور
(ڈاکٹر احسان عالم۔ص:۲۸۳)
عاصم شہنواز شبلی کی یہ رباعی بھی ملاحظہ ہو:
ہرصنف پہ تورکھے مہارت خوشتر
احساس کے شبنم کی لطافت خوشتر
ایوانِ صحافت میں ہے شہرہ تیرا
افکارمیں رکھتا ہے حرارت خوشتر
ا س کتاب کی سب سے آخری تحریرمشہورومعروف مترجم سیّدمحموداحمد کریمی کی ہے
جس کا عنوان ہے ''Worth Mentioning''۔اردو میں اس کا ترجمہ ’’قابلِ
تذکرہ‘‘کیاجائے گا۔محموداحمد کریمی صاحب بیک وقت کئی زبانوں کے ماہر
ہیں۔بالخصوص اردو سے انگریزی اورانگریزی سے اردو ترجمے پر انھیں قدرت حاصل
ہے۔ ان کی متعدد کتابیں اہلِ نظر کومسحور کرچکی ہیں۔موصوف کی یہ تحریر
مختصرہے جس میں منصورخوشتر کی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اس
تحریر میں بھی کریمی صاحب نے ارد وزبان وادب کی پانچ مقتدرشخصیا ت کے
کوٹیشنس کا انگریزی ترجمہ اپنی تحریر میں شامل کیا ہے۔
288؍صفحات پر مشتمل اس کتاب’’منصورخوشتر:نئی صبح کا استعارہ‘‘کی طباعت عمدہ
ہے ۔ سرِورق پر منصورخوشترکی تصویربقول انوارالحسن وسطوی یہ بتانے کے لیے
کافی ہے کہ’’مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حدِپرواز سے‘‘۔میں کتاب میں شامل
انوارالحسن وسطوی کی تحریر کے ایک اقتباس پر اپنی بات تمام کرتا ہوں:
’’ڈاکٹر منصورخوشتر کا تعلق نئی نسل سے ہے۔ان کی عمر کے نوجوان تقریباً
ہرگھر،سماج اورخاندان میں موجود ہیں،جنھیں ہم بغوردیکھ رہے ہیں۔ان کے حرکات
وسکنات پر بھی ہماری نظر ہے۔ان کی پسند وناپسند کا بھی ہمیں اندازہ
اورمشاہدہ ہے ۔یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ
منصورخوشترہمارے درمیان کے قابل رشک نوجوان ہیں۔وہ اپنی زندگی کا ہرلمحہ
مثبت کاموں میں صرف کررہے ہیں۔ان کی مصروفیت کا دائرہ صحافت،شاعری،اردوکی
تحریک،تصنیف وتالیف،ڈاکٹری اوربزنس تک پھیلا ہوا ہے۔موصوف کی ان گوناگوں
مصروفیتوں کا حال جان کر لوگ حیران اورششدرہیں کہ آخر موصوف اتنی ساری ذمہ
داریاں کس طرح اورکیسے انجام دیتے ہیں؟پتہ نہیں موصوف آدمی ہیں یا کام کرنے
کی مشین!‘‘منصورخوشترجیسے کثیرالمشاغل انسان کو دیکھ کر ہی کسی نے کہا تھا:
’’اتنی سی عمر اوراتنے سارے کام،اﷲ اﷲ کس مٹّی کے بنے ہیں آپ؟‘‘
(انوارالحسن وسطوی۔ص:۱۳۱)
٭٭٭
|