ایک نظر سمبڑیال کے مسائل پہ

صحافی اپنے علاقے کی ایسی آنکھ ہوتا جس سے معاشرہ دیکھتا ہے، ایسی زبان ہوتا ہے جس سے دوسرے لوگ ہمارے علاقوں کے مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں حالات حاضرہ یا علاقائی مسائل پہ لکھنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا ہے لیکن یہی تو ایک صحافی کا بنیادی کام ہوتا ہے کہ وہ ناصرف معاشرے میں خرابی کی نشاندہی کرے بلکہ اس کا شافی علاج بھی تجویز کرے ۔

سیالکوٹ تا وزیرآباد شاہراہ مصروف ترین اور تجارتی و دفاعی لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہے ، روزانہ ہزاروں گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں ، جن میں حکمران طبقہ اور ان کے قریبی عزیز بھی سفر کرتے ہیں اگر اللہ نے ان کی بصیرت چھین نہیں لی تو وہ بھی اس روڈ کی خستہ حالی کو ضرور دیکھتے ہونگے ۔ یہاں آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ کسی قیمتی جان کے ضیاع کا باعث بنتا رہتا ہے ، کوپرہ سے لے کر بیگوالہ تک ایک سائیڈ مکمل طور پہ تباہ ہے ۔ مریضوں اور بزرگوں کو یہاں سفر کرتےہوئے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، رکاوٹیں رکھنے کے باوجود کچھ لوگ اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈال کر رندھیر موڑ کے نقطہ آغاز سے غلط جانب گھستے ہیں اور بیگوالہ کے آخر میں درست جانب آکر نکلتے ہیں جس سے اب تک کافی سارے حادثات ہوچکے ہیں پچھلے ایک سال سے یہاں ریکارڈ حادثے ہوئے ہیں ، چند ہفتے قبل ظفر چوک پہ غلط جانب سے آنے والا ٹرک ٹویوٹا ہائی ایس سے ٹکرایا تھا جس میں سات سے زائد قیمتی جانیں جن میں کچھ پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے لقمہ اجل بن گئے تھے مگر اتنے بڑے حادثے کے باوجود کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی ۔

کچھ ماہ پہلے اس روڈ کی مرمت کاکام شروع ہوا بھی تھا لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پہ روک دیا گیا، واضح رہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں اس شاہراہ پہ ہونے والے حادثات کی تعداد سوا سو سے بھی تجاوز کرچکی ہے مگر اہل اقتدار بے حسی کی چادر کسی صورت اتارنے کو تیار نہیں، اللہ جانے کب اس روڈ کی مرمت کی جائے گی ۔

تحصیل سمبڑیال کا ایک بڑا مسلہ عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار بھی ہے جو ہر مرض کا تسلی بخش علاج اپنی نیلی پیلی گولیوں سے کرنے کے دعویدار ہیں ، ایک طرف یہ عطائی انسانی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرتے ہیں تو دوسری جانب کوالیفائڈ ڈاکٹرز کی بھاری فیسیں ادا کرنا عوام کے لئے مشکل ہے اوپر سے ہمارے سرکاری ہسپتالز کی جو حالت ہے اور ڈاکٹرز اور عملہ مریضوں اور ان کے لواحقین سے جس طرح کا برتاو کرتا ہے بے حد افسوس ناک ہے ۔

تحصیل کے قریب تمام ہی تھانوں میں جرائم کی شرح بہت ذیادہ ہے ، چوری ڈکیتی کی آئے روز وارداتیں معمول ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ چرس ، شراب اور ہیروئین ہر گاوں اور شہر کے ہر محلے سے باآسانی مل جاتی ہے۔جب ایک عام آدمی نشے کے حصول کے لئے نشہ بیچنے والوں تک پہنچ جاتا ہے تو پولیس کیوں ناکام رہتی ہے؟ پولیس افسران کو اس پہ ایک بار غور کرنا چاہئے۔

جب سمبڑیال کے مسائل کا ذکر ہورہا ہے تو لگے ہاتھوں سرکاری سکولوں کی ناگفتہ بہ حالت اور پرائیویٹ سکولوں کی لوٹ مار کا تذکرہ بھی ہوتا چلے ، من مانی فیسیں ،مہنگی کتابیں، بچوں میں گانے بجانے کا رحجان اور ایسے جذبات پرواناچڑھانا جو کسی اسلامی معاشرے کو زیب نہیں دیتے یہی سب کچھ ان سکولوں میں ہورہا ہے ، امتحانات کے نتائج کے مواقع پر پرائیویٹ سکولز میں جس طرح کی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے افسوس ناک ہے والدین کو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے ۔

ہم ایک مسلمان ملک کے شہری ہیں اور ہماری بقاء اور سلامتی نظریہ پاکستان اور اسلامی اقدار کے تحفظ میں مضمر ہے ایسی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جو ہماری معاشرتی اقدار اور تہذیب کو نقصان پہنچائے ۔


 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.