بات اپنے اپنے ظرف اور ضمیر کی

یہ گزشتہ ماہ فروری کے پہلے جمعے کے روز سہ پہر کے وقت کی بات ہے ہماری ایک گاڑی گھر کے باہر سڑک کے کارنر پر کھڑی تھی کہ ایلیمنٹری اسکول کی بس نے موڑ کاٹتے ہوئے اسے ٹکر مار دی ۔ ڈرائیور ایک گوری خاتون تھی وہ علاقے کے تمام بچوں کو ڈراپ کرنے کے بعد واپس بس اسٹینڈ کو جارہی تھی ۔ اس کا یہ روٹ نہیں تھا پتہ نہیں کس وجہ سے آج وہ اس طرف سے جا رہی تھی ۔ بس بالکل خالی تھی اور سڑک پر دور دور تک کسی بندے بشر کا نام و نشان نہ تھا اگر وہ چپکے سے نکل لیتی تو ہمارے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ ہماری گاڑی کس نے ٹھوکی ہے ۔ کیونکہ خود بس کا بال بھی بیکا نہ ہؤا تھا اس کے تو صرف ٹائر ہی کی ٹکر سے گاڑی کے بمپر کا بایاں حصہ متاثر ہؤا تھا ۔ مگر اس بھلی مانس نے فوراً پولیس کو کال کر دی اور اس کی آمد کے بعد انہیں معاملے سے آگاہ کرنے لگی ۔ ہمیں اپنے گھر کے دروازے کے شیشے سے باہر کچھ ہلچل سی معلوم ہوئی جا کے دیکھا تو سامنے ہی پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں کچھ دور اسکول بس کھڑی تھی اور فائر بریگیڈ کے ٹرک نے ترچھا کھڑا ہو کر روڈ کو بلاک کیا ہؤا تھا ۔ ہم حیران کہ کیا ماجرا ہے؟ محلے میں کون سی آفت آ گئی ہے کہ یہ لاؤ لشکر آن موجود ہؤا ۔ پھر پتہ چلا کہ ہماری ہی گاڑی ڈیمیج ہوئی ہے ۔ اور بس کی ڈرائیور نے ہم سے اتنی معذرت اور ندامت کا اظہار کیا کہ الٹا ہم ہی شرمسار ہو کے رہ گئے ۔ پھر وہیں کھڑے کھڑے اس سلسلے کی تمام ضروری دفتری کارروائی انجام پائی ۔ بعد ازاں ہمیں گاڑی کی مرمت کا خرچ انشورنس کمپنی کی طرف سے مل گیا ۔ لیکن اس ڈرائیور خاتون کو محکمہ جاتی سطح پر کس رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اس کا نہ ہمیں علم ہے اور نہ ہی اندازہ مگر تھی بڑے ظرف اور ضمیر کی مالک ۔ جس نے اپنی غلطی کو چھپا لینے کا موقع پاس ہونے کے باوجود اسے ہاتھ سے جانے دیا ۔ اس کی فرض شناسی دیانت اور اخلاقی جرأت کو سلام ہے ۔

ہم اس واقعے کا کیا پتہ کب جا کر ذکر کرتے یا کبھی کرتے ہی نہیں مگر صرف ایک ماہ بعد دوسرا واقعہ پیش آیا جس نے ہمیں اسے سپرد تحریر کرنے پر مجبور کر دیا ۔ بڑے بیٹے کی گاڑی ایک سپر اسٹور کے پارکنگ لاٹ میں کھڑی تھی اور وہاں اسے کسی نے بمپر کے دائیں جانب ٹکر مار دی اور بھاگ گیا ۔ اب پتہ نہیں مرد ہی تھا یا عورت؟ کوئی مقامی تھا یا بدیسی؟ کالا تھا یا گورا مسلمان تھا یا کافر؟ بس جو بھی تھا بڑا ہی بےغیرت تھا ۔ اب ظاہر ہے کہ اسے برا بھلا ہی کہہ سکتے ہیں بد دعا تو نہیں دے سکتے اتنی سی بات پر ۔ اور ہم تو کچھ دنوں بعد اس بات کو بھول بھی جائیں گے مگر وہ ستم ظریف کبھی نہیں بھولے گا اسے ہمیشہ یاد رہے گا کہ کیسے وہ کسی کی گاڑی کو ٹھوک کر چپ چاپ کھسک لیا تھا ۔ اگر ضمیر باقی ہو تو اس کی مار بھی کوئی سزا سے کم نہیں ہوتی ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1664575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.