جیمی الین, بھارتی شہر کولکاتہ کا رہنے والا ایک
یتیم بچہ تھا جسے مدر ٹریسا نے سڑک کے کنارے سے اٹھا کر ایک امریکی خاتون
اینا بیلی الین کے حوالے کیا. جس نے اس کی پرورش کے ساتھ ایلن اڈوپشن
انٹرنیشنل تنظیم کی بنیاد رکھی اس کے ذمے یتیم بچوں کی کفالت کرنا تھا. یہ
تنظیم یتیم بچوں کو زندگی کی خوشیوں سے روشناس کرانے کا مؤثر ذریعہ بنی.
خوشی کی اہمیت کو سمجھنے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات
استوار کرنے کے لیے 28 مئی 2012 کو اقوام متحدہ کی ایک قرارداد میں ہر سال
مارچ کی 20 تاریخ کو خوشی کا عالمی دن منانے کی روایت کا آغاز ہوا اور یہ
تجویز جیمی الین نے ہی پیش کی. اس دن کو منانے کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا
کہ ہم سب اپنی مصروفیات زندگی میں سے صرف اور صرف ایک دن اپنی اور دوسروں
کی خوشی کے لیے مختص کردیں. خود بھی خوش رہیں اور معاشرے میں خوشیاں بانٹیں.
خوشی کے حوالے سے اکثر ہم سب کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم خوش
کیوں نہیں ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی ہم سب کو ہی جستجو ہے مگر جتنا
بھی ہم اس کے قریب جاتے ہیں خوشی اتنی ہی ہم سے روٹھ جاتی ہے. اس کی سب سے
بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سب نے اپنے ذہنوں میں خوشیوں کا ایک الگ معیار مرتب
کیا ہے. ہم اپنے اسی معیار کو لے کر ہی خوشی کی تلاش میں سرگردان ہیں جو کہ
اپنے مقررہ حدف تک پہنچ کر بھی ہمیں نہیں ملتی. یعنی ہم سب کے لیے خوشی ایک
سراب کی مانند ہے جتنا ہم اس کے قریب جاتے ہیں اتنا یہ دور بھاگتی ہے مگر
حقیقت میں ایسا نہیں ہے. مشاہدے اور تجربات سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ
خوشی ہمارے وجود کے اندر پنہاں ہے جسے ہم باہر تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارا
اصل مقصد بھی اسی خوشی کا حصول ہے. یہ دنیا کی سب سے انوکھی اور واحد شے ہے
جسے اپنے پاس ہونے کے باوجود ہم کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کی
اکثریت ہمیشہ خوش نہ ہونے کا رونا روتی ہے۔ اس سوچ کے پس منظر میں دیکھا
جائے تو لوگوں کو اپنے حساب سے خوشی کو پرکھنے کا غیر ضروری معیار زندگی ہے.
ایک طرف ہم نے خوشی کو مادیت سے تعبیر کرکے قناعت پسندی چھوڑ دی اور زیادہ
سے زیادہ مال و زر جمع کرنے کے لالچ میں پڑ گئے. ہماری ترجیحات روپیہ, پیسہ,
بنگلہ, گاڑی اور دوسری تمام لگژری بن گئے. اس فانی دنیا کی اصل حقیقتوں سے
نظریں چرا کر ہم جن آسائشوں کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اور خوشی
تصور کرنے لگے دراصل وہی ہمارے اطمنان قلب کو ختم کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں.
اس کے علاہ اچھے مستقبل کی جستجو میں یا ماضی کی ناکامیوں اور غموں کی بوجھ
تلے اپنی حال کو بھول جاتے ہیں. ہوس کے ساتھ حسد کی صورت میں ان اشیاء کی
تمنا کرتے ہیں جو دوسروں کے پاس ہیں مگر ہمارے پاس نہیں. اس طرح ہم رب کی
ناشکری کے مرتکب ہوتے ہیں.ہر مشکل میں ہمارا رب سے پہلا شکوہ ہوتا ہے کہ ''میں
ہی کیوں''؟ مگر رب کائنات کی بڑی سے بڑی عنایات جیسے ایک خوشحال گھرانہ,
والدین, بیوی, بچے, بہن, بھائی یا پھر زندگی کو دوام بخشنے والی بن مانگی
ضروریات زندگی, جیسا کہ پانی, روشنی, ہوا,مختلف موسم, سمندر, خشکی, پہاڑ,
معدنیات, تیل اور سب سے بڑھ کر صحت و تندرستی پاکر بھی یہ نہیں کہتے کہ ''میرے
لیے ہی کیوں''؟ حالیہ کورونا کی وبا میں ہم سب کو آکسیجن جیسی نعمت کی
اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہوجانا چاہیے. اسپتالوں میں کئی مریض بنا آکسیجن
تڑپ تڑپ کر جان کی بازی ہار گئے اور جن کو میسر آئی بھی تو لاکھوں میں عوض.
قران کی ایک آیت ہے کہ۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ:
ترجمہ: بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا۔
اگر قران کی صرف اس ایک آیت دیکھ لیں تو اس میں ہمارا اشرف المخلوقات ہونا,
خوش شکل ہونا, علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مزین ہونا
ہی ہمارے لیے شکر بجا لانے اور خوش ہونے کا سب سے بڑا پیمانہ ہونا چاہیے۔
خوشی اﷲ کی نعمتوں پر خوش ہونے اور شکر بجا لانے کا نام ہے اور اﷲ کی تقسیم
سے اختلاف ہی ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ ہے. جب ہم اپنے رب کی عطا کی ہوئی
نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے تو مایوسی کے دلدل میں کھو جاتے ہیں. اﷲ تعالی
فرماتے ہیں.
''ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر (دنیا کا عیش) حاصل کرنے کی ہوس نے تمہیں غفلت
میں ڈال رکھا ہے''. (أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ. آیت 1)
خوشی کی اصل روح سے آشنا ہونے کے لیے اس کے اصل معیار کو سمجھنا ضروری
ہے۔عمر کے لحاظ سے ہر شخص کے لیے خوشی کا اپنا ایک الگ معیار ہے۔ بچپن سے
لے کر بڑھاپے تک وقت کے ساتھ یہ بدلتا رہتا ہے۔ بچپن میں کھلونوں،
تحفوں،کارٹون اور پسندیدہ غذا سے خوش ہونے والا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو
خوشی کو دوستی، پیار، محبت، دولت،عہدے اور اکثر اوقات نشے میں تلاش کرتا ہے۔
وقت کی دوڑ اسے مزید آگے دھکیلتی ہے تو وہ خوشی کو بچوں کی خوشیوں سے تعبیر
کرتا ہے۔اسے بچوں کی قابلیت، کامیابی اور عہدے میں اپنی خوشیاں نظر آتی ہیں۔
جب وقت اسے بڑھاپے کی دہلیز پر لاتا ہے تو وہ عبادت, اپنوں کی قربت اور
محبت میں اپنی خوشیاں پاتا ہے. جو باتیں اور مادی اشیاء پہلے اس کے لیے
باعث مسرت ہوتی تھیں اب اسے ثانوی لگنے لگتی ہیں.
اکثر ہمیں کچے گھروں سے خوشیوں کی کھلکاریاں سنائی دیتی ہیں مگر وسیع و
عریض شاندار بنگلوں میں خاموشی کا راج ہوتا ہے۔ بائیک پر سوار فیملی خوش
باش اور مطمعن نظر آتی ہے مگر لاکھوں کی گاڑی میں سوار، مہنگے لباس میں
ملبوس لوگ اداس نظر آتے ہیں جو ثابت کرتی ہے کہ خوشی مادیت سے تعبیر ہوتی
تو ایسا نہ ہوتا.
مگر اسے ہماری بد بختی کہیں کہ ہم نے اسے صرف مادیت سے تعبیر کیا ہے اور
مادی اشیا کے اندر ہی اپنی خوشی تلاشتے ہیں. پچھلے دور کے لوگوں سے موازنہ
سے کریں تو وہ خوش اور مطمعن تھے حالاں کہ اس وقت ان کے پاس اتنی مال و
دولت اور آسائشیں نہیں تھیں مگر ان کے آپس کے معاشی اور معاشی اور سماجی
رویے ایسے تھے کہ وہ ہمیشہ مطمعن رہتے تھے. جب کہ آج کے دور میں ہر شخص کی
یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اور نقصان پہنچا کر آگے نکل
جائے پھر چاہے اسے اپنے قریبی عزیزوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے. ہم
پرندوں کی مثال لیں, وہ صبح کو رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں, دانا چگتے ہیں
اور اونچائیوں پر پرواز کرتے ہیں اور شام کو اپنے آشیانوں میں واپس آتے ہیں.
دوسری جانب انسان کی خصلت میں اتنی خود غرضی سما چکی ہے کہ ایک بار اونچائی
پر جاکر وہ واپس نہیں آتا بصورت دیگر اس کی لاش ہی واپس آتی ہے. یہیں پر اس
کے سماجی رابطے ختم ہوجاتے ہیں اور خوشی کی اصل بنیاد ہی کھو جاتی ہے.
خوشی، روح سے وابستہ ایسا خوشگوار احساس ہے جو بالواسطہ یا بلاوسطہ اطمنان
قلب کا ذریعہ بنتی ہے. خوشی اور اطمنان انسان کی اندرونی جذبات کی مکمل
عکاسی کرتے ہیں مگر خوشی میں اطمنان کی بہ نسبت جذباتیت کا عنصر زیادہ پایا
جاتا ہے. اگر گہرائی سے ان دونوں الفاظ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں
ہوتی ہے کہ خوشی ایک وقتی جذبہ ہے جو دوسرے ہی لمحے ختم ہوسکتی ہے مگر
اطمنان انسان کے دل و دماغ کی اس اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے., جو دیرپا
اثر کی حامل ہے. جیسا کہ بچوں کی شادی کے وقت بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے مگر
اطمنان پھر بھی نہیں ہوتا اور شادی کے بعد بچوں کی پرسکون زندگی اطمنان کا
باعث بن سکتی ہے. اگر ہمیں اصل خوشی حاصل کرنی ہے تو اطمنان قلب سے حاصل
کریں جو کسی بھی اچھے عمل سے حاصل ہوتا ہے, اکثر انتہائی دکھ اور تکلیف کی
کیفیت میں بھی یہ رویہ ہمیں خوش رکھ سکتا ہے.
خوشی نظر آتی ہے کسی کے مطمعن چہرے پر، کسی کی چمکتی آنکھوں میں، کسی کے
ہونٹوں کی مسکان میں. جب بھی خوشی کو اپنے آس پاس محسوس کرنا چاہو تو اسے
نومولود بچے کی معصومانہ حرکتوں میں دیکھو جو ماں کی قربت پا کر خوشی سے
مچلتا ہے۔ بوڑھے والدین کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں دیکھو, جو اچانک اپنے
جوان سال بچوں کو اپنے سامنے پاکر خوشی سے نکلتے ہیں۔ بیوی کے سنگھار میں
تلاش کرو جو صرف اپنے شوہر کی خوشی کے لیے سجتی سنورتی ہے۔ کامیابی کی صورت
میں طلباء کی چہرے پر دیکھو۔ رب کی رضا کے لیے ارد گرد سے بے نیاز سجدہ ریز
متقی و پرہیز گار شخص کی عبادتوں میں دیکھو۔ ایدھی,جیسے عظیم لوگوں کے
اطمنان, سکون اور سادگی میں تلاش کرو جو وہ کسی مجبور اور بے بس کی مدد
کرکے حاصل کرتے ہیں۔ وطن کی راہ میں شہید شخص کے چہرے پر سجی پرسکون
مسکراہٹ میں دیکھو.
ان باتوں کو مد نظر رکھ کر میرا تجزیہ ہے کہ خوشی ایک لفظ ہی نہیں ایک جادو
ہے، جو کسی بھی شخص کو اپنے تابع کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسی کیفیت
کا نام ہے جو کبھی دوران غم, دل اور دماغ میں سکون اور تازگی کا احساس پیدا
کرتی ہے تو کبھی مایوسی کی اتاہ گہرائیوں میں امید کی کرن بن کر ابھرتی ہے۔
یہ ایک طاقتور احساس ہے جو تھکن سے چور جسم میں پھرتی اور توانائی کا موجب
ہوسکتی ہے۔ اسی حساب سے دیکھا جائے تو خوشی دو قسم کی ہو سکتی ہے, عارضی
اور دائمی۔مادیت کے ساتھ وابسطہ خوشی ہمیشہ عارضی نوعیت کی ہوتی ہے اور
مادیت سے پاک آپس میں مخلصانہ رویہ, محبت اور ساتھ ہی اﷲ تعالی کی عبادت
اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و سنت پر عمل پیرا ہونا دائمی خوشی
کا باعث بن سکتی ہے |