شان بھارتی :شاعر، ادیب اور صحافی

(نذیر فتح پوری کی عمدہ پیشکش)

شمس الہدیٰ انصاری اپنے ادبی نام شان بھارتی سے مشہور و معروف ہیں۔ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۷ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ وہ کاروبار سے جڑے رہے لیکن ان کا اصل مشغلہ شاعری، مضمون نگاری اور صحافت رہا۔ شاعری کا آغاز انہوں نے ۱۹۶۴ء سے کیا۔ ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آئیں اور قارئین سے داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کے تصانیف کی فہرست اس طرح ہے:
۱۔ بیسویں صلیب (غزلوں اور نظموں کا مجموعہ) ۱۹۸۰ء
۲۔ آخری صلیب (غزلوں کا مجموعہ) ۱۹۹۰ء
۳۔ ندی کا جب کنارہ ڈوبتا ہے
۴۔ اوراق پریشاں (ایک بزرگ شاعر عابد عزیزی کی غزلوں کا مجموعہ ) ۔ مرتب
۵۔ نیم ملاقاتیں (مشاہیر کے خطوط : شان بھارتی کے نام )
۶۔ سہ ماہی ’’رنگ‘‘ کی ادارت جس کے تقریباً ۹۰ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔
شان بھارتی کی ادبی خدمات کے لئے انہیں چھوٹے بڑے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں چند اہم مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ میرٹ ایوارڈ ، دارجیلنگ کلاپریشد، دارجیلنگ
۲۔ ادارہ اثبات و نفی کلکتہ ، توصیفی سند کے علاوہ دیگر اشیاء
۳۔ جوش ملیح آبادی ایوارڈ ، ساہتیہ کار سنسد، سمستی پور
۴۔ طویل ادبی خدمات کا اعتراف: توصیفی سند کے علاوہ دیگر اشیاء ، منجانب پرواز ساہتیہ ہور لاڈیہہ، جھریا۔
۵۔ ۷؍ اپریل ۲۰۱۲ء کو آزر اکیڈمی ، علی گڑھ کی جانب سے عین الادب ایوارڈ بدست ڈاکٹر مجید بیدار
شان بھارتی ایک ایسے شخص کا نام ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے تذکرہ آج بھی ادبی محفلوں میں ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنے دھن کے پکے آدمی تھے۔ انہوں نے ۱۹۹۴ء میں ’’رنگ ‘‘ نام کا ادبی رسالہ آمر صدیقی کے اشتراک سے جاری کیا، کسی اردو رسالے کا شمارہ تقریباً پچیس سال تک پابندی کے شائع ہونا کسی کرامت سے کم نہیں۔ اس میں شان بھارتی کی لگن ، محنت اور حکمت عملی شامل ہے۔
میری ملاقات ان سے جولائی ۲۰۱۷ء میں ایک سیمینار اور مشاعرے کے درمیان وشاکھا پٹنم میں ہوئی۔ ملاقات کے درمیان انہوں نے بہت سی باتیں مجھ سے شیئر کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’رسالہ کو جاری رکھنے میں مجھے کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔ مجھے ہندوستان کی اردو اکاڈمیوں سے شکایت ہے۔ کچھ اکادمیوں کو چھوڑ کر اردو اکادمیاں نہ جانے کیوں اردو رسالوں کی مدد کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ اپنے بجٹ کا بڑا حصہ مشاعروں اور سیمیناروں پر خرچ کرتی ہیں‘‘۔
شان بھارتی کا آبائی وطن مونگیر تھا۔ وہاں ۱۹۳۴ء میں ایک ز بردست زلزلہ آیا تھا جس کی وجہ کے سبب تلاش روزگار میں ان کے دادا دھنباد چلے آئے ۔ اپنے ایک شعر میں وہ لکھتے ہیں:
کہاں کہاں لئے پھرتا ہے آپ دوانہ بھی
کہ یاد اب نہ رہا اپنا آشیانہ بھی
شان بھارتی کی پرورش اور ابتدائی تعلیم نانا کے یہاں بڑے لارڈ و پیار سے ہوئی۔ پھر حالات نے کروٹ لی ۔ ان کو پریشانیوں کے دور سے بھی گزرنا پڑا لیکن وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ایسے ہی صابر و شاکر لوگوں کے لئے جانثار اختر کا یہ شعر صادق آتا ہے:
موج طوفاں مجھے سینے سے لگائے رکھنا
تیرے آغوش کی لذت تو کناروں میں نہیں
فی الحال میرے مطالعے میں ’’شان بھارتی :: شاعر، ادیب اور صحافی‘‘ کے عنوان سے کتاب ہے جسے نذیر فتح پوری نے لکھا ہے۔ اس کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال حسین نے لکھا ہے :
’’شان بھارتی کی ادبی خدمات پر جب ہم روشنی ڈالتے ہیں تو وہ اس سرزمین پر ادب کے کئی رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ نظم ہو یا غزل ، رنگ کے تبصرے ہوں یا اداریے طویل مضامین ہوں یا نعوت ان تمام اصناف پر ان کی قادر الکلامی مسلم ہے۔ ان کا رسالہ ’’رنگ‘‘ ان کی طویل صحافتی خدمات کا آئینہ ہے۔‘‘
ڈھائی سو سے زیادہ کتابوں کے عالمی شہرت یافتہ مصنف پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی شان بھارتی کے لئے اپنے خیالات کا اظہار ان جملوں میں کرتے ہیں:
’’شان بھارتی کو میں جھارکھنڈ کا بابائے اردو مانتا ہوں۔ ’’کنول‘‘ سے ’’رنگ‘‘ تک زندگی کا سارا لہو اردو صحافت کی نذر کرنے والے شان بھارتی کو شرافت، محبت، شائستگی اور حسن سلوک سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ شاعر ہیں اور صحافی ہیں۔ عمر اور تجربہ کی بنیاد پر ان کی شہرت فن پارے، معیار اور صحافت کے خاردار راسے پر مسلسل کامیابی سے چلنے کی وجہ سے ہے ۔ ان کا ذہن و شعور ادب اور زبان کی مظہریت کے لئے، معنی کے مبدا کے لئے اور موضوعی منشاء کے لئے حقیقت پسند بنتا ہے اور تعبیر سے متشکل ہوتا ہے۔ ان کے نظریہ قبولیت میں روئیے کو دخل ہے۔ ترجمانی پر زور ہے اور تشکیل نو کا کردار ادا کرنے کے امکان پر ہے۔‘‘
’’گفت باہمی‘‘ کے عنوان سے اپنے مختصر مضمون میں کتاب کے مصنف نذیر فتح پوری لکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کتاب شان بھارتی کے شعری محاسن اور صحافتی ہنر مندیوں کی داد دینے کے لیے ہی ورطۂ تحریر میں لائی گئی ہے ، بطور نذرانہ لفظوں کے یہ پھول ان کو پیش کیے جارہے ہیں۔ یہ چند صفحات اگرچہ ان کے پورے ادبی کاموں کی پذیرائی کے مقابلے میں بہت کم ہیں ، لیکن ہیں ضرور۔
’’شان بھارتی اور صحافت‘‘ کے عنوان سے نذیر فتح پوری نے شان بھارتی کی صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ شاعری میں بھی اور صحافت کے میدان میں بھی شان بھارتی کی اپنی جمالیاتی پسند ہے۔ ذہنی اپج ہے ، وہ انہی نقشوں پر چلتے ہیں جو نقشے انہوں نے خود بنارکھے ہیں۔ وہ خود ہی ان راہوں کے راہی ہیں اور خود ہی راہبر ہیں۔ راہوں میں مسافر ملتے ہیں، ہمسفر بن جاتے ہیں اور جب حوصلہ ہار جاتے ہیں تو ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن ان کی قافلہ ساری متاثر نہیں ہوتی۔ نہ اس میں کوئی کمی آتی ہے۔نہ کہیں سست گامی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ سارا سب کچھ شان بھارتی کی سنجیدگی ، خلوص اور ثابت قدمی کا ماحصل ہے۔ جس کی وجہ سے وہ منزلوں کے سینے پر اپنے نقش مرتب کرتے گئے۔
’’شان بھارتی کی مطلع نگاری ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں نذیر فتح پوری لکھتے ہیں کہ شان بھارتی نے اکثر نئی زمینوں میں غزل کہنے کی کوشش کی ہے اور باوقار طریقے سے ردیف اور قافیوں کو رام کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
’’شا ن بھارتی کی غزل رنگ کائنات‘‘ میں نذیر فتح پوری نے شان بھارتی کی غزلیہ شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ شان بھارتی کی غزل میں ایک رنگ لڑکپن کا بھی ہے۔ آدمی جوان ہونے کے باوجود اس کے دل کے کسی کونے میں ایک بچہ ہمکتا رہتا ہے۔ وقت قت پر یہ بچہ شرارت کر تا ہے ، مچلتا ہے اور چاند کو پکڑنے کی ضدکرتا ہے۔ شان بھارتی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آج بھی ان کا لڑکپن ان کو ضدوں پر اکساتا رہتا ہے:
مچلتے رہتے تھے ہم چاند پر لڑکپن میں
بڑے ہوئے تو وہی ضد مزید کرتے رہے
میں نے رنگوں کے حوالے سے جو کیں باتیں وہ
مسکرا کر تتلیوں کا ایک لشکر دے گیا
نذیر فتح پوری نے ’’شان بھارتی کی مشکل پسندی ‘‘کے عنوان سے اپنے مضمون میں ان کی ایک منفرد خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شان بھارتی بنیادی طور پر مشکل پسند شاعر نہیں ہیں۔ ان کی بیشتر غزلیں چھوٹی بحروں میں ملتی ہیں اور لفظیات کے سلسلے میں بھی وہ اپنی سہلتا اور سجلتا کے لئے مشہور ہیں۔ سادہ اور سلیس زبان میں بامعنی شعر کہنا شان بھارتی کی شناخت ہے۔ لیکن کبھی کبھی غالب کی پیروی میں وہ مشکل پسندی کی ادب گاہ کی طرف بھی رخ کرلیتے ہیں ۔ ظاہر ہے یہ کام وہ منہ کا مزہ بدلنے کے لئے نہیں کرتے بلکہ قدرت کی طرف سے ان کو جو تخلیقی صلاحیتوں کا جوہر ودیعت ہوا ہے اسی کے اظہار و اعتراف کے لئے انہوں نے مشکل ردیف اور قوافی میں غزل کہنے کی جسارت کی ہے۔‘‘
’’شان بھارتی کی مقطع نگاری‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے نذیر فتح پوری لکھتے ہیں کہ جب ہم شان بھارتی کی مقطع نگاری کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شان بھارتی نے تعلی سے اجتناب کیا ہے۔ اپنے آپ کو فخر الزماں اور رئیس الشعراء ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ شان بھارتی کا شعری مجموعہ ’’ندی کا جب کنارہ ڈوبتا ہے‘‘ کی غزلوں میں جب ہم ان کے مقطعوں کا مطالعہ کیا اور ان کی تفہیم کے لئے آمادۂ تحریر ہوئے تو سب سے پہلے صفحہ نمبر ۵۱ کی غزل کا ایک مقطع پر ہماری نظر پڑی جس اس طرح ہے:
اے شانؔ مجھے خود نہیں معلوم کہ آخر
میری یہ تگ و دو کسے پانے کے لئے ہے
حقیقت میں دنیا اک سراب ہے۔ جو دنیا کی ظاہر ی شان و شوکت سے واقف ہو جاتا ہے وہ دنیا سے دامن بچا کر چلتا ہے۔ شان بھارتی ایک قلندر مزاج شاعر ہیں وہ دنیا میں رہ کر بھی دنیا کے طلب گار نظر نہیں آتے ۔ محنت اور ضرورت کے حساب سے جتنی دنیا انہیں میسر آجاتی ہے اسی پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ اسی تناظر میں شان بھارتی کی ایک غزل کا یہ مقطع ملاحظہ کریں:
بٹ رہی تھی جہاں پیمانِ وفا کی سوغات
شانؔ کشکول میں ہم وعدہ اٹھا لائے ہیں
شان بھارتی کی غزل مشاہیر کی نظر میں (اسباق پونہ کے حوالے سے ) نذیر فتح پوری نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ وہ کئی نامور ادیبوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ناو ک حمزہ پوری نے غزلیات شان بھارتی میں سماجی شعور کی جھلکیاں تلاش کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ہر اچھے اور صحت مند ذہن رکھنے والے شاعر کی طرح روایت کی پاسداری اور احترام کے شانہ بہ شانہ، لب ولہجہ ، طرز ادا ، اسلوب اور افکار و نظریات کی تازہ کاریاں مل جل کر ان کے کلام کو بدلتی ہوئی تہذیبی اقدار کے تصادم ، عصری زندگی کی گہما گہمی ، خواب اور شکست خواب، آگہی اور آشوب آگہی کا منظر نامہ بنا ڈالتی ہیں۔‘‘
(سہ ماہی ’’اسباق‘‘ صفحہ نمبر :۹)
ڈاکٹر محبوب راہی نے شان بھارتی کو حقائق کی صلیبوں کا شاعر قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شان بھارتی نے اپنے تخلیقی سفر کی مکمل روداد ان کے اشعار کے وسیلے سے بیان کردی ہے جس کا اجمال یہ ہے کہ گیسوئے سخن سنوارنے کا شغل اختیار کرتے ہی انہیں انتشار حالات سے دو چار ہونا پڑا ہے کہ بظاہر یہ آسان مشغلہ ہے لیکن بے حد دشوار ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قافیہ بندی کے لیے حسن تخیل لازمی ہے اس کے بغیر نئی غزل کی تخلیقی، شہر بے گماں میں یقین کی تلاش بے سود کے مترادف ہے۔ ‘‘
معروف ادیب رونق شہری نے شان بھارتی کی شخصیت اور فن پر لکھا ہے:
’’شان بھارتی شعر وادب کے بدلتے رویوں سے باخبر ہیں یہ مابعد جدیدیوں کے بھی محافظ ہیں اور صالح جدیدیوں کے ہم نوا۔ کوئی ایسا نکتہ مشترک انہیں ضرور دکھائی دیتا ہے جہاں صرف رجحان نہ ہوکر تخلیق باقی رہ جاتی ہے۔‘‘
(سہ ماہی اسباق، ص:۳۰)
کتاب کے آخر ی حصے میں شان بھارتی کی چند غزلیں ہیں۔ ان کی غزلوں کے چند اشعار کے ساتھ اپنی تحریر ختم کرتا ہوں:
ہر ایک آرزو اپنی شہید کرتے رہے
اسی طرح کئی برسوں سے عید کرتے رہے
ملی جو بھیڑ تو خاموش ہی رہے ہم شانؔ
ہوئے اکیلے تو گفت و شنید کرتے رہے
٭٭
مدتوں بغض و عداوت نے اٹھایا اس کو
پیار کے ایک ہی جھونکے نے گرادی دیوار
شانؔ دنیا کو جو نزدیک سے دیکھا ہم نے
ہوگئی اور بھی مضبوط انا کی دیوار
٭٭
جو رخ پہ ڈالے ہوئے وہ نقاب نکلے گا
اک انقلاب پسِ انقلاب نکلے گا
ابھی تک اوڑھے ہوئے ہوں میں برف کی چادر
ہے انتظار ابھی آفتاب نکلے گا
٭٭
کبھی قدروں کی اتنی بھی نہ ارزانی ہوئی ہوگی
اسے اس شہر میں آنے پر حیرانی ہوئی ہوگی
جو میرا دشمن جاں ہے وہ میرے دل میں رہتا ہے
اسے یہ جان کر کتنی پشیمانی ہوئی ہوگی
٭٭
غزل کا استعارہ ڈوبتا ہے
افق پر اک ستارہ ڈوبتا ہے
صحافت کرکے دیکھی شانؔ ہم نے
نکالو جو شمارہ دوبتا ہے
٭٭٭
 

Dr. Ahsan Alam
About the Author: Dr. Ahsan Alam Read More Articles by Dr. Ahsan Alam: 13 Articles with 10902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.