اُداسیوں کی شال اوڑھے شام اِس طرح وجود پر اُترتی ہے
جیسے پانی کی تِشنگی مٹانے کو دَریا خُشکی کی طرف رُخ کرتا ہے ، کبھی کبھی
تو یہ سمجھ نہیں آتا وجود کیوں سوالات پر قائل ہے ، عجیب دور میں مُرجھائ
ہوئ روحیں ہیں ، اپنے تن سے ہی بے زار ہیں ، تنہائ سے جان جا بھی رہی ہو
لیکن سکون تنہائ میں سوچوں کے ڈھیر میں ہی مُیسر ہے ، عجیب سی سَر گوشی ہے،
آنکھوں کو یہ میلہ لگا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر دل کی ویرانی رات کے لمحوں
میں اپنے اثرات مرتکب کر ہی دیتی ہے ۔۔آواز ، ساز ، راگ ایسے درد سناتے ہیں
جس کی تشریح کرنی نا ممکن ہے ، کتابوں کو بھی اپنی سفید پُوشاک پر اگر کاجل
کا ٹِیکہ سجانا ہے تو درد کے "د" کی تشریح جاننی پر جاۓ ، پھر "د" تک آنے
میں اپنا آپ تک یاد نہ رہے !
کوئ رات کی دِلکشی میں اترے تو درد کی کہانیاں عیاں ہوں، رات کی چادر میں
چمکنے والا چاند ، اندھیرے کے لیۓ سہارا ہے ، جو ہم جیسے عام بصارت رکھنے
والے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، راز رات میں کیوں چھپے ہیں ؟
جناب ! رات صبح کا گریبان چاک کر کے رات کے اندھیرے میں درد کی دہلیز سے
سوال کرتی ہے، سفر تہ کرنا بھی ہے یا آرام کی نیند چاہیے ؟؟
چوکھٹ پھوٹ کر آواز دیتی ہے کوئ منزل کا طالب ہے تو آؤ سفر کرتے ہیں ، ناؤ
کنارے ہی پڑی ہے اے انس ۔۔آؤ اپنی طلب کی کشتی میں بیٹھ جاؤ ۔۔
رات چاند کی روشنی ہاتھ میں لیے آہ و پکار کرتی رہتی ہے ، کچھ دل اضطراب
میں سو جاتے ہیں کچھ اضطرابی کیفیت میں ساری ساری رات سوچوں میں گزار دیتے
ہیں کچھ ان سوچوں کو رنگوں میں بچھا دیتے ہیں تو کچھ ان کو ترنم میں گا
لیتے ہیں ۔
اور کچھ غفلت کی نیند سو جاتے ہیں!
آہ و پُکار چاند کی بزم میں ساری رات جاری رہتی ہے ۔۔
کچھ روحیں درد کو دوا مان لیتی ہیں ،کچھ درد کو زندگی میں رنگ دیتی ہیں۔۔۔
ایک "درد" ہی ہے جس کا روح سے براہِ راست تناسب ہے یہ اعزاز "خوشی" کو حاصل
ہی نہی۔
کیوں؟؟؟؟
کیونکہ یہ وہ دوا ہے جو انسان کو انسانیت کا احساس دلا تی ہے، یہ وہ agent
ہے جو انسان کو کشف سے نوازتا ہے ، جو انسان کو اُسکی پھٹی ہوئ انسانیت کی
پوشاک سینے میں مدد کرتا ہے ، یہ انسان کو خدا کے قریب کرنے میں catalyst
کا کردار نبھاتا ہے ، اُسکے ضمیر کا تعارف من کے صاف پانی میں کرواتا ہے
اور جب انسان کا ضمیر اُسکے حق میں گواہی دے تو انسان جہاں بھی ہو پُر سکون
ہی ہوتا ہے ۔۔
بقلم : سعدیہ اعجاز
|