#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 66 تا 70
ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ربکم
الذی یزجی
لکم الفلک فی
البحر لتبتغوامن
فضلہٖ انہٗ کان بکم
رحیما 66 واذامسکم
الضر فی البحر ضل من
تدعون الا ایاہ فلما نجٰکم الی
البر اعرضتم وکان الانسان کفورا
67 افامنتم ان یخسف بکم جانب البر
اویرسل علیک حاصبا ثم لاتجدوالکم وکیلا
68 ام امنتم ان یعیدکم فیہ تارة اخرٰی فیرسل
علیکم قاصفا من الریح فیغرقکم ثم لاتجدوالکم علینا
بہٖ تبیعا 69 ولقد کرمنابنی اٰدم وحملنٰھم فی البر والبحر و
رزقنٰھم من الطیبٰت وفضلنٰھم علٰی کثیر ممن خلقنا تفضیلا 70
اے اَولادِ آدم ! کلامِ ماسبق میں تُمہارے پروردگار نے تُمہارے لیۓ جہاں
جہاں پر اپنی جن کارسازیوں کا ذکر کیا ھے اُس نے اپنی اُنہی کارسازیوں کے
تحت سمندروں میں تُمہارے لیۓ کشتیاں رواں کردی ہیں تاکہ تُم اپنے وسائلِ
رزق میں فراوانی پیدا کر سکو ، یقین جانو کہ اللہ ہر لَمحہ و ہر آن تُم پر
مہربان رہتا ھے اور تُم پر مہربانیاں بھی کرتا رہتا ھے لیکن تُم بھی تو ذرا
یہ خُدا لگتی بات کہو کہ تُمہاری یہ کیسی فکری بے راہ روی ھے کہ جب سمندر
کی بے کنار گہرائیوں میں تُم پر کوئی ناگہانی اُفتاد آتی ھے تو اللہ کے سوا
تُمہارے تمام خیالی کارساز تُمہارے خیال سے بھاگ جاتے ہیں اور جب تُمہارا
حقیقی کارساز تُم کو اُن طوفانوں سے بچاکر زمین پر لے آتا ھے تو تُم اُس سے
مُنہ پھیر کر دوبارہ گُمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہو ، کیا ایک لَمحے کے
لیۓ بھی تمہیں اِس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ تُم انتہائی ناشُکرے اور
احسان فراموش لوگ ہو ، اگر تُم یہ سمجھتے ہو کہ پانی سے نکل کر خُشکی میں
آنے کے بعد تُم اللہ کے قوانینِ جزا و سزا سے بَچ نکلے ہو تو یہ تُمہاری
نادانی ھے ، اللہ کے قوانینِ فطرت تو بحر و بر کے ہر ایک گوشے پر یَکساں
طور پر رُو بہ عمل ہیں ، اگر تُمہاری بے خوفی کے اِس عالَم میں اللہ تُم کو
زمین کے اسی خُشک کنارے پر زمین میں دھنسادے یا تُم پر پَتھر برسا دے یا
پھر تُم پر موت کی آندھی چلا دے تو تمہیں اُس کی اِس سزا سے کون بچاسکتا ھے
، کیا تُم لوگ واقعی یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ اگر اللہ تُم کو دوبارہ
سمندری سفر پر بہیج دے اور تُمہارے سمندری سفر کے دوران ہی تُم پر شدید
آندھی بہیج کر تُم کو غرق کر دے تو تُمہارے خیالی کار سازوں میں تُمہارا
کون سا کار ساز ھے جو تُم کو اللہ کی اِن سزاؤں سے بچا سکتا ھے ، زمان و
مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ انسان کو ھم نے ہی
سمندر و زمین پر عظمت دی ھے ، بحر و بر پر ھم نے ہی انسان کی حکمرانی قائم
کی ھے ، سمندر و زمین کے کھانوں میں ھم نے ہی انسان کے لیۓ لذت و ذائقہ
پیدا کیا ھے اور اپنی بیشتر مخلوق میں ھم نے ہی انسان کو ایک بہتر و برتر
مخلوق بنایا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا سے پہلی پانچ اٰیات میں اَولادِ آدم کو اِس
حقیقت سے آگاہ کیا ھے کہ تُمہارے جَدِ اَمجد آدم کے پیدا ہوتے ہی اُس کے
ایک نسلی دُشمن ابلیس نے اُس کے اور اُس کی نسل کے خلاف اپنے فتنہِ تلبیس
کا آغاز کر دیا تھا اور اُس نے اپنے اِس فتنہِ تلبیس کا آغاز کرتے ہی یہ
خطرناک اعلان بھی کردیا تھا کہ وہ آدم کی اَولاد کو گُم راہ کرنے کے لیۓ
اَولادِ آدم کا قیامت تک تعاقب جاری رکھے گا اور وہ یومِ قیامت آنے سے پہلے
ہی اِپنے دعوے کو سَچا ثابت کر دے گا کہ آدم نامی یہ مخلوق اللہ تعالٰی کی
زمین پر اللہ تعالٰی کے بخشے ہوۓ اقتدار و اختیار کی مُستحق نہیں ھے بلکہ
یہ ایک ایسی نافرمان و نامہربان مخلوق ھے جو اللہ تعالٰی کی زمین پر اللہ
تعالٰی کے طرف سے ذرہ سا آرام ، ذرہ سکون اور ذرہ سی سہولت ملتے ہی اللہ کے
اَحکام کی نافرمانی کرنے لگے گی اور کرتی رھے گی اور اَب قُرآنِ کریم نے
موجُودہ پانچ اٰیات میں انسان کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا ھے کہ اللہ تعالٰی
نے ابلیس کو اَولادِ آدم کے ورغلانے کی جو چُھوٹ دی ہوئی ھے وہ کوئی ایسی
کُھلی چُھوٹ بھی نہیں ھے کہ اَولادِ آدم اُس کے سامنے بالکُل ہی بے بَس
ہوکر رہ جاۓ بلکہ ابلیس کو دی گئی اِس چُھوٹ کی حقیقت صرف یہ ھے کہ وہ
مختلف حیلوں اور بہانوں سے پہلے انسان کے ارادہ و خیال میں ایک وقتی تعطل
پیدا کرتا ھے اور جب انسان کے مُستحکم ارادے میں تعطل پیدا ہو جاتا ھے تو
پھر وہ انسان کے خوابیدہ جذبہِ حرص کو جگاتا ھے اور انسان کو یہ باور کراتا
ھے کہ اُس کا فلاں فلاں کام جو ابھی تک اَٹکا ہوا ھے اگر وہ اُس کام کے لیۓ
فلاں پیر بزرگ کا یا فلاں کالی دیوی کا چڑھاوا چڑھادے گا تو اُس کا وہ کام
جلدی ہو جاۓ گا ، ابلیس کا کام انسان کے خیال میں اسی طرح خیالی کار ساز
بنانا اور انسان کو شرک و معصیت کی راہ دکھانا ھے ، وہ انسان کو اِس خیالی
دھوکے اور فکری مغالطے میں تو مُبتلا کرسکتا ھے جس کا ھم نے ذکر کیا ھے
لیکن وہ انسان کے جسم و جان پر مُتصرف ہو کر انسان کو اپنی مرضی کے کسی
مَنفی عمل پر مجبُور نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے جس وقت سے ابلیس
کو انسان کے ارادے میں مداخلت کی چُھوٹ دی تھی اُسی وقت سے اُس نے انسانی
فطرت میں روشنی کا وہ جُگنُو بھی رَکھ دیا تھا کہ جیسے ہی انسانی رُوح و
نفس میں ابلیس کا پیدا کیا ہوا مصنوعی اندھیرا آۓ تو انسانی فطرت میں
موجُود وہ جُگنُو بھی فورا روشن ہو جاۓ اور انسان کو فورا ہی معلوم ہو جاۓ
کہ وہ خیر کے جس ماحول میں موجُود ھے اُس کے آس پاس ابلیس کا فتہ و شر بھی
کہیں نہ کہیں پر موجُود ھے اور انسان یہ جاننے کے بعد فریب شیطان و نفس کا
مقابلہ کرنے کے لیۓ تیار ہو جاۓ ، انسانی فطرت میں فاطر کی رکھی ہوئی یہی
وہ خیر کی روشنی ھے جو بار بار انسان کو شر سے بچاتی ھے اور بار بار خیر کی
طرف بلاتی ھے ، قُرآنِ کریم نے انسانی فطرت میں فطرت کے اِس فعال قانون کے
فعال ہونے کی دلیل یہ دی ھے کہ جب سمندر کی بے کنار گہرائیوں میں تُم پر
کوئی ناگہانی اُفتاد آتی ھے تو اللہ تعالٰی کے سوا تُمہارے تمام خیالی کار
ساز تُمہارے خیال سے اسی لیۓ بھاگ جاتے ہیں کہ اُس لَمحے تُمہاری فطرت میں
رکھا ہوا ایمان و یقین کا وہ جُگنُو روشن ہوجاتا ھے جس کی وجہ سے تُم اللہ
کی رجوع کرتے ہو اور جس کی وجہ سے تُم اللہ کے اُس عتاب سے بَچ جاتے ہو ،
اگر تُم بار بار اللہ کی طرف رجوع کرکے رجوع کے اِس عمل کو اپنی عادت
بنالوگے تو تُم بار بار ابلیس و ذریتِ کو شکست دینے کے قابل بن جاؤ گے لیکن
تم جب بھی اپنے اُوپر آنے والی ناگہانی آفات سے بَچ کر قدرے پُرسکون ہو
جاتے ہو تو ابلیس دوبارہ تُمہارے خیال میں عیش و نشاط کے نۓ نیۓ منظر لے کر
آتا ھے اور تُم دوبارہ اُس کے ہاتھوں سے بیوقوف بن جاتے ہو ، قُرآن انسان
کی اسی کیفیت کے بارے میں انسان کو بتاتا ھے کہ جب تُمہارا حقیقی کار ساز
تُم کو اُس آبی طوفان سے بچا کر خُشکی پر لے آتا ھے تو تُم دوبارہ اُس سے
مُنہ پھر کر گُم راہی کے اُسی راستے پر چل پڑتے ہو جس پر تُم پہلے چل رھے
تھے ، حالانکہ اگر اللہ تعالٰی چاھے تو پانی سے زمین پر آنے کے بعد تمہیں
زمین میں دھنسا کر بھی مار سکتا ھے لیکن وہ تمہیں بار بار بچنے کا موقع
دیتا ھے تاکہ تُم راہِ ھدایت پر واپس آجاؤ !!
|