سردی کے شب و روز دکھ و مسّرت کے مِلے جلے کیفیات
میں گزر گئے ۔دیہاتوں میں لوگ بارش کی تمنا لئے اﷲ تعالی کے حضور بارش کے
لئے دست بدعا تھے کیونکہ ان کے کھیتوں کے سینے تشنہ لب و بہ انتظارِ آب تھے
۔ اب موسمِ بہار نے مہِ رخ دکھایا تو بادلوں نے بھی فلک پر ڈیرہ جمایا ۔
پشاور شہر جو عموما گرد و غبار، گا ڑیوں کی دھویں ،شور اور فضائی آلودگی سے
معمور رہتا ہے ، گزشتہ روز سے آسمان پر چھائے با دلوں نے زمین پر پہلا قدم
رکھا اور رِ م جھم ہونے لگی ۔ جوں جوں دیوار پر لگی وال کلاک کی سوئیاں
محوِ سفر میں ٹِک ٹِک کی آواز کرتے آگے بڑھتی گئیں، توں توں بارش کی رفتار
میں اضافہ ہوتا گیا اور بوقتِ تحریر ہذا پشاور میں موسم کی پہلی بارش خوب
زور سے برس رہی ہے ۔ اورمجھے قتیل شفائی کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ
’’ دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ تک نہ تھا ۔۔۔ اس طرح برسات کا
موسم کبھی آیا نہ تھا ۔۔ ‘‘
میرا بچپن چونکہ دیہات میں گزرا ہے اور گاؤں کے تصور سے میری بہت سی یادیں
جڑی ہو ئی ہیں ۔ باایں وجہ جب زور کی بارش ہو تو سینے میں دل اچھل اچھل کر
گاؤں جانے کی ضد کرتا ہے کیونکہ بارش سے پوری طرح لطف اندوز ہو نے کا موقعہ
کسی دیہات میں بارش کا پانی ندی نالوں میں بہنے، شور مچانے اور کچے مکانوں
کے چھت پر قطرہ گوہر کے گرنے اور ٹپ ٹپ کی آواز میں ایک سریلی آواز میں
ملتا ہے ۔ وہاں تو بارش کا نظارہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ، وہ بیری کے درختوں
سے بیروں کا گرنا، پتون کی سرسراہٹ اور برساتی نالوں میں پانی کے ریلوں کا
شور ایک عجیب روح پرور سماں کی تخلیق کا با عث بنتا ہے ۔البتہ بعض لوگ یہ
شعر بھی گنگناتے نظر آتے ہیں ۔
’’ کیوں مانگ رہے ہو بارش کی دعائیں ۔۔۔۔۔ تم اپنی شکستہ در و دیوار تو
دیکھو ‘‘ اس کے برعکس شہر میں بارش کا وہ مزہ نہیں ہو تا جو کسی گاؤں میں
ہوتا ہے ۔شہر میں پکی گلیاں ،پکی سڑکیں اور پکے چھتوں پر بارش کا پانی یوں
گزرتا ہے جیسے کسی مر مریں جسم پر شاور کا پانی گر کر نو دو گیارہ ہو جاتا
ہے ،بارش کہیں بھی ہو، اﷲ کی رحمت ہوتی ہے ،بوجہ ازیں آج پشاور میں بلکہ
پورے پاکستان میں بارش پر ہمیں خوشی ہو رہی ہے مگر یہاں پشاور میں بارش ایک
مصیبت بھی ساتھ کھینچ لے آتی ہے اور وہ مصییبت ہے، بجلی کا غائب ہو جانا،
گیس کی پریشر میں کمی، ، بوقتِ تحریر بارش آئی ہے مگر بجلی چلی گئی ہے ۔
گیس کی پریشر میں کمی کا مسئلہ تو عرصہ دراز سے ہے ۔ لگتا ہے پی ٹی آئی کی
حکومت کی پیٹ سے گیس نکل گئی ہے او اب اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور گیس کی
قیمت ستانوے فی صد بڑھانے کی سوچ رہی ہے کیونکہ حکمِ آئی ایم ایف ہے جس کی
تعمیل ضروری ہے، عوام جائے بھاڑ میں، چوں چوں کر کے خاموش ہو جائیگی البتہ
پی ڈی ایم کی پیٹ میں گیس جمع ہو کر انگڑائیاں لے لے کر انہیں بے چین کئے
ہو ئی ہے ۔ بحر حالؒ حکومت جانے اور پی ڈی ایم جانے، مگر عوام بے چاری تو
اتنی آرزومند ہے کہ ان کو بجلی و گیس متواتر ملے اور ان کی قیمتیں آسمان سے
محوِ کلام ہونے کی بجائے اہلِ زمیں پر نظرِ کرم کرے ۔
’’ اب کے بارش میں بھی زردی نہ گئی چہروں کی۔۔۔۔ ایسے موسم میں تو جنگل بھی
ہرا لگتا ہے ‘‘ باہرکا موسم کتنا ہی حسیں کیوں نہ ہو مگر انسان کی خوشی کا
دار و مدار اندر کی خوشی پر منحصر ہوتا ہے اور اندر کا موسم تبھی خوشگوار
ہوتا ہے جب دو وقت عزت کی روٹی ، بچوں کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہو لتیں
میسر ہوں ۔ اس وقت موسمِ گرما کی پہلی بارش سے جس طرح ہم لطف اندوز ہو رہے
ہیں۔ اسی طرح ہماری تمّنا ہے کہ عمران خان کی حکومت پاکستانی عوام کے لئے
موسم کی پہلی بارش کی طرح ایک ایسی پہلی بارش ثابت ہو جائے جو اتنا برسے،
اتنا برسے کہ اپنے ساتھ تمام گند و خاشاک کو بہا کر لے جائے اور وطنِ عزیز
پاک و صاف ہو کر خوشحالی و ترقی کی جانب رواں دواں ہو جائے۔ اگر عمران خان
ایسا نہ کر سکے تو عوام مایوس ہو کر مومِ خزاں میں گرتے ہوئے پتّوں کی طرح
بکھر جائیں گے جو وطنِ عزیز کے لئے نہایت مضر ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔۔
|