ڈاکٹر رشید امجد مرشد کی تلاش میں مرشدِ حقیقی سے جا ملے

رشید امجد کو تمام عمر اپنی ہر تحریر میں مرشد کی تلاش رہی اور اسی تلاش میں زندگی کا سفر گزارتے رہے۔ ان کی ہر کہانی مرشد سے شروع ہو کر مرشد پر ختم ہو جاتی ۔ پاکستان میں جب بھی علامتی افسانہ نگاری کی بات ہوگی تو رشید امجد کا حوالہ دیئے بغیر نہ مکمل ہوگی۔ مارچ کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ تمام شجر اپنے اندر آنے والی بہار کی روح کے ساتھ خوشی محسوس کر رہے تھے لیکن اب کی بار مارچ کا مہینہ رشید امجد کے چاہنے والوں کو غم دے گیا یہ موسم بہار رشید امجدکے چاہنے والوں کے لیے موسم خزاں ثابت ہوا خزاں کے بعد بہار کے آنے کی امید باقی رہتی ہے مگر یہاں پر صورت حال مختلف ہے شاید اب رشید امجد سے ہماری ملاقات دنیاوی اعتبار سے نا ممکن ہے لیکن آپ اپنے پڑھنے والوں کو ہراپنی یاد دلاتے رہیں گے۔

۵؍مارچ ۱۹۴۰ء سرینگر سے شروع ہونے والا اختر رشید کا یہ سفر ۵؍مارچ ۲۰۲۱ء کو راول پنڈی میں پوری آب و تاب کے بعدرشید امجد کے نام کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا لیکن تاریخی و تہذیبی اعتبار سے ۱۹۴۰ سے ۲۰۲۱ء رشید امجد نے ہر سطح پر قومی رہنمائی کا بھرپور کردار ادا کیا۔آپ ان گزرے سالوں میں اپنے ساتھ رہنے والوں کے درمیان حسین یادیں چھوڑ گئے۔نہ صرف پاکستان میں بلکہ تمام دنیائے اردو ادب کے لیے ڈاکٹر رشید امجد کی رحلت ایک عظیم سانحہ ہے۔

افسانہ کی دنیا میں جب بھی علامتی افسانہ نگاری کی بات ہوگی رشید امجد کو ایک حوالہ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ افسانہ نگاری کے اندر علامت کا جس ہنر مندی اور سلیقہ شعاری کے ساتھ رشید امجد نے استعمال کیا۔شاید ہی ان کے بعد کوئی اور اس مقام پر پہنچ سکے۔ ڈاکٹر رشید امجد ایک عام آدمی کے طور پر پیدا ہوئے اور اسی راستے پر ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہوئے خاص بن کر چلے گئے۔ آپ عام آدمی کے مسائل اور وسائل کے درمیان پیدا ہونے والے خوابوں کو جب افسانے کی صورت بیان کرتے ہیں تو ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو جاتی ہیں آپ کی شہرہ آفاق تصنیف ایک عام آدمی کے خواب اسی صورتحال کو بیان کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ سماج کی صورتحال کو بھی ایک افسانے کے اندر بھرپور انداز میں بیان کر جاتے ہیں ۔ آپ ایک طرف ایک عام آدمی سے مخاطب ہیں تو دوسری طرف سماج کوبھی جگانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد کی زندگی مسلسل جدوجہد کی عکاس ہے اور یہی بات ہے کہ آپ کی ہر تحریر کے اندراس جدوجہد کو نئی نسل میں منتقل کرتے ہوتے ہوئے بھرپور انداز میں نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی ایک اور تصنیف آپ بیتی ’’ تمنا بے تاب‘‘ ہے جس میں آپ بذاتِ خود بڑی بے رحمی کے ساتھ اپنی تمام زندگی کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔ جو کہ ایسی شخصیت بننے کے بعد بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ رشید امجد اپنے اندر چھپے ہوئے مرشد کو تلاش کرتے کرتے لوگوں کے مرشد بن گے اور یہی رشتہ ان کو رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھے گا۔

آپ عارضی زندگی کے اندر پختہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے اصول پر کاربند رہے۔ رشید امجد انسانی رویوں کو دنیا میں اچھائی یا برائی کا پیمانہ سمجھتے رہے اور کسی حد تک اپنی ہر تحریر میں انسانی زندگی میں انسانی رویوں کی دخل اندازیوں پر دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نظر آئے۔ آپ کے نزدیک انسان جس قدر اچھے رویوں کے درمیان میں رہے گا اسی قدر وہ ایک اچھا انسان بن کر اُبھرے گا اور اگر زندگی میں کبھی اس کو بُرے رویوں کا سامنا ہوا بھی تو اس کی اچھے رویوں کے ساتھ گزری ساعتیں اس کے لیے اس دوران ایک رہنما کا کام کریں گی۔

ڈاکٹر رشید امجد طویل عرصہ درس و تدریس شعبہ سے منسلک رہے ایک استاد سے ایک پروفیسر کا سفر بہترین انداز میں کیا اور اس دوران ہزاروں شاگردوں اور علم کے پیاسوں کی پیاس کو جس انداز سے بجھایا وہ تمام اساتذہ کرام کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔

نمل یونیورسٹی، شعبہ اُردو کے سربراہ سے لے کر کلیہ زبان و ادب، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ تک آپ نے ہر ایک قدم پر اردو ادب اور اس سے منسلک لوگوں کی جس انداز میں خدمت کی اس پر آپ کو لوگوں کے دلوں سے نکالنا بہت مشکل ہے۔اس دوران آپ نے شعبہ اردو کی تحقیق و تدریس کو نئی جہتوں سے روشناس کروایا ۔ آپ ہر طالب علم پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھتے اور اس کے ساتھ مل کر اس کے حصول علم کے لیے مشقت کرتے اور اس کو کسی مقام پر پہنچا کر سکون کا سانس لیتے اگر کوئی شکریہ ادا کرتا تو بڑے مدبرانہ انداز میں اس کو کہتے کہ شاباش یہ تو آپ کی محنت کا نتیجہ ہے گویا اس کامیابی پر بھی وہ اپنے طالب علموں کو ایک نئے سبق سے روشناس کرواتے۔

ڈاکٹر رشید امجد کی تصانیف میں ’’ایک عام آدمی کے خواب‘‘،’’تمنا بے تاب‘‘،’’عاشقی صبر طلب‘‘،’’گملے میں اُگا ہوا شہر‘‘،’’دکھ اک چڑیا‘‘، بے زارآدم کے بیٹے‘‘،’سہ پہر کی خزاں‘‘،’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘،’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘اور’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ‘‘ شہرآفاق تصانیف ہیں۔ جو ہر دور میں اپنے پڑھنے والوں کو رشید امجد کی شخصیت، فن اور ان کی سوچ پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کرتی رہیں گی۔

ڈاکٹر رشید امجد کی ادبی و علمی خدمات سے متاثر ہو کر حکومت پاکستان نے آپ کو اعلیٰ سرکاری اعزاز (حسن کارکردگی) ایوارڈ سے نوازا۔ڈاکٹر رشید امجد کی علمی و ادبی خدمات سے متاثر ہو کر ہندوستان میں شعبہ اُردو نے ان کے بعض افسانوں کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا ہے جو ہم سب کے لئے ایک اعزاز ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد ایک متحرک اور خوبصورت زندگی گزارنے کے بعد مارچ ۲۰۲۱ء کی بہاروں کے موسم میں ہم سے جدا ہوگئے۔ یقینا ان کا ہم سے جدا ہونا ایک عظیم سانحہ ہے لیکن ان کی تصانیف ہر دور میں ہمارے لیے ایک مرشد نما کے طور پر موجود رہے گی اور ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔اﷲ پاک ان کو جوارِ رحمت نصیب کریں۔ آمین

 

Syed Majid
About the Author: Syed Majid Read More Articles by Syed Majid: 8 Articles with 8872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.