وہ قلندر اور دانائے راز کہاں ہے؟

یہ دَورہمارے عروج واقبال کادَورنہیں،بدبختی وادبارکادَورہے۔ہم پاتے کم ہیں،کھوتے زیادہ ہیں۔اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاًتوپیدانہیں ہوتے اوراگردوچار پیداہوتے ہیں توقبل اس کے کہ ان کے جا نشین پیداہوں،وہ اپنی جگہ خالی چھوڑکرچل دیتے ہیں۔اپنی قوم کے ان لوگوں کی گنتی کریں جن کے دَم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھردیکھیے کہ ایک ایک کرکے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جارہی ہے اورکوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کیلئےآگے بڑھے،قوموں کے مرنے اور جینے کاایک اصول ہے جوہمارے موجودہ فلسفۂ قلت وکثرت سے بالکل مختلف ہے۔ہم صرف سَروں کوگننے کے عادی ہورہے ہیں حالاںکہ زندگی سَروں سے نہیں بلکہ دماغوں اوردماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔
مجھے یہ ڈرہے دلِ زندہ تونہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جن لوگوں کے سامنے معاملے کی یہ حقیقت،اپنی پوری وضاحت کے ساتھ موجودہے،کون بتاسکتاہے کہ علامہ اقبال کی موت نے ان کے دلوں کاکیا حال کیا!دنیاتقدیر سے شکوہ سنج ہوتی ہے توسر پیٹتی ہے،اوردشمن کی چیرہ دستیوں سے چڑتی ہے توانتقام لیتی ہے، لیکن اقبال کانوحہ خواں کیا کرے وہ توصرف اللہ ہی سے شکوہ کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہاراللہ سے کرتاہوں اوراللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتاہوں جوتم نہیں جانتے۔(یوسف:86)

غالبا1916یا1917 کاواقعہ ہے۔استادمرحوم مولاناعبدالرحمن نگرامی،طلبہ کی مجلس میں اقبال کاشکوہ پڑھ رہے تھے۔عالم یہ تھاکہ سننے والے میں اس شعرکے اثرکوآنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک دماغ میں شعرکی خوبیوں اورنزاکتوں کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔شنیدہے کہ اس مجلس میں اقبال کے شعروں کی صدائے بازگشت درودیوارسے بلندہورہی تھی اورآنکھیں مسلسل علانیہ مشاہدہ کر رہی تھیں کہ آسمان سے کوئی چیزبرس رہی ہے اورساری زمین ہل رہی ہے۔آج تک کوئی مجلس اتنی پراثرنہیں دیکھی گئی اورآج بھی کلام اقبال پڑھتے ہوئے ہردل شاعربننے کی آرزوکرتاہے۔بچپن میں میرابھی یہی حال ہوتاتھالیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیوںکہ اقبال صرف ایک ہی ہوتاہے۔آج اپنی لذیذآرزواورخوشنماخواہش ویادپررونا بھی آتاہے اورہنسی بھی!!ہنسی بچپن کی اس سادہ لوحی پرکہ شاعرہوناتودرکناراقبال کے شعروں کوسمجھنے کی اہلیت بھی پیدا نہیں ہوئی اوررونااس لیے کہ وہ عظیم الشان ہستی توبرسوں قبل اٹھ گئی جوحوصلوں اورولولوں کودعوتِ رفعت وسبقت دینے کیلئے ایک نشان پروازاوردماغوں کی رہنمائی و قیادت کیلئے پہاڑی کاچراغ تھی۔

شایدوکٹرہیوگونےکہاہے’’زندگی کتنی ہی شانداراورعظیم الشان ہولیکن تاریخ اپنے فیصلہ کیلئےہمیشہ موت کاانتظارکرتی ہے‘‘۔ دنیاکیلئےممکن ہے یہ ایک مسلمّہ حقیقت ہولیکن اقبال کیلئےتاریخ نے اپنے اس کلیہ کوتوڑدیا۔اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی،اب تاریخ کیلئےصرف یہ باقی رہ گیاہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کومحفوظ اورقلم بندکرلے۔

اقبال اس بزم میں یاتوبہت بعدمیں آئے تھے،یابہت پہلے،اتنے بعدکہ اہلِ مجلس کے دماغوں اوردلوں میں ان خیالات وافکارکیلئےایک چھوٹے سے نقطے کے برابربھی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی،یااتنے پہلے کہ جس صبح صادق کے وہ مبشرتھے نہ صرف یہ کہ افق میں ابھی اس کی صبح کاذب کاکوئی نشان بھی نمودارنہ ہوا تھابلکہ دنیاپرابھی نصف شب کی ہولناک تاریکی چھائی ہوئی تھی،لیکن اقبال کواللہ تعالیٰ نے تسخیرِ قلوب وارواح کیلئےاس نفوذمیں سے ایک حصہ عطافرمایاتھا، جسے وہ صرف اپنے ان بندوں کومسلح فرماتاہے جووقت کی فاتحیت کاتاج پہن کرآتے ہیں چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیانے دیکھاکہ جس شخص کی باتیں اہلِ مجلس کیلئےاتنی بیگانہ تھیں کہ ایک شخص بھی ان کو سمجھنے والا نہ تھااب اتنی مانوس ومحبوب ہوگئی ہیں کہ ہربزم وانجمن کاافسانہ ہیں اورکوئی دل ایسانہیں ہے جواقبال کی عظمت کے آگے جھک نہ گیا ہو۔ہرمجلس اورہر منبرپر اپنی گفتگوکومعتبرثابت کرنے کیلئےاقبال کے اشعارکاسہارالیناپڑتاہے۔

اقبال نے جس جرأت کے ساتھ ہمارے علم وعمل کے ایک ایک گوشے پرتنقید کی اورجس بے خوفی کے ساتھ اپنی دیکھی ہوئی راہوں پرچل پڑنے کی دعوت دی، اس میں پیغمبرانہ عزیمت کی نمودہے۔جہاں تک جرح وتنقیدکاتعلق ہے،مولانا حالی کی زبان بھی تیغ وسناں سے کم نہ تھی،ان کاتیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقادکے ہرگوشے کیلئےبے امان تھا۔اس وقت سوسائٹی جن عناصرسے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کوچُن کرحالی نے پکڑا اورقوم کی عدالت میں مجرم ٹھہراکران کو بے دریغ سزادے دی،اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال ومعتقدات کوایک نئی راہ پرلگادیا لیکن حالی کاکام آسان تھا،وہ قوم کوزمانے کے ساتھ لے جاناچاہتے تھے”چلو تم ادھرکو ہوا ہو جدھرکی”اورزمانہ اپنی تمام رعنائیوں اوردلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کیلئےآمادہ کارہوچکاتھا۔ان کوجو دیواریں ڈھانی تھیں وہ خود متزلزل ہوچکی تھیں اورجوعمارت بنانی تھی اس کیلئےدستِ غیب خود چونااورگارامہیاکررہاتھا۔وہ خزاں کی بلبل ضرورتھے مگرموسمِ گل کی آمدآمدان کوشہ بھی دے رہی تھی۔مگراقبال۔۔۔ اللہ اکبر!اس کی سطوت و جلالت کاکون اندازہ کرسکتاہے،وہ زمانے سے جنگ کرنے کیلئےآیاتھا۔ “زمانہ باتونسازدتوبازمانہ ستیز”۔

ان کوجوپیغام دیناتھا،نہ صرف یہ کہ زمانہ اس سے آشنانہیں رہ گیاتھا بلکہ وقت کی ذہنیت بالکل اس سے مختلف قالب پرڈھل چکی تھی اوراس کائنات کی تمام قوتیں ہم کوایک نئی سمت میں کھینچ لے جانے کیلئےنہ صرف پوری طرح طاقتورہوچکی تھیں بلکہ ہم نصف سے زیادہ منزل اس راہ کی طے بھی کرچکے تھے مگراقبال تسخیر قلوب وارواح کی ایک غیبی طاقت سے مسلح ہوکرآیااوراس نے ہم کوایک بڑے خطرہ سے بچالیااوریقیناًیہ اسی کی برکت ہے کہ ہم جوہرشکل وہئیت کوقبول کرلینے کیلئےموم کی طرح نرم ہوچکے تھے،گوچٹان کی طرح سخت نہ ہوچکے ہوں لیکن اتنی صلابت ہم میں ضرورآچکی ہے کہ ہرانگلی ہم پرتصرف نہیں کر سکتی۔یہ خودی کاوہی احساس ہے جس کواقبال نے پوری قوت سے جھنجوڑکر بیدارکرنے کی کوشش کی۔

اقبال کے فلسفے پرغورکرنے والے،اس کاسراغ نٹشے اوربرگساں میں لگاناچاہتے ہیں یہ اس لیے کہ ہماری منفعل اورمرعوب ذہنیت تصوربھی نہیں کرسکتی کہ یہ بادیٔ تندمشرق کے کسی میکدہ کی ہوسکتی ہے حالانکہ اقبال کے خیالات کااصلی مصدرقرآن ہے۔یوں تواقبال نے کلمہ حکمت جہاں پایااس کولیالیکن اس لیے کہ وہ اپنی چیزتھی ورنہ جوخودکوہِ نورکی دولت کامالک ہووہ فقیروں کی کوڑیوں پرکیانگاہ ڈالتا!
اقبال نے تویہ ننگ تک گوارانہ کیاکہ قرآنی صداقتوں اورعربی حکمتوں کوزمانے کاآب ورنگ دیکرخوشنمابنائے۔وہی پرانا کیسہ اوروہی بے ترشے ہوئے نگینے۔ مگرجب اقبال نے اپنی ہتھیلی پررکھ کران کوپیش کیاتونگاہیں خیرہ ہوکررہ گئیں۔اقبال کی دنیاہی الگ تھی۔جب سب شفاخانۂ حجاز میں زندگی ڈھونڈنے نکلے تووہ ریگستانِ حجازمیں موت ڈھونڈتاتھا۔جب مرمریں سلوں اوربرقی قمقموں نے حرم کوجگمگادیاتواس نے چڑکرکہا:
میں ناخوش وبیزارہوں مرمرکی سلوں سے
میرے لیے مٹی کاحرم اوربنادو

اوربے لوث صداقت کااعجاز دیکھوکہ ہم صرف ڈھلی ہوئی ترشی ہوئی،ملمع کی ہوئی چیزوں ہی کے دیکھنے کے عادی ہیں۔اقبال کی یہ سادگی ہم کوبھی دیوانہ بنالیتی ہے اورباوجودیہ کہ بغیرعقل ومنطق کوساتھ لیے ہم ایک قدم چلنے کے عادی نہیں مگرجب اقبال کوئی بات کہہ دیتے ہیں تو کوئی نہیں جوان سے دلیل مانگے، شایدیہ بات سچ ہے کہ سچائی اگرسچے کی زبان سے نکلے تووہ اپنی حمایت کیلئےمنطق کی محتاج نہیں۔اقبال اوران کی شاعری سے قوم کی جوخدمتیں انجام پائی ہیں ان پرغورکرنامؤرخ کاکام ہے۔میں صرف ایک بات کاحوالہ دینا چاہتاہوں جس کوصرف اقبال ہی نے کیااوروہی کرسکتے تھے۔
اگراقبال نہ پیداہوتے تویقیناًہماے کالجوں اوریونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کواس طرح مسخ کرڈالتی کہ ان کے اندردین وملت کیلئے حمیت وغیرت کاکوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا،وہ جس طرح ظاہرمیں مسخ ہوگئے ہیں اس سے زیادہ ان کاباطن مسخ ہوجاتالیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کوبھیجاجومعلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان تُوبہ تُوپردوں کو چاک کرکے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اورجب تک ان کی روحِ شعراس کائنات کے اندرکارفرماہے اس وقت تک ان شاءاللہ ان میں دردکی ایک کسک باقی رہے گی،اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھرپیداہونے لگیں۔

اس مردقلندرکاکیایہ احسان کم ہے کہ جب18ویں صدی میں ہندوستان مسلمان بادشاہوں اورامیروں کی اخلاقی بے راہروی کی بناپر فتنہ وفساد اور انتشار کا شکار ہوکرانگریزوں کے ہاتھوں میں چلا گیاتواس مشکل دورمیں بروقت فرنگی اورہندواقوام کےعصری خظرناک عزائم کوبھانپتے ہوئے مسلمانوں کے دین و مذہب،جان ومال اورتہذیب وتمدن کی حفاظت اوربیداری کیلئے اپنی عملی توانائیاں وقف کرتے ہوئے فرمایا:”آئندہ نسلوں کی فکرکرناہمارافرض ہے،ایسانہ ہوکہ ان کی زندگی گونڈاوربھیل اقوام کی طرح ہوجائے اوررفتہ رفتہ ان کادین اورکلچراس ملک میں فناہوجائے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طورپر زندہ رہے تواس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے”۔
یہ دانائے رازجان چکاتھاکہ مسلمانوں کی آزادی صرف نفاذِاسلام میں مستورہے،ان کے سازسخن کے نغمات حریت واستقلا ل ہیں لیکن وہ اسلام کے بغیر آزادی وطن کاتصوربھی نہ کرتے تھے اسی لئے بڑے غیورانہ لہجے میں فرمایا:اگرہندوستان میں مسلمانوں کامقصد سیاست سے محض آزادی اوراقتصادی بہبود ہے اور حفاظتِ اسلام اس مقصدکاعنصرنہیں جیساکہ آج کے قوم پرستوں کے روّیے سے معلوم ہوتاہے تومسلمان اپنے مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہ ہوں گے۔اگرآزادی ہندکانتیجہ یہ ہواکہ جیسادارلکفرہے،تومسلمان ایسی آزادی وطن پرہزار مرتبہ لعنت بھیجتاہے”۔ اس بارے میں قائداعظم کوخط میں لکھا …. .. ”شریعت اسلامیہ کے طویل وعمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اسلامی قانون کومعقول طریق پرسمجھااورنافذکیاجائے توہرشخص کوکم ازکم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہوسکتاہے لیکن کسی ایک آزاداسلامی ریاست یاچند ایسی ریاستوں کی عدم موجودگی میں اسلامی شریعت اسلامیہ کانفاذاس ملک میں محال ہے”۔

انہوں نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو ترک کرکےاسلامی قومیت کو اپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔انہوں نے مسلمانوں پر اسلام کے احسانات ِ عظیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ”اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا جس سے مسلمانانِ ہند کی حیات متاثر ہوئی۔اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق اور منتشر افراد بتدریج متحد ہو کرایک متمیز اور معین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اوران کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہوجاتا ہے”۔
حکیم الامت کاسب سے بڑاکارنامہ جس کی بنیادپرپاکستان قائم ہوا،انہوں نے ہندی قومیت کے تصورکی مکمل نفی کی اورمسلمانوں میں اسلامی قومیت کا شعور پیداکیا۔وہ جغرافیائی وطن پرستی کے سخت مخالف تھے کیونکہ یہ ان کے نزدیک وحدتِ ملی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،انہوں نے اسلام کو زندگی بخش قوت قرار دیتے ہوئے فرمایا”اسلام ایک زندہ قوت ہے جوذہن ِانسانی کونسل ووطن کی قیودسے آزادکرسکتی ہے جس کاعقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اورریاست دونوں کی زندگی میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے اورجسے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیرخوداس کے ہاتھ میں ہے”۔اسلام بحیثیت مذہب کے دین وسیاست کاجامع ہے،یہاں تک کہ ایک پہلوسے دوسراپہلو کاجداکرناحقائق اسلامیہ کاخون کرنا ہے۔اسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے،کوئی مسلمان اسلام سے باہراپناوجودقائم نہیں رکھ سکتا،اسلامی تصورہماراوہ ابدی گھریاوطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں،جونسبت انگلستان کوانگریزوں اورجرمنی کو جرمنوں سے ہے،وہ اسلام کوہم مسلمانوں سے ہے ” ۔

آج بھی جب مایوسیاں گھیرلیں تواقبال کے اشعارمیں نشانِ امیدہمیں بڑھ کرتھام لینے اورازسرنوتازہ دم کرنے کیلئے کافی ہے ،جب تاریکیاں چھا جائیں تواقبال ہمارے لیے شعاعِ ہدایت بن کرچمکتے ہیں۔وہ آج بھی روحوں کوگرمانے اوردلوں کوتڑپادینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کی زبان سے ہمیں آج بھی مشرق کے ضمیر کی صدائیں سننے کوملتی ہیں اوران کے ہندی نغموں میں حجازکی مضطرب لے ہماری رہنمائی کیلئے موجودہے۔اقبال زمین کے تھے مگران کی پرواز آسمان تک تھی۔وہ شاعرتھے مگران کی شاعری میں علمِ نبوت کی روح کارفرماتھی۔وہ دنیاداروں کے بھیس میں قلندر اوردیوانوں کے رنگ میں دانائے رازتھے۔
یارب!ہمارایہ شاعرکہاں گیا!کیاوہ ہماری موجودہ روش کودیکھ کرکہیں نوحہ کناں ہے؟یارب!س کی روح پراپنی بے پایاں رحمتیں اوربرکتیں نازل فرما!! آمین

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.