#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 101 تا
104 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد موسٰی
تسع اٰیٰت بینٰت
فسئل بنی اسرائیل
اذجاء ھم فقال لہ فرعون
انی لاظنک یٰموسٰی مسحورا
101 قال لقد علمت ماانزل ھٰؤلآء
الا رب السمٰوٰت والارض بصائر وانی
لاظنک یٰفرعون مثبورا 102 فاراد ان
یستفزھم من الارض فاغرقنٰہ ومن معہ
جمیعا 103 وقلنا من بعدہٖ لبنی اسرائیل
اسکنواالارض فاذاجاء وعدالاٰخرة جئنابکم
لفیفا 104
اے ھمارے رسول ! ھم نے عھدِ مُوسٰی میں فرعون اور قومِ فرعون پر اپنے عذاب
کے جو نو کُھلے نشانات ظاہر کیۓ تھے آج اگر آپ اَبناۓ اسرائیل سے اُن کی
تفصیل پُوچھیں گے تو وہ آپ کو اپنے بڑوں پر گزرے ہوۓ اُن تمام اَحوال کی وہ
تفصیل بتادیں گے کہ جب قوم فرعون پر ھمارے عذاب کے وہ نشانات ظاہر ہونے لگے
تو فرعون نے ھمارے عذاب کے اُن نشانات کو مُوسٰی کا جادُو قرار دیا جس پر
مُوسٰی نے فرعون سے کہا کہ یہ بات تو تُم کو فورا ہی جان لینی اور مان بھی
لینی چاہیۓ کہ تُم پر عذاب کا جو ایک چشم کشا سلسلہ شروع ہوا ھے وہ خالقِ
ارض و سما کی طرف سے شروع ہوا ھے لیکن تُمہاری عقل چونکہ ایک نو مولُود بچے
کی بچگانہ عقل سے آگے نہیں بڑھ سکی ھے اِس لیۓ تُم اللہ تعالٰی کے اِس عذاب
کو جادُو کہہ رھے ہو اور پھر جب اِس مکالمے کے بعد فرعون نے مُوسٰی اور
قومِ مُوسٰی کو زمینِ مصر سے نکالنے کا آخری فیصلہ کر لیا تو ھم نے مُوسٰی
و قومِ مُوسٰی کی ہجرت اور فرعون و لَشکرِ فرعون کے تعاقب کے وقت وہ اَسباب
پیدا کر دیۓ کہ مُوسٰی کے سارے ساتھی مُوسٰی کے ساتھ دریا پار کر کے مصر سے
نکل گئے اور فرعون کے سارے ساتھی فرعون کے ساتھ غرقِ دریا ہو گۓ ، ھم نے جب
فرعون کو دریا بُرد اور بنی اسرائیل کو مُوسٰی کے سپرد کردیا تو بنی
اسرائیل سے کہا کہ اَب تُم نے اُس وقت تک اِسی زمین میں رہنا ھے جس پر
مُوسٰی نے تُم کو پُہنچادیا ھے ، مُستقبل میں ھم جب تُمہاری نشاة ثانیہ کا
فیصلہ کریں گے تو اُس وقت ھم خود ہی تُم کو اُس ھادی اور اُس ھدایت کے قریب
پُہنچا دیں گے جہاں پر وہ ھادی موجُود ہوگا اور اُس ھادی کی ھدایت موجُود
ہو گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیت !
اِس سُورت کا موضوعِ کلام سیدنا محمد علیہ السلام کی وہ متوقع ہجرت ھے جس
متوقع ہجرت کے لیۓ اِس سُورت کی اِس وحی کے بعد آپ نے خود بھی تیاری کرنی
تھی ، اپنے اَصحاب و اَحباب کو بھی تیاری کرانی تھی اور اپنے اَصحاب و
اَحباب کے اُن چھوٹے بڑے مُہاجرین کے قافلوں کو بھی تیار کرنا تھا جن
قافلوں نے وقتاً فوقتاً خود کو دُشمن کی نگاہ سے پوشیدہ رکھ کر مکے سے
مدینے کی طرف وہ بامقصد ہجرت کرنی تھی جو با مقصد ہجرت سخت جان قوموں کو
ایک نئی زندگی دے دیتی ھے اور سہل پسند قوموں سے سابقہ زندگی کی سابقہ
رعنائیاں بھی چھین لیتی ھے کیونکہ ہجرت کسی زندہ قوم کی قومی زندگی کی وہ
آخری آزمائش ہوتی ھے جس سے اُس قوم نے گزر کر اپنے دینی و دُنیوی اِفتخارِ
حیات کی اُس آخری منزل تک پُہنچنا ہوتا ھے جس منزل پر اللہ تعالٰی نے اُس
قوم کو اِس آزمائش سے گزارنے کے بعد کر پُہنچانا ہوتا ھے ، جو جان دار
اَقوام ہجرت کی اِس آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتی ہیں اور ہجرت کے
بعد ہجرت کے مطلوبہ مقاصد بھی حاصل کر لیتی ہیں تو وہ اَقوام ایک شان دار
مُستقبل میں داخل ہو جاتی ہیں اور جو اَقوام ہجرت کے بعد بھی ذہنی اعتبار
سے ہجرت سے پہلے مقام پر ہی کھڑی رہتی ہیں تو اُن مُردہ اَقوام کا زندہ
اَقوام میں کوئی سیاسی و معاشی اور معاشرتی مقام نہیں ہوتا کیونکہ وہ
اَقوام اپنی پہلی اَقوام سے خارج ہو جاتی ہیں اور دُوسری قوم میں شامل نہیں
ہو پاتیں جس کی وجہ سے وہ دونوں طرف کے دونوں رشتوں سے بے رشتہ اور دونوں
طرف کے دونوں راستوں سے بے رستہ ہوکر تنہا ہو جاتی ہیں اور پھر کسی طاقت ور
قوم کی غلامی میں چلی جاتی ہیں ، اِس سُورت کے اِس آغازِ کلام کے بعد آنے
والے کلام میں اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو عالَمِ ہست و بُود
کے وہ آفاقی اصول بتاۓ ہیں جو انسان اور انسانیت درمیان ہمیشہ ہی مُشترک
اور مُحترم اصول رھے ہیں اور اِن سرمدی اصولوں کے بعد بنی اسرائیل کی مزاج
شناسی کی غرض سے اللہ تعالٰی نے آپ کو تاریخِ بنی اسرائیل کے وہ قابلِ ذکر
واقعات بھی سناۓ ہیں جو ہر زمانے کے ہر انسان کے لیۓ قابلِ عبرت واقعات ہیں
اور اَب خاتمہِ کلام کی طرف بڑھتے ہوۓ فرعون و قومِ فرعون اور مُوسٰی و
قومِ مُوسٰی کے درمیان برپا ہونے والے اُس معرکہِ زخیر و شر کا وہ آخری
منظر بھی دکھایا ھے جس میں حق بے وسیلہ ہونے کے باوجُود کامیاب ہو جاتا ھے
اور باطل ہر وسیلہ ہونے کے باوجُود بھی ناکام رہ جاتا ھے ، آغازِ کلام میں
سیدنا محمد علیہ السلام کی جس متوقع ہجرت کا ذکر ہوا ھے اُس متوقع ہجرت کے
مِن جُملہ مقاصد میں جو تین بڑے مقاصد تھے اُن میں پہلا مقصد تو اِس اُمت
کو بھی ہجرت کے اُن آزمائشی مراحل سے گزارنا تھا جن آزمائشی مراحل سے پہلے
بہت سے اَنبیاۓ کرام کی پہلی بہت سی اُمتیں گزر چکی تھیں اور اُن پہلی
اُمتوں نے ہجرت کی تلخیوں کی بعد اللہ تعالٰی کی جو رحمتیں اور راحتیں حاصل
کی تھیں اِس اُمت کو بھی زندگی کی اُن ہی تلخیوں سے گزارکر اللہ تعالٰی کی
اُن ہی رحمتوں اور راحتوں سے فیض یاب کرنا تھا جن رحمتوں اور راحتوں سے
پہلے اَنبیاۓ کرام کی پہلی اُمتیں فیض یاب ہو چکی تھیں ، اِس ہجرت کا
دُوسرا مقصد بنی اسرائیل کے ساتھ کیۓ گۓ اللہ تعالٰی کے اُس وعدے کی تکمیل
تھا جس کا وعدے کا اٰیاتِ بالا کی آخری اٰیت میں ذکر کیا گیا ھے اور اُس
مذکورہ وعدے کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ تُم نے مُوسٰی کی نگرانی میں جو ہجرت
کی ھے اُس ہجرت کے مقاصد کا حصول ہنُوز باقی ھے اِس لیۓ تُم کو اُن مقاصد
کے حصول کے لیۓ مزید وقت دیا جاتا ھے ، اگر تُم نے اِس اضافی وقت میں ہجرت
کے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیۓ تو تُم کو زمین میں ایک شان دار اور باوقار
زندگی دی جاۓ گی اور اگر تُم ہجرت کے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رھے
تو تُمہاری آزمائش کے زمانے کو اُس آخری رسول کے زمین پر آنے کے زمانے تک
بڑھا دیا جاۓ گا ، جس رسول نے آخری رسول بن کر اہلِ زمین کی طرف آنا ھے ،
اگر اُس آنے والے وقت میں تُم ھمارے اُس ھادی سے ھدایت حاصل کر لوگے تو تُم
دُنیا کی مزید ذلت سے بَچ جاؤ گے اور اگر اُس وقت بھی تُم ھدایت سے محروم
رھے تو پھر تُم سے زندگی کا حق تو نہیں چھینا جاۓ گا لیکن تُمہاری زندگی کی
ہر راحت کو پہلے فرعونِ وقت جیسے کسی دُوسرے فرعونِ وقت کے اقتدار سے
وابستہ کردیا جاۓ گا اور تُم اُس زمانے کے اُس فرعون کی غلامی میں رہ کر ہی
زمین پر زندہ رہو گے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اِس وعدے کے مطابق مُوسٰی
علیہ السلام کی اِس قوم کے مُنتشر قبیلوں کو سیدنا محمد علیہ السلام کی
ہجرت سے پہلے ہی مدینہ و اَطرافِ مدینہ اور خیبر و اَطرافِ خیبر میں جمع
کردیا تاکہ جب محمد علیہ السلام ہجرت کے بعد اِس وعدہ فراموش قوم کے درمیان
آئیں تو یہ وعدہ شکن قوم آپ کو پہچان کر آپ پر ایمان لے آۓ اور اِس ہجرتِ
نبوی کا تیسرا مقصد مدینے میں اُس بین الاقوامی اور بین الانسانی حکومت کا
قیام تھا جس کے سایہِ عاطفت میں ہر مذہب و ملت کے لوگ رنگ و نسل اور مذہب و
ملت کی تفریق کے بغیر امن و امان کے ساتھ رہ سکیں اور سیدنا محمد علیہ
السلام نے میثاقِ مدینہ کے نام سے جو عمرانی معاہدہ کیا تھا اُس معاھدے کا
بھی یہی مقصد تھا کہ اِس زمانے کے انسان اِس اسلامی ریاست میں بلا امتیازِ
رنگ و نسل اور بلا تفریقِ مذہب و ملت ایک ساتھ رہ کر آنے والی انسانی نسلوں
کے لیۓ اتحادِ اَدیان اور اتحادِ اَوطان کی ایک قابلِ و تعریف و قابلِ
تقلید مثال بن سکیں لیکن پہلی بَد قسمتی یہ ہوئی کہ اَبناۓ اسرائیل تا دیر
اِس معاہدے کے پابند نہ رہ سکے اور اللہ کے قانونِ مکافات کا شکار ہو کر
تسبیح کے ٹُوٹے ہوۓ دانوں کی طرح زمین میں بکھر گۓ اور دُوسری بَد قسمتی یہ
ہوئی کہ جس اُمت کے نبی نے قُرآن کی یہ حکومت قائم کی تھی وہ اُمت بھی
قُرآن سے دُور ہو کر اللہ تعالٰی کی رحمتوں اور راحتوں سے دُور ہو گئی !!
|