تحریر:مولانا فخرالدین کھوسہ،
ناظم تعلیمات مدرسہ مظہرالعلوم حمادیہ اتحادٹاﺅن ،کراچی
تمام مکاتب ِ فکر دین کے بنیادی عقائد توحید،رسالت ،الہامی کتب،فرشتوں
،آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ پانچوں عقائد اسلام کے بنیادی عقائد ہیں جو
انسان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔اُسے اس کائنات میں اپناصحیح مقام اورحیثیت
یاد دلاتے رہتے ہیں اور وہ یہ بھول نہیں پاتا کہ اس دنیا میں وہ اللہ
تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے آیا ہے۔ جس نے ہر کام اپنے خالق و مالک کی رضا
کے لیے سرانجام دینا ہے۔ یہی نظریات بین الاقوامی سطح پرانسان کوایک دوسرے
کے قریب لانے میں مددگار ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
بنیادی عقائد پر ایمان لانے کے بعد شریعت کے وضع کردہ احکامات کے مطابق
زندگی بسر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جوضروریات دین ہیں۔ ضروریاتِ دین ،دین
کے ان بنیادی اعتقادات کو کہتے ہیں ،جن کا علم ہمیں قطعی اور بدیہی طور پر
ہو، وہ ضروریات دین میں داخل ہیں۔ ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت دینی
کا انکار کرنے والا بھی مسلمان نہیں ہے، چاہے وہ زندگی بھر اپنا سر عبادت
کے لئے سجدے میں رکھے ہوئے کیوں نہ ہو۔
تمام ضروریاتِ دین کا ماننا ایمان ہے اور ان میں سے بعض کا یا کسی ایک کا
انکار کرنا کفر ہے۔توحید ِ باری تعالیٰ ۔ توحیدِ ذاتی ،توحیدِ صفاتی ،نبوت
،قیامت ،نشر،حشر،حساب و کتاب ،وزن اعمال ،میزان،پل صراط ،جنت،دوزخ ،نعمائے
جنت ،عذاب ِدوزخ ،کراماً کاتبین کا سوال و جواب ،قبر میں عذاب و
ثواب،قبر،حوض کوثر۔ان کے علاوہ حلال و حرام کے سلسلے میں سود حرام
ہے،زنا،قتل،شراب ،خنزیر حرام ہے۔ارکان اسلام نماز،روزہ، حج ،زکواة سب
ضروریات ہیں ان کا ثبوت متواتر ہے۔
ان تمام امور میں تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ ہمارافرض ہے کہ اسلام کی صاف و
شفاف چادر پہ جو چند دھبے ہیں انھیں نظر انداز کرتے ہوئے اس کے بے داغ حصے
کو اہمیت دیں۔امت میں چند امور میں اختلافات ہیں۔ جن میں فروعی و نظریاتی
اختلافات ہیں۔فقہی اختلاف کی حقیقت اور اس کا پس منظر جاننے کے لئے چند
امور سے آگاہی ضروری ہے۔قرآن و سنت کی شکل میں احکام ِ شریعت کا جو مجموعہ
امت کو عطا کیا گیا اس کے دو حصّے ہیں،ایک حصّہ ایسے منصوص احکام کا ہے
جنہیں قرآن یا حدیث میں ان کی جزئیات کی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے
۔جیسے ،میراث کے احکام،محرمات خواتین جن سے نکاح حرام ہے۔قصاص کے بعض احکام
وغیرہ دوسرا حصّہ ایسے احکام کا ہے جن میں صرف اصولی ہدایات دی گئی ہیں،یہ
حصّہ بہت بڑا اور وسیع ہے اور یہی فکر و فہم کی جولانگاہ ہے۔تمام مکاتب ِ
فکر کا بنیادی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں۔ہاں فقہی بنیادوں پر فروعی
اختلافات ہیں ۔
مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شریعت کی بنیادی اور اصولی
تعلیمات بالکل واضح اور دو ٹوک ہیں۔جن میں کسی قسم کی پیچیدگی اور جھول
نہیں پایا جاتا۔جن میں توحید و رسالت کا اقرار،عقائد اور امورِ آخرت سے
متعلق چیزیں اور دین کی وہ بنیادی باتیں شامل ہیں جو قطعی دلائل سے ثابت
ہیں ۔ان سے سرِ مو انحراف بسا اوقات انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر کے
کفر و شرک کی حدود میں شامل کر دیتا ہے۔یہ منصوص احکام کہلاتے ہیں۔دوسرے
احکامات وہ ہیں جو شریعت کی جزوی تفصیلات اور فقہا کی تحقیقات ،تدقیقات سے
تعلق رکھتے ہیں ،جنہیں شریعت کی اصطلاح میں "امورِ مجتہد فیہا " کہا جاتا
ہے۔یہ غیر منصوص احکام کہلاتے ہیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے توامور عملی میں فروعی اختلافات کے باوجود بیشتر
امور میں مسلمانوں کے مابین اتفاقِ رائے ہے ۔یہ اتفاق معاملات اور معاشرتی
و سماجی امور میں تو بہت زیادہ ہے ۔مثلاً سود ،شراب اور زنا کی حرمت پر سب
کا اتفاق ہے۔عبادی امور میں بھی نماز ،روزہ ،حج اور زکواة وغیرہ کے وجوب پر
سب کا اتفاق ہے ۔عقائد میں بھی بنیادی امور پر اتفا ق ہے۔قرآن حکیم پر سب
کا اتفاق ہے ۔کعبۃ اللہ کا سب احترام کرتے ہیں۔پھر اختلافی امور پر ہی بات
کیوں کرتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و
اعتقادی قدریں سب مشترک ہیں۔اسلامی عقائد کا سارا نظام انہیں مشترک بنیادوں
یعنی توحید،رسالت،ختم نبوت،آخرت،قرآن اور وحدت کعبہ پر کھڑا ہے-مسلمانوں کی
نہ صرف عقائد و اعمال کی ساری بنیادیں مشترک ہیں بلکہ ارکان اسلام نماز،
روزہ، زکٰوۃ، حج وغیرہ قواعدِ اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر
اس کا اثر، قواعدِ اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا
اثر،بھی مشترک ہیں ۔اگر کہیں اختلاف ہے تو وہ محض فروعی ہے-جس کو نظر انداز
کر کے متحد ہوناممکن بلکہ بڑا آسان ہے۔
دین کے مشترک اہداف سب کے نزدیک اہم ہیں اور وہ یہ اہداف ہیں :
• دین کے لیے دعوت دینا۔
• دین کے کلمے کو بلند کرنا۔
• دشمنوں کی سازشوں کی تردید کرنا۔
الغرض ،بین المسالک ہم آہنگی کانقطہ آغاز تنوع کو سمجھنا اور اس کا احترام
ہے۔ الزام و التزام کے کلچر نے اس خطے کے مسلمانوں کو مسلکی جنگ میں جھونک
دیا ہے۔علم و دلیل کی بجائے جبر،دھونس ،گالی اور گولی کی زبان نے تنوع کی
نفی کا عملی ثبوت دیاہے۔ اگر ہم ایک خوشحال، پُر امن اور مستحکم پاکستان کا
خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو تنوع میں جینے کے درس کو عام کر کے ہی پُرامن
بقائے باہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے
|