کیا آپ جانتے ہیں کہ بندر کیسے پکڑے جاتے ہیں؟ شکاری ایک
بوتل کے اندر مونگ پھلیاں ڈال کر اس کو زمین میں گاڑ دیتے ہیں۔ جیسے ہی
بندر بوتل کے اندر ہاتھ ڈال کر اپنی مٹھی میں مونگ پھلیاں پکڑتا ہے، فورا
پھنس جاتا ہے۔ بندر چیختا چلاتا ہے، اپنا پورا زور لگا دیتا ہے لیکن اپنا
ہاتھ باہر نہیں نکال پاتا۔ اس کو اتنا بھی علم نہیں ہوتا کہ اسے صرف اپنی
مٹھی کھول کر مونگ پھلیاں چھوڑ دینی ہیں اور مٹھی کھلتے ہی اس کا ہاتھ باہر
آجائے گا اور وہ آزاد ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح دنیا بھی آپ کو نہیں پکڑتی،
آپ خود اس کی قید میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ہماری دولت، رشتے، ہماری انا ہمیں
اپنی طرف نہیں کھینچتے، ہم خود اپنی مرضی سے، جدائی کے خوف کے دھاگے سے
بندھے ان کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔
ایک اورمثال لیجئے۔۔۔ کچھ بچے دنیا میں جڑے ہوئے پیدا ہوتے ہیں، کچھ
کیسراورکچھ کے دھڑ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی
ہے کیونکہ کوئی بھی کام دوسرے کو شامل کئے بغیر نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے
کہ ان کے مستقبل کے لئے، ان کی نشو نما کے لئے دونوں کو سرجری کے ذریعے
علیحدہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو ہے جسمانی جوڑ جوکسی کسی میں ہوتا ہے۔ لیکن ایک
جذباتی جوڑ یا لگاؤ بھی ہوتا ہے جو ہم سب میں ہوتا ہے۔ چیزوں سے لگاؤ، دولت
سے لگاؤ، لوگوں سے لگاؤ رشتوں سے لگاؤ، خود سے لگاؤ، اپنی انا سے لگاؤ۔
اور ایک دفعہ اگر آپ کسی سے جذباتی طور پر جڑ جائیں،توآپ اس سے توقعات
رکھنا شروع کر دیتے ہیں، اس پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں، ان کے بن کر
رہ جاتے ہیں۔ اور یہیں سے یہ جوڑ، یہ لگاؤ مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ یہ آپ
کو کسی دوسرے کا غلام بنا دیتا ہے،پھنسا لیتا ہے۔ آپ دوسروں کی وجہ سے
ڈسٹرب ہو جاتے ہیں، فکر مند ہو جاتے ہیں، دوسروں کو خوش کرتے کرتے اپنے آپ
کو کھو دیتے ہیں۔
لیکن علیحدہ ہو جانے میں، جسے آپ انگریزی میں ڈی ٹیچمنٹ کہتے ہیں، آپ اگر
دوسروں کو کھو بھی دیں تب بھی خود کو پا لیتے ہیں۔ اس علیحدگی کا مطلب تعلق
ختم کرنا نہیں، قطع رحمی نہیں، خود غرضی نہیں، بے پروا ہونا نہیں، ذمہ
داریوں سے فرار نہیں بلکہ آزادی ہے، خود مختاری ہے۔، دوسروں کا خیال رکھنا
ہے لیکن اس طرح کہ اپن ذات متاثر نہ ہو، دوسروں کو جوڑتے جوڑتے خود نہ ٹوٹ
جائیں۔
اس علیحدگی کا مطلب ہے آپ خدائی کی نہیں بلکہ خدا کی ملکیت ہیں۔ یہ علیحدگی
ایک ایسی آزادی ہوتی ہے جس میں آپ کی عقل آپ کے جسم پر اور آپ کے جذبات،
رشتوں اور فیصلوں پر حاوی ہوتی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ کو إحساس ہوتا ہے کہ آپ محض جسم نہیں۔ آپ کردار
نہیں۔ آپ محض ایک رشتہ نہیں، آپ صرف والدین، أولاد یا شریک ِ حیات نہیں اور
اس لمحے آپ توقعات رکھنا چھوڑ کر حالات اور واقعات کو قبول کرنا شروع کر
دیتے ہیں اور جو کچھ بھی آپ کے ساتھ یا آپ کے اطراف میں ہوتا ہے، آپ۔۔۔اپنا
آپ اس سے متاثر نہیں ہونے دیتے۔
اس کا مطلب ہے کہ آپ دنیا میں رہتے ہیں، دنیا آپ میں نہیں رہتی۔ اس علیحدگی
کا مطلب رببانیت نہیں، گوشہ نشینی نہیں بلکہ آپ اس زندگی کو ایک امتحان اور
اس دنیا کو ایک میدان ِجنگ کے طور پر قبول کرتے ہیں، اپنا کردار بھی ادا
کرتے ہیں۔ یہ علیحدگی آپ کو ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے آپ
کسی بھی سچویشن کو، اسٹیج پر جاری ڈرامے میں شامل ہوئے بغیر، غیر کی نظر
سے، ایک مہمان کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں۔ اور پھر آپ کے ساتھ اور آپ کے
اطراف میں کیا ہورہا ہے، اس حوالے سے جذباتی نہیں بلکہ عقلی فیصلے کر سکتے
ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کنول کا خوبصورت پھول جو گندگی، کیچڑ اور
دلدل سے ہی اگتا ہے مگر ان پست چیزوں سے بہت بلند ہو کر، گندگی کو نیچے
چھوڑ کر، کیچڑ کو پیچھے چھوڑ کر الگ ہی اپنی خوبصورتی کی بہار دکھاتا ہے۔
سچ پوچھیں تو اس دنیا سے لگاؤ آپ پر گھاٹے کا، نقصان کا، موت کا خوف پیدا
کر دیتا ہے۔۔۔
موت کا وقت، دم نکلنے کے لمحات اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں؟
کیونکہ اس وقت ہمیں ایک ساتھ، ایک دم سے سارے رشتے توڑنے پڑتے ہیں، سارے
تعلقات کاٹنے پڑتے ہیں، پوری زندگی کی کمائی ایک پل میں اور وہ بھی زبردستی
چھوڑنی پڑتی ہے۔ لیکن اپنی زندگی میں ہی علیحدہ ہوجانے کا مطلب ہے اپنی موت
سے پہلے ہی مر جانا۔ سو جب آپ واقعی اس دنیا سے جائیں گے تو پہلے سے ہی
اپنا بوجھ ہلکا کر چکے ہوں گے۔
اس علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ساری توقعات اب خدائی سے نہیں بلکہ صرف
اور صرف خدا سے ہیں، اور آپ خود کو مکمل طور پر خدا کی مرضی کے سپرد کر چکے
ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ ڈی ٹیچمنٹ، یہ روحانی علیحدگی ہوتی کیسے ہے؟
یہ علیحدگی اچانک نہیں ہوتی، دھیرے دھیرے ہوتی ہے، علم اور آگہی کے ذریعے
ہوتی ہے یعنی اپنی زندگی سے آگہی، خود سے آگہی، اس دنیا میں آنے کے مقصد سے
آگہی، اوراس دنیا میں ہماری موجودگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہماری زندگی کے
سفر کے ہر موڑ، ہر مرحلے پر ہمارا امتحان لیا جائے۔، ہماری آزمائش کی جائے
تا کہ ہماری روحانی ترقی ہو سکے۔ ہرہونے والا امتحان، اور آزمائش ہمارے
وجود کے حساس پہلووں پر دباؤڈالتی ہے، ہماری دولت، صحت، رشتے، انا، سب کا
امتحان لیا جاتا ہے تا کہ ہم ان سب سے علیحدہ ہو سکیں، ان کمزوریوں سے آزاد
ہو سکیں۔ حقیقیت میں فانی دنیا میں رہتے ہوئے اس سے علیحدہ ہو جانے کا مطلب
ہی خدا سے لو لگا لینا ہے، یعنی اِس فانی دنیا سے اُس باقی، لافانی جہان کی
طرف واپسی اور ایسا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب خود کی ساری توقعات خدائی سے
نہیں بلکہ صرف خدا سے وابستہ ہوں۔
آپ کبھی ان دونوں جہانوں کے بیچ میں نہیں ہو سکتے، یا تو دنیا سے جڑ سکتے
ہیں یا دنیا بنانے والے سے۔ جب آپ کی اپنی کوئی مرضی نہیں رہتی تو پھر صرف
اللہ کی رضا رہ جاتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان اس فانی دنیا سے
ناطہ توڑ کر اس لافانی جہان کی راہ میں فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
|