اسوقت پوری دنیا بالعموم اور وطن عزیز پاکستان بالخصوص
کورونا کی تیسری لہر کی زد میں ہےکورونا سے متاثرین اور مریضوں کی تعداد دن
بدن بڑھ رہی ہے اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ،کورونا سے بچنے
کیلئے احتیاط کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن اب اس میں احتیاط کی اور زیادہ
ضرورت ہے ۔ایسے موقع پر ایک مسلمان کیلئے سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف
رجوع کرنا ،اپنے اعمال کی اصلاح کرنا اورتوبہ واستغفار کرنا ضروری ہو جاتا
ہے کیونکہ بیماری دینے والا بھی اللہ ہے اور شفا بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں
ہے۔اب اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کورونا بیماری کے اسباب کیا ہیں ؟۔
یہ کوئی خدائی بیماری ہے یا مصنوعی وائرس ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ یہ وائرس
موجود ہے اور بہت خطرناک ہے لہٰذابہتر یہی ہے کہ اس وائرس سے بچاؤ کیلئے
احتیاط کا پہلو اختیار کیا جائے۔بعض لوگ اب بھی اس وائرس کی حقیقت اور
موجودگی کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس بحث میں الجھے نظر آتے ہیں کہ
ایک سے دوسرے کو بیماری لگنے کے کوئی چانس نہیں ہوتے اور کوئی بھی بیماری
متعدی نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ہمارا دین اس
سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتاہے،نبی مہربان ﷺ کی تعلیمات وہدایات کیا
ہیں؟اس کی قدرےتفصیل پیش کی جارہی ہے۔
بیماریوں کےمتعدی ہونے یا نہ ہونے،بیماری کےایک سے دوسرے کی طرف منتقل
ہونےکے متعلق قرآن پاک میں صراحتاً تو کوئی بات بیان نہیں کی گئی البتہ
طاعون کو عذاب خداوندی "رجز" سے تعبیر کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک
گروہ پر بھیجا گیا تھا اس سے ایک درجہ میں متعدی ہونے کا اشارہ ملتا ہے
البتہ احادیث میں اسکا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ احادیث دونوں طرح کی
ہیں، بعض احادیث میں تعدیہ مرض کی مطلقاًنفی کی گئی ہے اور بعض میں کچھ
امراض کے متعدی ہونے کی صلاحیت بیان کی گئی ہے۔ جو روایات نفی کرتی ہیں وہ
عام طور پر "لاعدوی" کے لفظ سے وارد ہوئی ہیں مثلاً:
حضور سرور دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا :اسلام میں نہ تو تعدیہ ( امراض
کےمتعدی ہونےکا جاہلی نظریہ) ہے اور نہ بد روح کا نظریہ ہے اور نہ ہی صفر
کے مہینےکے منحوس ہونے کا جاہلی نظریہ ۔ایک بدوی نے کہا یا رسول اللہﷺ یہ
کیا معاملہ ہے کہ کچھ اونٹ ریت میں ہرنوں کی طرح صاف ستھرے ہوتے ہیں ان میں
ایک خارش زدہ اونٹ آملتا ہے تو دوسرے تمام اونٹوں کوبھی خارش زدہ کر دیتا
ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا توپھرپہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی؟۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ایک مجذوم زدہ شخص
کا ہا تھ پکڑا اور اپنے ساتھ اسکو کھانے کے برتن میں داخل کر دیا اور کہا
اللہ کے نام پر توکل و اعتماد کرتے ہوئے کھاؤ۔
اس کے برعکس جن روایات سے امراض کا متعدی ہونا معلوم ہوتا ہےیا اس کی طرف
اشارہ ملتاہے وہ یہ ہیں ۔
"حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :کہ بیمار صحت مند کے پاس نہ لایا جائے "ایک اور
جگہ ارشاد فرمایا :مجذوم زدہ شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو،
مجذوم زدہ شخص سے ایک یا دو نیزوں کے فا صلے سے گفتگو کرو ۔
قبیلہ بنو ثقیف کےوفدمیں ایک مجذوم زدہ شخص بھی تھا حضور ﷺنے اسے پیغام
بھیجا کہ ہم نے تمھیں (دور سے)بیعت کر لیا ہے لہٰذا تم واپس لوٹ جاؤ۔
حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلانیؒ ان دونوں قسم کی احادیث ذکر کرنے کے بعد
ان میں اس طرح تطبیق دیتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ فاسد عقیدہ
تھا کہ بیماریاں خودبخود طبعاًولازماًایک سےدوسرے میں منتقل ہوتی ہیں، اس
میں اللہ رب العزت کی قدرت و اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ۔اس باطل
عقیدے کی تردید کرنے کیلئے حدیث میں کہاگیا "لا عدوی ولا طیرہ"
اور جن روایات سے امراض کے متعدی ہونے کا ثبوت ملتا ہے وہ بدرجہ سبب کے ہیں
ان کا منشا صرف یہ ہے کہ اسباب کے درجے میں تعدیہ بیماری کا سبب و ذریعہ بن
سکتا ہے بہرحال یہ مشیت خداوندی کے تابع ہے اور اکثر اہل علم کی یہی رائے
ہے۔
امام نوویؒ نے مزید اسکی وضاحت کی ہے ۔
"یہ جو ہم نے دونوں حدیثوں کا صحیح ہونا اور ان دونوں کے درمیان تطبیق کی
صورت کا ذکر کیا ہے یہی صحیح اور اسکا قابل قبول ہونا متعین ہے"
ہمارے زمانے میں بہت سے امراض کامتعدی ہونا فکرو نظر سے بڑھ کر مشاہدہ بن
چکا ہے اور اسلام کی تعلیمات مشاہدہ کیخلاف نہیں ہو سکتی اس لئےصحیح یہی ہے
کہ بعض امراض جراثیم کے ذریعہ متعدی ہوتے ہیں البتہ یہ صرف اسباب کی حد تک
ہوتا ہے، بذات خود امراض متعدی نہیں ہوتے لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنا
خصوصاً وبائی بیماریوں میں درست ہے، اسلام اس سے منع نہیں کرتا اور یہ
تدابیر اس عقیدہ کے خلاف بھی نہیں ہیں کیونکہ یہاں بھی یہ اعتقاد رکھنا
ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر(یعنی بیمار کے بستر وغیر ہ الگ رکھنا یا حفاظتی
ٹیکے لگوانا ) سب اپنے مؤثر ہونے میں حکم خداوندی کے محتاج ہیں کہ جب تک
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے یہ احتیاطی تدابیر مفید اور باعث حفاظت ہیں اور جب
حق تعالیٰ کو بیمار کرنا ہی مطلوب ہوگا توتمام تدابیر خاک میں مل جائیں گی
اور آدمی بیمار ہو جائیگا جسکا بکثرت مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔اللہ رب العزت
پوری انسانیت کواس وباءسےبچائے۔آمین
|