ملک کے اندر جو سب سے اہم موضوع دوبارہ بن گیا ہے وہ
(Covid-19)کورونا کے نام سے معروف وبا ہے۔ پاکستان میں پھر اس میں شدت آئی
ہے البتہ جس طرح دنیا میں شدت ہے اس طرح کی اب بھی نہیں آئی یا پاکستان میں
جیسے پچھلے سال مارچ سے جولائی اگست تک جو شدت بڑھی تھی، وہ ابھی بھی نہیں
لیکن دوبارہ سے پھر جو لوگ مریض ہورہے ہیں اور ان وائرس میں مبتلا ہورہے
ہیں ان کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہسپتالوں کی طرف مریضوں کا رجوع زیادہ ہورہا
ہے، ہسپتالوں کی ظرفیت بھر چکی ہے،مزید مریض لینے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے
اگرچہ پہلے ہی یہ نظام بہت ضعیف و کمزور تھا اور پاکستان نے باقاعدہ اس سے
مقابلہ کے لیے کوئی انتظام بھی نہیں کیا چونکہ ہماری حکومت کے پاس فرصت ہی
نہیں ہے، ان کے ذہن پر اپوزیشن سوار ہے کہ کہیں ہم سے یہ حزب مخالف اقتدار
چھین نہ لے لہٰذا ان کی ساری دن رات کی اور مادی معنوی توجہ اپوزیشن کی طرف
ہے اور ملکی معیشت، ملک میں وبا و بیماریاں اور صحت و سلامتی وغیرہ کی
ثانوی بلکہ ثالثی ترجیحات میں بھی ان کی حیثیت نہیں ہے۔ اس وبا کے بارے میں
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیامیں وبا کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے
جیسے پہلے بھی اشارہ ہوا تھا (کہ اگر آپ کو سابقہ سال کی گفتگو یاد ہو یا
اسے دوبارہ سنے ) وہاں بیان ہوا تھا کہ پہلا مرحلہ اس وبا کا پھیلاؤ اور
خوف ہے اور اس کے پھیلاؤ اور خوف سے مقاصد حاصل کرنا ہے جس میں وبا بنانے
والوں اور پھیلانے والوں کو کامیابی ہوئی ہے انہیں ،اس سے جو فائدے اٹھانے
تھے وہ اس سے بھرپور طریقے سے اٹھا لیے ہیں، اس مرحلے کے سارے فائدے مکمل
ہوچکے ہیں ۔اب دوسرا مرحلہ اس وبا کی روک تھام کے لیے ویکسین ہے یعنی وہ
انجکشن یا دوا جس سے یہ جرثومہ و وائرس بے اثر ہوجائے اور لوگ اس کے اثر سے
محفوظ ہو جائیں، خوب اس ویکسین کے لیے پورا ایک سال انتظار کروایا گیا اور
لوگوں کی توقع اور خوف بڑھایا گیا کہ ویکسین آئے گی تو پھر ہی یہ بیماری
رکے گی اور وہ ویکسین بھی دنیا میں آگئی ہے اور اس وقت وبا سے زیادہ اس
ویکسین کا چرچا ہے۔ یہ دوا جو بیماری سے بچنے کے لیے ہے یہ خود بہت
تشویشناک بن گئی ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ باتیں پھیلی ہوئی ہیں ومشہور
ہیں اور جس طرح وبا کے بارے میں کوئی مصدقہ بات نہیں بتائی گئی اسی طرح
ویکسین کے بارے میں کوئی مصدقہ بات لوگوں کو نہیں بتائی گئی بلکہ لوگوں کو
جان بوجھ کر ایسی تشویش اور تردید میں رکھا گیا ہے تاکہ لوگ اس ویکسین کے
مرحلے میں بھی اسی تشویش کا شکار ہوں جو پہلے وبا کے مرحلے میں تھے اور
کمپنیاں جنہوں نے وبا پھلائی ہے اور پھلانے میں مدد دی ہے، وہ اب ویکسین کے
مرحلے سے بھی مالی، مادی، سیاسی اور ہر قسم کا استفادہ کریں جو بھرپور
طریقے سے کر بھی رہے ہیں۔یہ ویکسین دنیامیں خود ایک مستقل موضوع ہے جو اس
وقت دنیا میں ایک علاج سے زیادہ ایک سیاسی موضوع بنا ہوا ہے۔ جس طرح وبا کے
بارے میں ہماری حکومت اور عوام نے کوئی ٹینشن نہیں لی اسی طرح ویکسین کے
بارے میں بھی ان کی کوئی خاص ٹینشن نظر نہیں آتی جس طرح دنیا تشویش ہے ویسی
پاکستان میں نہیں ہے ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے فوراً اعلان کیا کہ ہم
نے یہ ویکسین بنالی ہے اور لوگوں نے خریدنا بھی شروع کردی حتیٰ کچھ ایڈوانس
خریدداری بھی ہوگئی لیکن پاکستان نے نہ ایڈوانس خریدا، نہ آڈر دیا اور نہ
ان کا کوئی خریدنے کا امکان ہے۔جس طرح وبا کے مرحلے میں ماسک چہرے کے لیے
ضروری قرار دیے گئے، میڈیا ، حکومتی بیانیے، تلقینات اور ڈاکٹروں کی بھی
یہی نصیحت و وصیت تھی کہ ماسک کا استعمال کریں۔ماسک کا استعمال وبا کے
علاوہ بھی بہت مفید ہے چونکہ خصوصاً لاہور شہر ہوا کے لحاظ سے دنیا کا
دوسرے نمبر پر آلودہ شہر ہے، اس کی ہوا بہت آلودہ ہے، ا س کے اندر گندگی ہے
جس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں سیوریج سسٹم نہیں ہے، گٹراور ٹوائلٹ کا گندا
پانی کھلے نالوں میں بہتا ہے، اسلام آباد میں یہ سیوریج سسٹم ہے جبکہ لاہور
اور کراچی میں یہ گندگی کھلے نالوں میں پھیلتی ہے، یہ ایک بڑی وجہ ہے اس کے
علاوہ لاہور میں آلودگی پھیلانے والی بہت ساری صنعتیں اور کارخانے شہر کے
اندر ہیں جن کے لیے کوئی قانون نہیں ہے کہ انہیں شہر سے باہر نکالا جائے،
ٹریفک کے لحاظ سے لاہور کی گنجائش سے زیادہ لاہور کے اندر گاڑیاں چلتی ہیں
جس کی وجہ سے گندگی بہت زیادہ ہے، ہوا میں آلودگی کاربن بنتی ہے، اسی طرح
آلودگی پھیلانے والے اور بہت سارے منابع ہیں جن سے یہ آلودگی پھیل رہی ہے،
یہاں گرد و غبار بہت ہے، لاہور کے ارد گرد جو زرعی علاقے ہیں وہاں فصلیں
جلتیں ہیں جیسے اس دفعہ سردیوں اختتام پر فروری کے مہینے میں جو زہریلی
دھند پھیلی تھی جسے یہاں سموگ کہا جاتا ہے، یہ اسی آلودگی کی ہی علامت ہے ۔
دلی انڈیا کا شہر جو لاہو سے تھوڑے فاصلے پر ہے، اگر گاڑی پر جائیں تو چند
گھنٹو ں میں پہنچ جاتے ہیں ، میرے خیال سے لاہور سے اسلام آباد دیر سے
پہنچے گیں جبکہ دہلی جلدی پہنچ جائے گیں کیونکہ دونوں شہر بہت قریب قریب
ہیں،دہلی سب سے پہلے نمبر پرہے سب سے آلودہ شہرہے آب وہواکے لحاظ سے
اورلاہور دوسرے نمبر ہے۔لہٰذا وبانہ بھی ہوتوبھی ماسک اپنی زندگی کاحصہ
بنالیں ،باقی آلودگی سے آپ کوماسک بچاتاہے ،ٹی بی اسی گندی فضا سے ہوتی
ہے،ہیپاٹائٹس ہے وہ بھی اسی گندی فضاکی وجہ سے ہوتاہے اوربہت ساری بیماریاں
اس سے پھیلتی ہیں لہٰذا ماسک کا استعمال کریں۔ ماسک کے لیے وباکے دنوں میں
خود حکومتی عہدیداروں نے ماسک کے ذریعے سے بے تحاشا پیسہ کمایاہے ،عام
لوگوں کے لیے بند کردیا ،ماسک نہیں منگوا سکتے ،ہم نے خود منگوائے ہسپتال
کے لیے چونکہ قرنطینہ سنٹر بنایا،اس کے لیے باہر سے ماسک منگوائے تھے
جوابھی تک کسٹم میں پڑے ہوئے ہیں، ابھی تک انہوں نے ہمیں نہیں دیئے چونکہ
قانون میں ہے کہ کوئی بھی پرائیویٹ شعبہ ،نجی شعبہ یہ نہیں منگوا سکتا۔اسی
طرح سے جو مشینیں باہر سے منگوائی گئیں وہ ابھی تک نہیں ملیں،دوسروں نے بھی
اسی طرح سے دیکھا دیکھی کام کیالیکن نہیں ہواچونکہ حکومت کے اندر
ایسامافیاہے جنہوں نے ان موقعوں سے تجارتی فائدہ اٹھاناہوتاہے اورانہوں نے
وباء کے مرحلے میں اربوں روپے اورکروڑوں ڈالر کمائے ہیں۔یہی کام اب ویکسین
کے مرحلے میں بھی انجام دے رہے ہیں ۔ |