ڈھکوسلی باتیں چھوڑیں۔۔۔۔

اداریہ :مصلیحت کے نام پراب تک سیاست کی جارہی تھی لیکن اب شریعت کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کرنے کے بعد ہمارے اہل علم حضرات بڑے بڑے اسٹیجوں سے محض یہ پیغام دیتے ہیں کہ اسلام امن کا پیغام ہے، اس امن کے پیغام کو پیش کرنے کیلئے اتنے بڑے جلسے منعقد کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ سب سے بڑا سوال ہے۔ کیا ساڑے 14 سوسال سے مسلمان جنگ ہی لڑرہے ہیں جو یہ اب کہنے کی نوبت آئی ہے کہ اسلام امن کا پیغام ہیں اورکہہ بھی تو کہاں کہہ رہے ہیں اپنوں کے درمیان ؟ ، کیا کبھی کسی مٹھ، مندر یا گرجا گھر میں، انکے محلوں میں، انکی زبان میں اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے؟، نہیں ہم نے ہمارے مسجد کے ممبر ومحراب ، ہم نے ہمارے محلوں کے میدانوں میں لگنے والے اسٹیجوں میں کھڑے ہوکر چلا چلا کر کہتے ہیںکہ اسلام امن کا پیغام ہے۔ آخر کیا ضرورت آن پڑی کہ ہم اپنے امن وبھائی چارے کے پیغام کو دوسروںتک پہنچانے کیلئے اتنی محنت کرنی پڑرہی ہے، ویسے بھی ہم نے سلطنت عثمانیہ اور مغل دور قائم کرنے کے بعد کونسی خلافت قائم کی ہے، کونسی حکومت ہمارے ماتحت ہے، جن مسلم ممالک و حکومتوں کی ہم بات کرتے ہیں وہ بھی یہود ونصاریٰ اورعیسائیوں کے اشاروں پر کام کرنے والی حکومتیں ہیں۔ رہی بات بھارتی مسلمانوںکی ہم نے رفتہ رفتہ ایم پی وایم ایل اے کی ٹکٹ کی قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ اب کارپوریٹر اورکونسلر کے ٹکٹ کی بھی قربانی دینا شروع کرچکے ہیں۔ ملک میں جسطرح سے مسلم اہل علم حضرات اورمسلم تنظیمیں حکمت کےنام پر بزدلی کا مظاہرہ کررہے ہیں، اسکی مثال شاید ہی تاریخ کے کسی صفحہ پر ملتی ہوںگی۔ کورونا کا اعلان ہوا سب سے پہلے مسجدیں ہم نے بند کردی، لاک ڈائون کا اعلان تو سب سے پہلے ہم نے نمازیں ترک کردی ، پھر کورونا کی وباء کی ہوا میڈیا میں چلنے لگی تو مسلمانوں نے مسجدیں، قبرستان اور خانقاہیں بندکرنے کیلئے تیاریاں کردی ۔ یہ قانون کی پاسداری ہے یا عبادتوں سے چوری ہے اسکا اندازہ نہیں ہورہا ہے۔ یہ قوم تو زندان میں نمازیں پڑھنے والی، یہ قوم تو سجدوںمیں سرکٹانے والی مانی جاتی تھی، لیکن وباء کے نام پر جو دغا دیا جارہا ہے اس پر بنا تحقیق، بنا سوال کئے کس بنیاد پرکورونا کے احکامات کو آنکھیں بند کرکے ماننے کیلئے تیاری کی جارہی ہے۔ جب کورونا میں آئی سولیشن سنٹر بنانے کی بات کہی گئی تو مسلمانوں نے سب سے پہلے فراغ دلی کا مظاہرہ کیا، ہم نے تو مدرسوں ، شادی محلوںاور یہاںتک کہ مسجدوں کو بھی آئی سولیشن سنٹر بنانے کیلئے تجویز پیش کردی اوریہ سوچا کہ شاید اب تو مسلمانوں پر رحم ہوگا ، کرم ہوگالیکن نہیں اغیار مسلمانوں کو آزمارہے ہیں اورہم سخت جواب دینے کے بجائے انکی چالوں میں پھنستے ہی جارہے ہیں، کورونا کے تعلق سے 56 اسلامی ممالک میں کیا تحقیق ہوئی یہ کوئی نہیں بتا سکتا ، لیکن 56 ممالک نے کورونا کے دوران مسجدیں بند کرنے کا فیصلہ ضرور کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان تاقیامت تک اس بات کو ہی ثابت کرتے رہیں گہ کے اسلام امن کا مذہب ہے۔ یہ مذہب امن کے راستے دنیا میں پھیلا نہ کہ جنگ کے راستے میں آخر تم سے سوال کون کررہا ہےکہ تمہار امذہب امن کا ہے یا شدت کا؟۔اسلام صرف امن کا ہی نہیں ، اخلاقیات کا بھی مذہب ہے، صحیح تجارت کا بھی مذہب ہے، خوش اخلاقی وخوش مزاجی کابھی مذہب ہے، جھوٹی گواہی دینے سے بچنے کا بھی مذہب ہے، تقویٰ کا بھی مذہب ہے، سود سے پاک رہنے کا بھی مذہب ہے، زنا الجبراورشراب نوشی سے بچنے کا بھی مذہب ہے، جہیز سے پاک نکاح کرنے کابھی مذہب ہے، مہر کوبروقت ذوجیت میں لینے کا بھی مذہب ہے،طہارت وپاکیزی کابھی مذہب ہے، اس پر کب تقریرں ہوںگی اوراس پر کب لوگوں میں بیداری لائی جائےگی، پچھلے 700 سالوں میں نہ ہم نے کوئی غزوا کیا نہ کوئی جہاد کیا، جب جہاد کی بات آئی تو کہا گیا کہ جہادبالنفس کا اعلان کیا گیا اورکہا گیا کہ ہمیں تو اب نفس سے لڑنے کی ضرورت ہے، فی سبیح اللہ کا وقت ابھی نہیں آیا ، مان لیں کہ ، فی السبیح للہ کا وقت ابھی نہیں آیا ، لیکن بالنفس پر کتنا کام ہوا اس کا جائزہ لیا جائے، آج بھی ہم سود پر لین دین کرنے والوں میں سے ہیں، آج بھی ہم ہماری تجارت پاک نہیں ہے، نکاح مشکل اور زنا آسان ہوگیا، مہر کم جہیز زیادہ ہوچکا ہے، ولیمہ کا کھانا مختصر اورشادی کا کھانا بڑے پیمانے پر ہوچکا ہے۔ شراب کو الکوہلیک اورنان الکوہل کا نام دے کر استعمال کیا جارہا ہے۔ بچوں کو بری عادتوں سے چھٹکارہ دلوانے کے بجائے انہیں مغربی طرز پر لے جایا جارہا ہے، تو ہم کونسی راہ پر ہیں یقیناً آج ہم امن کے علمبردار ہیں اسی لئے ہمارے گھروں سے لاشیں اٹھنے کے باوجود بدلے کیلئے تلواریں یا قانون کا سہارا لینے کے بجائے مغفرت کی دعائوں کیلئے ہاتھ اٹھ رہے ہیں۔ امن ، حکمت اورپاسداری کے ڈھکوسلی باتوں کو چھوڑیں اوراصل ایمان کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کریں تب جاکر شاید کوئی تبدیلی آئےگی۔

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.