ہم مغرب زدہ یا مغرب گزیدہ لوگوں نے ان کے ہر عمل کی
پیروی کرنا اپنا اہم ترین فریضہ بنا لیا ہے. ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں
ایسے منزل کے مسافر بننا چاہیے جس کے اختتام پر ہمارے عمل ہمیں رسوائی سے
بچانے کا موجب بنیں نہ کہ ہماری شناخت ہی مٹ جائے مگر اس کے برعکس ہم اپنی
مذہبی روایات کو چھوڑ کر ہمیشہ غلط راستہ اپناتے ہیں اور اس کے لیے بڑی بڑی
تاویلیں پیش کرنے میں بھی ماہر ہیں. مغربی اقدار سے منسلک کوئی بھی اچھا یا
برا عمل ہو اسے اختیار کرنے میں ہم ذرا بھی دیر نہیں لگاتے. دوسروں کے
دیکھا دیکھی غلط روایات کو فروغ دینا اور اپنے اوپر لاگو کرنا ہمارا فرض بن
چکا ہے. یہ جانے بغیر کہ ایسے افعال کے پیچھے کیسی کیسی بہیمانہ تاریخیں
پوشیدہ ہیں. ایسے ہی چند تہوار, جیسے اپریل فول, بسنت, بلیک فرائی ڈے,
ویلینائن ڈے, ہیلوئن اور ہیپی نیو ائیر جیسے تہوار اب ہماری ثقافت کا حصہ
بنتے جارہے ہیں.
اپریل کی مناسبت سے بات کی جائے تو اپریل فول بھی ایک ایسی ہی رسم بن چکی
ہے جسے ادا کرنا بہت سے ناقص العقل لوگ اپنا اہم ترین فریضہ سمجھتے ہیں اور
ہر سال اپریل کی پہلی تاریخ کو دوسروں کو عملی یا زبانی طور پر بے وقوف
بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں. اسے ہم معمولی مذاق کا نام دیتے ہیں مگر
حقیقت میں یہ جھوٹ کا ہی دوسرا نام ہے اور جو بات جھوٹ پر مبنی ہو وہ درست
کیسے ہوسکتی ہے. جب کہ اس کی تو ہمارے مذہب میں بھی سختی سے ممانعت ہے.
البتہ بے ضرر مذاق کی مثالیں اسلامی حوالے سے بھی ملتی ہیں لیکن وہ مذاق
جھوٹ سے مبرا ہوتے تھے. جھوٹ کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ اس کا اختتام
ہمیشہ نقصان پر ہی منتج ہوتا ہے. پھر چاہے یہ نقصان جھوٹ بولنے والے کو
پھگتنا پڑے یا پھر جس سے بولا گیا ہو. اس روایت کی مناسبت سے بولا گیا جھوٹ
معمولی نوعیت کے مذاق سے لے کر انتہائی درجے تک بھی ہو سکتا ہے جس سے مالی
اور جانی نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے. اکثر اوقات کچھ لوگ سنگین نوعیت کے
جھوٹ بول کر اپریل فول منانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے
افراد اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.
اپریل فول منانے سے پہلے اس کی بھیانک تاریخ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے. اس
کی ابتدا یورپ سے شروع ہوئی جو اب تقریباً پوری دنیا میں رواج پاچکی ہے.
وکیپیڈیا کی رو سے سولہویں صدی عیسویں تک یورپ اور ایران میں نیا سال اپریل
میں شروع ہوتا تھا اور یکم اپریل کو سب نئے سال کی خوشی میں ایک دوسرے کے
ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے تھے. مگر 1564 میں فرانس کے بادشاہ نے مارچ میں
نئے کلینڈر کا اجرا کیا جس کی بنا پر نیا سال اپریل کے بجائے جنوری میں
شروع ہونے کا اعلان کیا گیا. کافی لوگ اس اعلان سے لاعلم تھے اس لیے انہوں
نے اپریل کی پہلی تارہخ کو ہی ہمیشہ کی طرح نئے سال کی خوشیاں منائیں اور
ان لوگوں کو کافی مذاق کا نشانہ بنایا گیا اور اسے اپریل فول کا نام دیا
گیا. تب سے اب تک یہ ایک روایت بن چکی ہے مگر ایران میں اب بھی پرانا
کلینڈر ہی چلتا ہے. اس کے علاوہ تاریخ دان ہیرالڈلیم کے مطابق گیارویں صدی
کے آخر تک اسپین میں مسلمانوں کی حکومت تھی. عیسائیوں کے شہنشاہ فرنینڈو نے
مسلمانوں کی حکومت ختم کرکے اسپین پر اپنی حکمرانی شروع کی. یہی وہ دور تھا
جب عیسائی حکمرانوں نے وہاں کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے.
مسلمانوں کی جان و مال کے ساتھ ساتھ ان کی عورتوں کی عزتیں بھی داؤ پر لگ
گئیں. عیسائیوں نے مسلمانوں کو اس حد تک مجبور کیا کہ وہ اسپین میں رہنے کے
لیے یا تو اپنا مذہب بدل کر عیسائی مذہب اختیار کریں, یا پھر انہیں یہاں
رہنے کے لیے پچاس ہزار سونے کے سکھے دینا ہونگے. اس کے علاوہ آخری راستہ
یہی تھا کہ اسپین چھوڑ دیں. مسلمان ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ حکم
عدولی پر انہیں سولی پر چڑھا دیا جاتا تھا. ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہاں
مسلمان قلیل تعداد میں رہ گئے تو انہیں یہ جھانسا دیا گیا کہ اگر وہ اسپین
چھوڑ کر افریقہ جانا چاہیں تو حکومت انہیں افریقہ پہنچانے کے لیے بحری جہاز
کی سہولت فراہم کرے گی. مسلمان خوشی خوشی تیار ہوگئے کہ ان کی تکلیفوں کے
دن ختم ہورہے ہیں. چناچہ گیارویں صدی کے آخر میں سب مسلمان اپنے مال و
اسباب سمیت ان جہازوں میں سوار ہوگئے تو عیسائی حکومت کی جانب سے انہیں
باعزت طریقے سے رخصت کیا گیا مگر سمندر کے بیچوں بیچ پہنچ کر انہوں نے اپنے
پہلے سے طے شدہ بہیمانہ منصوبے کے مطابق جہازوں کو غرق آب کردیا اور اسپین
کے تمام مسلمان اس دھوکے کی نذر ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ گنوا بیٹھے.
عیسائی اس دن کو اپنی کامیابی کی یاد کے طور پر مناتے ہیں مگر ہم مسلمان ان
کی اندھی تلقید میں پیش پیش یہ دن منا رہے ہوتے ہیں اس لیے یہ روایت باقی
دنیا کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک میں بھی عام ہو چکی ہے.
مسلمانوں کے لیے جھوٹ کے پس پردہ اس روایت کی بدترین تاریخی حیثیت کو مد
نظر رکھتے ہو اس دن کو منانا اور بھی معیوب بات ہے. تاریخی حوالے سے اسے
جھوٹ بولنے کا عالمی دن بھی کہہ سکتے ہیں اس لیے بحیثیت مسلمان ہمارا اس دن
کا منانا کسی طرح بھی درست نہیں کہا جاسکتا ہے. کچھ لوگ اپریل فول کو مذاق
اور مزاح سے تعبیر کرتے ہیں. جبکہ اسلام میں اس بات کی سختی سے ممانعت ہے
کہ مزاح میں بھی جھوٹ کا عنصر بالکل نہ ہو. سنن الترمذی میں روایت ہے.
ترجمہ: ’’معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم کو فرماتے سنا '' تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا
ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ
’’ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو
وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری حدیث 6095)
اس حدیث میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے والے شخص کے بارے میں
فرمایا کہ وہ منافق ہے کیونکہ ایسا شخص اپنے جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے
نہ تو اپنے وعدے کی پاسداری کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ امانت دار ہوسکتا ہے.
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اسلام مزاح سے روکتا ہے اور ہنسنے ہنسانے سے منع
کرتا ہے. اس سلسلے میں ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی کئی
روایات موجود ہیں مگر ان میں جھوٹ کا عنصر بالکل نہیں ہے..
حسن بصری رحمۃ اﷲ سے روایت ہے کہ ایک بوڑھی عورت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ میرے لیے دعا فرمائیں
کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جنت
میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہو گی۔‘‘ یہ سن کر وہ بڑھیا دلبرداشتہ ہوئی اور
روتی ہوئی واپس چلی گئی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے خبر
کر دو کہ کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائے گی (بلکہ نواجوان دوشیزہ
بن کر جائے گی) جیسا کہ اﷲ تعالی نے فرمایا: ’’ہم نے ان عورتوں کو اس خاص
انداز پر پیدا کیا کہ وہ کنواریاں، دل پسند اور ہم عمر ہیں۔‘‘
ایک اور روایت حضرت انس رضی اﷲ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری
کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا
کیا کروں گا تو رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ
بھی کسی کو جنتی ہے؟
ان روایات میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کے حوالے سے مزاح کا
بھرپور تاثر ملتا ہے مگر سچ کی چاشنی کے ساتھ. ہمیشہ جھوٹ بولنے والے کا
اعتبار بھی لوگوں کے دل میں ختم ہوتا ہے. بچپن میں شیر آیا شیر آیا والی
کہانی تو سب نے پڑھی ہے. اگر اسی کے نتیجے کو پیش نظر رکھ ہم سب اپنے
معاملات دیکھیں, تو جھوٹ ہم سب کی رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے. ہمیں اس
عادت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے عام دنوں میں بھی اور اپریل کی پہلی تاریخ کو
بھی تاکہ ہماری پہچان صادق کی حیثیت سے ہو کاذب کی نہیں.
|