قُرآن کے بیان پر قُرآن کی واقعاتی شہادت !!

🌹مولانا اختر کاشمیری صاحب کی علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹🌹
🌹 براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں . !! 🌹🌹🌹🌹🌹🌹

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 32 تا 44 ازقلم مولانا اخترکاشمیری

اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اضرب
لھم مثلا
رجلین جعلنا
لاحدھما جنتین
من اعناب وحففنٰھما
بنخل وجعلنا بینھما زرعا
32 کلتاالجنتین اٰتت اکلھا و لم
تظلم منہ شیئا و فجرنا خلٰلھما نھرا
33 وکان لہ ثمر فقال لصاحبہٖ وھو یحاورہٗ
انا اکثر منک مالا و اعز نفرا 34 و دخل جنتہ
وھو ظالم نفسہ قال ما اظن ان تبید ھٰذہٖ ابدا35
وما اظن الساعة قائمة ولئن رددت الٰی ربی لاجدن
خیرا منھا منقلبا 36 قال لہ صاحبہ وھو یحاورہ اکفرت
بالذی خلقک من تراب ثم من نطفة ثم سوٰک رجلا 37 لٰکن
ھو اللہ ربی ولا اشرکبربی احدا 38 و لو لا اذ دخلت جنتک قلت
ما شاء اللہ لا قوة الا باللہ ان ترن انا اقل منک مالا و ولدا 39 فعسٰی
ربی ان یؤتین خیرا من جنتک ویرسل علیھا حسبانا من السماء فتصبح
صعیدا زلقا 40 او تصبح ماؤھا غورا فلن تستطیع لہ طلبا 41 واحیط بثمرہٖ
فاصبح یقلب کفیہٖ علٰی ما انفق فیھا وھی خاویة علٰی عروشھا ویقول یٰلیتنی
لم اشرک بربی احدا 42 ولم تکن لہ فئة ینصرون من دون اللہ وما کان منتصرا
43 ھنالک الولایة للہ الحق ھو خیر ثوابا وخیر عقبا 44
اے ھمارے رسول ! کائنات جن مُثبت و مَنفی نتیجہ خیز انسانی رویّوں سے عبارت ھے اُن مُثبت و مَنفی رویّوں کے نتائج کو اُن دو دوستوں کی اِس مثالی حکایت سے واضح کریں جن میں سے ایک کو ھم نے اَنگُور کے دو ایسے باغ دیۓ ہوۓ تھے جن کے اِرد گرد کھجُور کے درخت تھے اور اُن کے درمیان اُس کے سونا اُگلنے والے وہ لہلہاتے کھیت تھے جن کو پروان چڑھانے کے لیۓ ھم نے آبیاری کا ایک مؤثر نظام قائم کر رکھا تھا جس سے یہ بہت اَچھا پَھل پاتا اور بہت اَچھی فصل اُٹھاتا تھا ، پھر ایک روز جب وہ شخص اپنے دوست کے ہمراہ اپنی اِس جاگیر میں جاتے ہوۓ ایک تعلّی اور تفنن کے ساتھ بولا کہ دیکھ آج میں تُجھ سے اتنا زیادہ مال اور جَتھے کا مالک بن چکا ہوں کہ اَب مُجھے اِن کھیتوں اور کھلیانوں کے برباد ہوجانے کا کوئ خیال ستاتا ھے اور نہ مُجھے اُس یومِ حساب سے کوئی خوف آتا ھے جس سے تُم مُجھے ڈراتے رہتے ہو بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مُجھے پرورد گار کے اُس جہان میں کبھی جانا بھی پڑا تو وہاں پر بھی میرے پاس اِس جگہ سے بھی زیادہ مال و اَسباب ہو گا تاہَم اِس خدا فراموش شخص کے با ہوش دوست نے اِس سے کہا کہ تُم تو اپنے اُس خالق کی عظمت و قُدرت کا انکار کر رھے ہو جس نے مِٹی سے تُمہارا خمیر اُٹھایا ھے ، پھر نُطفہِ آب سے تُمہارا وجُود چلایا ھے اور پھر تُمہارے اجزاۓ ترکیبی میں تناسب پیدا کر کے تمہیں ایک مُکمل انسان بنایا ھے لیکن میں اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میرا خالق اللہ ھے اور میں اُس کے ساتھ کبھی بھی کسی اور کو شریک نہیں ٹھہراؤں گا ، جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوا تو تُجھے یہ کہنا چاہیۓ تھا کہ میرے باغوں کی یہ پَھل ریزی اور میرے کھیتوں کی یہ زَر خیزی اللہ تعالٰی کی مشیت کے تابع ھے ، اگر تُو مال میں مُجھے خود سے کم تر دیکھ رہا ھے تو مُمکن ھے کہ میرا پروردگار میرے شُکر کے باعث مُجھے تُجھ سے بہتر باغ دے دے اور تیرے باغ پر تیری ناشُکری کی وجہ سے کوئی آسمانی آفت گرا کر اُس کو ایک چٹیل میدان بنادے یا پھر اُس کے نیچے جو پانی ھے اُس کو اتنا نیچے لے جاۓ کہ تُو کوشش کے باوجُود بھی کُچھ نہ کر سکے ، پھر ایک روز ایسا ہی ہوا کہ اُس کے سارے باغ باغیچے اور کھیت کھلیان عذابِ اِلٰہی کی زد میں آ گۓ اور وہ اپنے مال کے اِس ضیاع پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور اُس کا حال یہ تھا کہ اُس کے سارے باغ و راغ اُوندھے مُنہ پڑے ہوۓ تھے اور وہ کفِ افسوس ملتے ہوۓ کہہ رہا تھا کاش کہ میں نے اپنے پالنے والے کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا ، جب اُس پر یہ اُفتاد پڑی تو اُس کو بچانے کے لیۓ کوئی جماعت اُٹھی اور نہ ہی وہ خود اپنی مدد آپ کرنے کے قابل رہا ، یہ صورتِ حال اِس بات کی دلیل ھے کہ کائنات اور وسائلِ کائنات پر اللہ ہی کا اقتدار و اختیار ھے اور انسان کے لیۓ اللہ کا اقتدار آغاز کے لحاظ بھی بہتر اور اَنجام کے اعتبار سے بھی بہتر تَر ھے !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اٰیاتِ بالا سے پہلی دو اٰیات میں بیان ہونے والا مضمونِ جنت ، جنت و اہلِ جنت کے جن ایمانی اُمور پر مُشتمل تھا اُن ایمانی اُمور میں اَمرِ اَوّل قُرآن اور دیگر آسمانی اَدیان کا پیش کیا ہوا وہ مُشترکہ اعتقاد تھا کہ انسان کے جسم و جان کی حرکت و عمل کے تَھم جانے کا مطلب انسان کی دائمی موت نہیں ہوتا بلکہ پُرانی حیات سے نکل کر نئی حیات میں داخل ہونے کا ایک مُختصر سا ساکت وقفہ ہوتا ھے جس مُختصر اور ساکت وقفے کے دوران انسان اپنے پُرانے جسم کا پُرانا لباس اُتارکر پُرانی زندگی کے پُرانے دائرے سے باہر آتا ھے اور ایک نۓ جسم کا نیا لباس پہن کر اُس نئئ زندگی کے اُس نۓ دائرے میں داخل ہو جاتا ھے جو نئی زندگی کا نیا دائرہ اُس کو اِس وقتی موت کے بعد ایک دائمی حیات میں داخل ہونے کے لیۓ دیا جاتا ھے اور اُس مضمون کا اَمرِ ثانی یہ ایمانی اعتقاد تھا کہ انسان اپنی زندگی کے اِس زمانے میں زمین پر جو اَچھا یا بُرا عمل کرتا ھے اُس کا وہی اَچھا یا بُرا عمل ایک اَچھی یا بُری شکل میں مُتشکل ہو کر اُس کی نئی زندگی میں اُس کے سامنے آتا ھے اور اُس کی نئی زندگی اُس کے اُسی مُتشکل عمل کی ایک اَچھی یا بُری شکل ہوتی ھے اور اَب موجُودہ بارہ اٰیات میں اُسی فلسفہِ حیات و انتقالِ حیات کے مُجمل اَحوال کو مُفصل طور پر بیان کرنے کے لیۓ دو اَفراد کے اُن دو مُثبت و مَنفی اَعمال کو ایک تَمثیل کی صورت میں بیان کیا گیا ھے جو دو مُثبت اور مَنفی اَعمال اُن دو اَفراد کی دُوسری زندگی کے لیۓ ایک ایسی اَچھی یا ایک ایسی بُری بُنیاد بن جاتے ہیں جس بُنیاد پر اُن کی زندگی کا وہ اَچھا یا بُرا قصرِ حیات قائم ہو جاتا ھے جو اُن کی اُس زندگی میں اُن کو جنت یا جہنم کا احساس فراہم کرتا رہتا ھے ، اِس تمثیل میں ایک انسان وہ ھے جو اپنی محنت سے اپنی حیات دُنیا کو اپنی حیاتِ جنت بناتا ھے لیکن اِس عمل کے دوران یہ بات بُھول جاتا ھے کہ وہ اِس زمین کا مالک نہیں ھے بلکہ ایک ایسا امین ھے جس نے ایک مُدت تک اِس زیرِ امانتِ زمین پر محنت کر کے اِس کو اپنی زمینی جنت بنانا ھے اور اِس سے فائدہ اُٹھانا ھے اور اِس کے بعد اُس آسمانی جنت میں داخل ہو جانا ھے جو اُس کے حسین عمل کا اللہ تعالٰی کی طرف سے ملنے والا ایک حسین بدلہ ھے ، جب وہ انسان یہ بُھول جاتا ھے تو پھر وہ یہ بھی بُھول جاتا ھے کہ اُس نے اپنی محنت کا پَھل پانے کے لیۓ صبر بھی کرنا ھے اور محنت کا پَھل پانے کے بعد اللہ تعالٰی کے شُکر اَدا کرنے کے مُناسب طریقے کے مطابق اللہ تعالٰی کا شُکر بھی اَدا کرنا ھے اور تمثیلِ بالا میں بیان کیۓ گۓ پہلے فرد نے چونکہ اِن تمام اُمورِ حیات کو فراموش کیا ھے اِس لیۓ اُس نے دُنیا میں اچھی زندگی کا ایک اَچھا موقع ملنے کے با وصف بھی آنے والی زندگی کے لیۓ کُچھ اَچھا نہیں کیا ھے اور اِس تمثیل کا دُوسرا کردار وہ ھے جس نے اللہ تعالٰی کی زمین میں رہ کر اللہ تعالٰی کی مَنشا کے مطابق محنت بھی کی ھے ، محنت کا پَھل پانے کے لیۓ صبر بھی کیا ھے اور ایک صبر آزما محنت کے بعد جب اُس کو محنت کا پَھل ملا ھے تو اُس نے اُس پر اللہ تعالٰی کا شُکر بھی اَدا کیا ھے اور یہ اَچھا انسان اپنی دُنیا کو بھی اَچھا بنا گیا ھے اور اپنی عُقبٰی کو بھی اَچھا بنا گیا ھے ، اِن اٰیات کا مقصدی پیغام یہ ھے کہ دُنیا علم کی لَگن اور علم کی لَگن کے ساتھ کیۓ گۓ عمل کی ایک جگہ ھے ، تمثیل میں پہلے جس شخص کا ذکر کیا گیا ھے اُس نے عمل کیا ھے لیکن اُس کا عمل علم سے تہی ھے اِس لیۓ جب اُس کے صبر اور شُکر کے امتحان کا وقت آیا ھے تو صبر و شُکر کے دونوں مضامین میں وہ ناکام ہو گیا ھے اور تمثیل میں جس دُوسرے شخص کا ذکر کیا گیا ھے اُس نے زمین میں جو عمل کیا ھے وہ علمِ مطلوب کے مطابق کیا ھے اِس لیۓ جب اُس کے صبر و شُکر کا وقت آیا ھے تو وہ صبر و شُکر کے دونوں مضامین میں کامیاب ہو گیا ھے ، زندگی عمل بالعلم اور عمل بلا علم کے اسی دائرے میں گھومتی رہتی ھے ، جو لوگ عمل سے پہلے اُس عمل کے لیۓ مطلوبہ علم حاصل کرتے ہیں وہ کامیاب علمی و عملی لوگ ہوتے ہیں اور جو لوگ عمل کے مطلوبہ علم کے بغیر وہ عمل کرتے ہیں تو وہ صرف اُس ایک عمل ہی میں ناکام نہیں ہوتے بلکہ زندگی کے ہر ایک عمل ناکام ہوتے ہیں کیونکہ علم اُن کی عادت میں شامل نہیں ہوتا اور اُن کا ہر عمل علمِ مطلوب کے بغیر ہوتا ھے لیکن زندگی کے کسی دائرہِ عمل میں کوئی عمل بھی علم کے بغیر کار آمد نہیں ہوتا ھے ، قُرآن نے پہلی دو اٰیات میں حیاتِ دُنیا کے حیاتِ اُخرٰی کے ساتھ لازم و مُتصل ہونے اور حیاتِ اُخرٰی کے حیاتِ دُنیا کے ساتھ لازم و مُتصل ہونے کا جو علمی زاویہ پیش کیا تھا وہ قُرآن کا ایک علمی مقدمہ تھا جس کی عملی صحت و صداقت پر موجُودہ اٰیات کے موجُودہ تَمثیلی مضمون کو ایک ایسی واقعاتی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ھے جس واقعاتی شہادت کو ہر انسان ، ہر انسان کی اجتماعی حیات میں بھی دیکھتا ھے اور ہر انسان ، ہر انسان کی انفرادی حیات میں بھی دیکھتا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457618 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More