#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 30 تا 31
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتی ھے !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین اٰمنوا
وعمل الصٰلحٰت
انا لا نضیع اجر من
احسن عملا 30 اولٰئک
لھم جنٰت عدن تجری من
تحتھم الانھٰر یحلون فیھا من
اساور من ذھب ویلبسون ثیابا
خضرا من سندس واستبرق متکئین
فیھا علی الارائک نعم الثواب وحسنت
مرتفقا 31
عھدِ رَفتہ کی ہر تحقیق سے اِس بات کی تصدیق ہو چکی ھے کہ زمین پر جن لوگوں
نے اَمن و اَمان قائم کیا ھے اور زمین پر جن لوگوں نے اپنی بہترین عملی
صلاحیتوں کے مطابق کارِ جہان اَنجام دیا ھے تو ھم نے اُن لوگوں کا کوئی
عملِ خیر کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دیا ھے کیونکہ روزِ اَزل سے آج تک عالَم
میں ھمارا یہی قانون کار فرما رہا ھے کہ زمین پر رُونما والے ہر اَچھے
انسانی عمل کو انسان کے لیۓ اُس کے اَچھے سے اَچھے اَنجام کا حامل بنایا
جاۓ ، ھمارے اِس اَزلی و اَبدی قانون کے مطابق جو لوگ زمین پر کوئی کارِ
خیر اَنجام دیتے ہیں تو ھم اُن کے عملِ خیر کو اُن کے ہر زمان و مکان کے
لیۓ انعام کا ایک ایسا ذریعہ بنا دیتے ہیں کہ جس ذریعے کے تحت وہ پہلے
جہانِ موجُود میں اور پھر جہانِ موجُود کے بعد جہانِ موعُود میں بھی اُن
سدا بہار باغوں کے وارث بنا دیۓ جاتے ہیں جن پر کبھی بھی خزاں کا گزر نہیں
ہوتا کیونکہ اُن زمینوں کی تہوں میں ھم وہ آبی کاریزیں بنا دیتے ہیں جو اُن
کے اُن باغوں کو ہمہ وقت سدا بہار بناتی رہتی ہیں اور اُن کے ذریعے زمین پر
ایک ایسا انقلاب برپا ہو جاتا ھے کہ مِٹی کی تہوں میں چُھپے ہوۓ سونے کے وہ
خزانے تک اُن کے جسموں پر سَجنے کے لیۓ زمین سے باہر آجاتے ہیں جن کے آنے
کے بعد اُن کے ہر ایک کارخانے میں اُن کے جسموں کو آرام دینے والے وہ باریک
ریشمی اور رنگین لبادے بناۓ جاتے ہیں جو اُن کے جسموں کو سجاتے ہیں اور اُن
کی مجلس آرائی کے لیۓ آمنے سامنے والی وہ حسین اور آرام دہ مَسندیں بھی
تیار ہوتی رہتی ہیں جو اُن کی غُربت و تنگ دستی کو تہ و بالا اور اُن کی
عزت و شان کو دوبالا کردیتی ہیں ، غور کرو تو جانو کہ اللہ تعالٰی نے اپنے
فرماں بردار بندوں کے اِرتقاۓ حیات کے لیۓ کیسے کیسے اَسبابِ حیات مُہیا کر
رکھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ حیات !
اٰیاتِ بالا کے عُنوانِ بالا میں ھم نے جو پہلا لفظ "معاش" استعمال کیا ھے
وہ انسانی معاشرے اور انسانی معاشرت کا وہ مشہور و معروف لفظ ھے جو انسان
کی روزی روٹی کے اُن اَسباب و ذرائع کے لیۓ استعمال کیا جاتا ھے جن سے ہر
زندہ انسان اپنی گزر بسر کرتا ھے ، معاش کے بعد ھم نے جو دُوسرا لفظ "معاد"
استعمال کیا ھے اُس سے انسان کی وہ دُوسری زندگی مُراد ہوتی ھے جو انسان کی
اِس رَواں زندگی کی ایک رَواں سانس کے اَنجام پاتے ہی اور دُوسری سانس کا
آغاز ہوتے ہی شروع ہو جا تی ھے اور انسان کی یہ زندگی انسان کے اُس یومِ
معاد سے جا کر مل جاتی ھے جو یومِ معاد انسان کی اُس دُوسری زندگی کا پہلا
دن ہوتا ھے ، انسان کی اُس دُوسری زندگی میں بھی انسان کے پاس اُس کی معاش
اور اُس کی روزی روٹی کے اَسباب و ذرائع وہی ہوتے ہیں جو انسان کی اِس پہلی
زندگی میں انسان کے پاس ہوتے ہیں ، یعنی انسان اپنے آج میں جو کماتا اور
بچاتا ھے اُس کے آنے والے کَل میں بھی وہی اُس کے کام آتا ھے ، قُرآنِ کریم
نے اپنی اٰیات میں اللہ تعالٰی کے اِس قانونِ معاش اور معاد کی تعلیم و
تفہیم کے لیۓ 66 بار "جنة" کا لفظ استعمال کیا ھے جس سے انسان کا وہی اَن
دیکھا سفرِ حیات مُراد ہوتا ھے جو انسان کے لَمحہِ حال میں لی جانے والی
ایک سانس کے فورا بعد شروع ہو جاتا ھے اور انسان کے مُستقبل میں آنے والے
ایک ایک آتے لَمحے میں انسان کے سامنے آتا رہتا ھے ، قُرآنِ کریم نے انسان
کی اِس دیکھی بھالی زندگی سے شروع ہو کر اُس اَن دیکھی زندگی سے مل جانے
والی جس زندگی کے لیۓ جَنت کا استعارہ استعمال کیا ھے اُس کی جمع جَنّات ھے
اور قُرآنِ کریم نے اپنی کتابی ترتیب میں جنت کی اِس جمعِ جَنات کا جن 69
مقامات پر ذکر کیا ھے اُن میں سے پہلا مقام سُورةُالبقرة کی اٰیت 25 ،
دُوسرا مقام سُورہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 15 ، تیسرا مقام اٰیت 136 ، چوتھا
مقام اٰیت 195 ، پانچواں مقام 198 ، چَھٹا مقام سُورةُالنساء کی اٰیت 13 ،
ساتواں مقام اٰیت 57 ، آٹھواں مقام 122 ، نواں مقام سُورةُالمائدة کی اٰیت
12 ، دسواں مقام اٰیت 65 ، گیارھواں مقام اٰیت 75 ، بارھواں مقام اٰیت 119
، تیرھواں مقام سُورةُالاَنعام کی اٰیت 99 ، چودھواں مقام اٰیت 141 ،
پندرھواں مقام سُورةُالتوبة کی اٰیت 21 ، سولھواں مقام اٰیت 72 ، سترھواں
مقام اٰیت 73 ، اَٹھارھواں مقام اٰیت 89 ، اُنیسواں مقام اٰیت 100 ، بیسواں
مقام سُورہِ یُونس کی اٰیت 9 ، اکیسواں مقام سُورةُالرعد کی اٰیت 4 ،
بائیسواں مقام اٰیت 23 ، تیسواں مقام سُورہِ ابراھیم کی اٰیت 23 ، چو یسواں
مقام سُورةُالحجر کی اٰیت 45 ، پچیسواں مقام سُورةُ النحل کی اٰیت 31 اور
چھبیسواں مقام سُورةُالکہف کی یہی اٰیت 31 ھے ، قُرآنِ کریم کے اِن 26
مقامات اور دیگر 43 مقامات پر بھی جنت و جَنات کا مقصدِ استعمال یہی ایک
بات انسان کو سمجھانا ھے کہ انسان کا نظامِ معاش اُس کے عھہدِ حال سے لے کر
اُس کے عھدِ مُستقبل کے پہلے دن تک پھیلا ہوا ھے اور اِس نظامِ معاش کے
مطابق ہر انسان کو اُس زندگی میں بھی وہی ملے گا جو انسان نے اِس زندگی میں
کمایا اور بچایا ہو گا ، اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے جنت کی جن سدا بہار زمینوں
اور اُن سدا بہار زمینوں میں پیدا ہونے والی جس آسُودہ حیات روزی کا ذکر کا
ذکر کیا ھے وہ قُرآن کا وہی معاشی نظامِ حیات ھے جس کو اِختیار کر کے انسان
نے اپنی اِس حیاتِ مُستعار اور اُس حیاتِ سدا بہار کو پُر بہار بنانا ھے
لیکن انسان کے لیۓ قُرآن کے بناۓ ہوۓ اِس نظامِ معاش کا ایک سرا چونکہ
عالمِ دُنیا اور دُوسرا سرا عالمِ عُقبٰی سے ملا ہوا ھے اِس لیۓ دُنیا کے
ہر فرعون ، ہر ھامان ، ہر قارون ، ہر شداد اور اُن کے بعد زمین پر پیدا
ہونے والے تمام چوروں اور تمام لٹیروں نے قُرآن کے اِس نظامِ معاش کے پہلے
داخلی راستے First entry point پر اپنے وہ مذہبی دلال بٹھاۓ ہوۓ ہیں جو اِس
اُمت کو ترکِ دُنیا اور حصولِ آخرت کی تعلیم دیتے ہیں اور جب ایک بندہِ
مومن قُرآن کے نظامِ معاش کے پہلے داخلی راستے سے خالی ہاتھ جاتا ھے تو وہ
دُوسرے داخلی راستے Second entry point پر بھی اپنے پہلے مقام کی طرح محروم
کا محروم ہی رہ جاتا ھے لیکن اِن مذہبی دلالوں کے وہ سرمایہ دار سر پرست جو
اپنے کسی کار خانے کے ایک محنت کش کو ایک 100روپے اضافی مانگنے پر زندہ جلا
دیتے ہیں وہ ظالم اِن مذہبی قذاقوں پر اَربوں اور کھربوں روپے لُٹا دیتے
ہیں اور اِن مذہبی دلالوں کو دی ہوئی یہ خطیر رقوم وہ اپنے ٹیکس کے کھاتوں
میں ظاہر کر کے حکومتِ وقت سے بھی دُھرا مالی فائدہ حاصل کرلیتے ہیں ، یہ
ھے شیطان کا وہ سرمایہ دارانہ نظام جس نے ایک بندہِ مومن کی دُنیا کو اُس
کی آخرت سے اور اُس کی آخرت کو اُس کی دُنیا سے کاٹ کر اَسبابِ حیات سے
محروم کیا ہوا ھے اور یہ لوگ چونکہ قُرآن کے اِس نظامِ معاش کے دُشمن ہیں
اِس لیۓ وہ قُرآن کے اِس نظامِ معاش کا ذکر بھی نہیں کرتے اور اِس نظامِ
معاش کو تسلیم بھی نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ اِس نظامِ معاش کو تسلیم کر لیں
گے تو وہ انسانوں کو اللہ تعالٰی کے اُس اُدھار کے کھاتے کی وہ تعلیم نہیں
دے سکیں گے جس کے مطابق اللہ تعالٰی انسان سے دُنیا میں جس نقدِ عمل کا
مطالبہ کرتا ھے اُس کا بدلہ وہ دُنیا میں روزی روٹی کی شکل میں نہیں دیتا
بلکہ آخرت میں حُور و غِلمان اور شراب و شھد کی صورت میں دینے کا وعدہ کرتا
ھے !!
|