خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ و سلم کی
ذات مبارک ،اﷲ کریم کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ آپ ﷺ کی ذات مبارک پر سلسلہ
نبوت و رسالت ختم ہوجاتا ہے۔ روز قیامت تک آپ ﷺ کی ذات مبارک پوری بنی نوع
انسان کے لئے مشعل راہ ہے۔قانون فطرت سے ہٹ کر ہر وہ عمل جو انسانی عقل و
شعور اتنی جلدی تسلیم نہ کرسکے اسکو معجزہ کہا جاسکتا ہے اور معجزات اﷲ
کریم صرف اپنے پیارے انبیاء کرام کو عنایت فرماتے ہیں ، آئیے اس تحریر میں
نبی کریم ﷺ کے بہت سے معجزات میں سے چند معجزات کا مطالعہ کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔(قرآن): نبی کریم ﷺ کے معجزوں میں سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید و
فرقان حمید ہے۔ جس کے مقابلہ میں ایک سورۃ توکیا ایک آیت کے برابر بھی کوئی
انسان نہیں بنا سکا۔قرآن مجید و فرقان حمید میں گزرے ہوئے وقت اور مستقبل
کے بارے میں بہت سی غیب کی خبریں موجود ہیں اور اﷲ کریم کی طرف سے بہت سے
احکامات بھی درج ہیں۔(چاند کا دو ٹکڑے ہونا):کفار کے چیلنج کرنے کی بناء پر
نبی کریم ﷺ نے اپنے انگشت مبارک کے اشارہ سے چاند کو دوٹکڑے کردیا۔(معراج
شریف): پیارے نبی کریم ﷺ کے معجزات میں سے معراج شریف ایک بہت بڑا معجزہ
ہے، رات کے اک قلیل عرصہ میں اﷲ کریم نے نبی کریم ﷺ کو مکہ سے مدینہ شریف ،
پھربیت المقدس تک اور ساتوں آسمان سے سدرۃالمنتہیٰ اور پھر لامکاں تک کی
سیر کروائی ۔اﷲ کریم نے اپنی انوار تجلیات دیکھائی ،آپ ﷺ کو جنت و دوزخ کے
مناظر دیکھائے، نماز کا تحفہ عنایت فرمایا۔(بیت المقدس کا آنکھوں کے سامنے
آنا): نبی کریم ﷺ جب معراج شریف سے مشرف ہوکر لوگوں سے بیان کرنے لگے اور
بیت المقدس تک جانے کی خبر دی تو مشرکین مکہ نے اس بات کو جھٹلا یا اور بیت
المقدس کی نشانیاں پوچھنے لگے تو بعض ایسی علامات بھی پوچھیں کہ جس میں
معراج شریف کی رات آپ نے غور نہ فرمایا تھا، تب اﷲ کریم نے بیت المقدس کا
منظر آپ ﷺ کے روبرو ظاہر کردیا تو آپ نے خوش ہوکر صاف صاف نشانیاں بیان
فرماکراعتراض کرنے والے مشرکین مکہ کو شرمندہ کردیا۔(مشرکین مکہ کے سروں پر
مٹی): جب مشرکین مکہ نبی کریم ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپ ﷺ کے گھر پر
جمع ہوئے تب آپ ﷺ کے گھر سے تشریف لے جاتے وقت مشرکین مکہ نے سر نیچے کر
لئے اور ان سب کی ٹھوڑیاں ان کے سینوں تک جا لگیں تو آپ ﷺ نے ایک مٹھی خاک
لے کر انکے سروں پر ڈال کر فرمایا شا’’شاھت الوجوہ‘‘ یعنی برے ہوجائیں منہ
انکے، آخر ایسا ہی ہوا کہ جن کے سروں پر وہ مٹی پڑی وہ سب کے سب جنگ بدر
میں مارے گئے۔(غزوہ حنین میں کافروں کو شکست): نبی کریم ﷺ نے غزوہ حنین میں
ایک مٹھی خاک اپنے دشمنوں کے منہ پر پھینکی تو اﷲ تعالیٰ نے ان سب کو شکست
فاش دی۔(مکڑی کا جالا بنانا):ہجرت کے موقع پر نبی کریم ﷺ جب غار ثورمیں
جاکر تشریف فرما ہوئے تو مکڑی نے اس غار کے منہ پر جالا بن دیا تاکہ دیکھنے
والوں کو معلوم ہو اکہ اس غار میں کوئی نہیں ہے۔(سراقہ کا زمین میں
دھنسنا): نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمانے جارہے تھے تو آپ ﷺ
کو پکڑنے کے لئے سراقہ بن مالک آپ ﷺ کے تعاقب میں نکلا، جب سراقہ آپ ﷺ کے
قریب پہنچا تو اسکے گھوڑے کے پاؤں سخت زمین میں دھنس گئے اور سراقہ آپکے
قریب نہ جاسکا۔(دست نبوت ﷺ کا کمال): ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ایسی بکری کی
پیٹھ پر ہاتھ پھیرا کہ جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہیں جنا تھا، مگر آپ ﷺ کے
دست مبارک کی برکت سے وہ بکری دودھ دینے لگ پڑی۔(ام معبد کی بکری دودھ سے
لبریز): ہجرت مدینہ منورہ کے راستہ میں ایک بڑھیا ام معبد کی بکری جو بالکل
ضعیف تھی آپ ﷺ کے دست مبارک اس پر پھیرنے سے بہت دودھ دینے لگی حالانکہ اس
میں اس سے پہلے کچھ دودھ نہ تھا۔(آنکھیں ٹھیک ہوجانا): حضرت قتادہ بن نعمان
رضی اﷲ عنہ کی آنکھوں میں زخم ہوکر پانی رخسار پر بہنے لگا۔ آپ ﷺ نے زخمی
آنکھ کی پتلی کو اپنے دست مبارک سے اُٹھا کر آنکھ کی مخصوص جگہ رکھ دیا تو
آپ ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے انکی آنکھیں اچھی ہوگئیں بلکہ پہلے سے زیادہ
بہتر اور جمال والی ہوگئیں۔(باران رحمت کا نزول): مدینہ طیبہ میں ایک سال
قحط سالی ہوگئی، مینہ نہ برسا، نبی کریم ﷺ جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرما رہے
تھے، ایک اعرابی نے حاضر ہوکر عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ، جانور ہلاک ہوگئے،
درخت خشک ہوگئے، غریب لوگوں کے بچے فاقہ سے مرنے لگے۔ یارسول ﷺ دعا فرمائیں
کہ اﷲ تعالی مینہ برسا دے، یہ سن کر حضور نبی کریم ﷺ نے خطبہ میں اپنے ہاتھ
آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ‘‘اے اﷲ بارش برسا دے، خشک زمین کو تر، سوکھے
کھیتوں مردہ زمین کو زندہ کردے‘‘ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین
کہتے ہیں نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اُٹھانے سے پہلے آسمان پر بادلوں کا نام و
نشان نہ تھا، نبی کریم ﷺ کے ہاتھ اُٹھاتے ہی پہاڑوں کی طرح بادل اُٹھ کر
آئے اور اسی وقت برسنے لگے، اور مسجد نبوی ﷺ سے پانی ٹپک کر نبی کریم ﷺ کے
سر مبارک سے بہتا ہوا ریش مبارک سے ہوتا ہوا نبی کریم ﷺ کے لباس پر گرتا
تھا، اس جمعۃالمبارک سے برابر دوسرے جمعۃالمبارک تک مینہ برستا رہا، جب نبی
کریم ﷺ دوسرے جمعہ کا خطبہ فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو پھر ایک اعرابی نے
عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ بارش کی کثرت سے اندیشہ ہلاکت ہے، یہ سن کر نبی
کریم ﷺ خطبہ میں دعا فرمائی، ’’اﷲ کریم بادل مدینہ کی بستی میں کھل جائے،
جنگلوں میں برسے، دریا میں برسے، ضرورت کے موقع پر برسے۔(درختوں کا اکٹھے
ہونا): ایک سفر کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ سے فرمایا۔ کہ اے
اسامہؓ یہاں قزائے حاجت کے لئے پردہ کی جگہ ہے؟ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کیا کہ
یارسول اﷲ ﷺ دور تک صحابہ کا لشکر ٹھہرا ہوا ہے اور یہاں قریب میں کوئی جگہ
قابل پردہ نظر نہیں آتی۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا، دیکھو اے اسامہ ؓ یہ درخت
کھجور کے جو الگ الگ کھڑے نظر آتے ہیں اور یہ پتھر جو دور دور سے پڑے
دیکھائی دیتے ہیں، انکو حکم دو، ان سے جاکر کہو: رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ
تم آپس میں مل جاؤ اور پتھروں تم درختوں کے بیچ دیوار بنادو ، نبی کریم ﷺ
تمہارے پیچھے قزائے حاجت ادا فرمائیں گے۔حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی
کریم ﷺ کا حکم سنتے ہیں فورا درخت آپس میں مل گئے، اور پتھروں نے درختوں کے
درمیاں خالی جگہ میں دیوار بنادی۔جب نبی کریم ﷺ قزائے حاجت سے فارغ ہوئے تو
نبی کریم ﷺ نے حضرت اسامہ سے فرمایا کہ ان سے کہو کہ واپس اپنی اپنی جگہ پر
چلے جائیں، یہ سن کر حضرات اسامہ نے اشارہ کیا، پتھر اور درخت الگ الگ ہوکر
اپنی جگہ پر چلے گئے۔(لکڑی کے ستون کی چیخ و پکار کرنا): نبی کریم ﷺ مسجد
نبوی میں خشک کھجور کے ستون سے پشت مبارک لگاکر خطبہ دیا کرتے تھے، اک
انصاری عورت نے لکڑی کا تین سیڑھیوں والا ممبر بنوا کر نبی کریم ﷺ کی خدمت
میں پیش کیا، آ پ ﷺنے اس ممبر کو پسند فرمایا اورخطبہ دینے کے لئے اس ممبر
پر جلوہ فرما ہوئے، نبی کریم ﷺ نے خطبہ شروع ہی کیا تھا کہ اس خشک کھجور کے
ستون سے رونے کی آوازیں ، چیخیں مارنے کی صدائیں بلند ہوئیں، ہچکیاں لینا،
سسکیاں بھرنا، بچہ کی طرح ماں کی جدائی میں چیخیں مارکر رونا، غل مچانا
شروع کیا، نبی کریم ﷺ ستون کے رونے سے بے چین ہوگئے، ممبر سے اتر کر اس
رونے والے او رعشق رسول میں جان کھو دینے والے ستون کے پاس آئے، اسے گلے
لگا کر بہت تسلی دی، اس سے کلام کیا، اسے خاموش کیا، نبی کریم ﷺ نے ستون سے
پوچھا تو کیوں روتا ہے، ستون نے عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ رونے کا سبب آپ ﷺ کی
جدائی ہے، یارسول اﷲ ﷺ پہلے آپ مجھ سے کمر لگا کر خطبہ فرماتے تھے، اور اب
آپ ﷺ مجھے چھوڑ کر ممبر پر اجلاس فرماتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ستون سے
فرمایا، کہ اگر تو چاہے تو اﷲ تجھے دنیا میں سرسبز کردے، جہاں تیرے پھل
اولیاء اﷲ کھائیں گے، اس ستوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ میں وہی بات پسند
کرتا ہوں جس کی بقاء ہمیشہ رہے، میں فانی بقاء کو پسند نہیں کرتا بلکہ مجھے
آخرت کی زندگی ملنی چاہئے، جہاں میرے پھل اولیاء اﷲ کھائیں۔کتنی ہی توجہ
طلب بات ہے کہ درختوں، پتھروں نے نبی کریم ﷺ کے خادم کے حکم سے نبی کریم ﷺ
کے لئے صف بستہ ہوکر پردہ کی دیوار تیار کردی، نبی کریم ﷺ کی جدائی میں
کھجور کے خشک تنے کا چیخ و پکار کرنا، چرند پرند نبی کریم ﷺ کے عشق و محبت
میں کس قدر شرابور تھے۔ مگر افسوس ہم انسان ہوکر پھر مدعی اسلام ہوکر یعنی
مسلمان ہونے کا دعوع کرنے والے، افسوس ! ہم نے گھاس پھونس، درختوں، پتھروں
کے برابر بھی اﷲ کے سچے رسول ﷺ کی صحیح معنوں میں اطاعت نہ کی، کتنی شرم کی
جگہ ، اور غیرت کا مقام ہے۔اﷲ کریم ہم سبکو ہدایت نصیب فرمائے اور نبی کریم
ﷺ کی سچی پکی محبت اور اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم
آمین۔(تحریر بحوالہ قصص الانبیاء)
|