روبرو ہے ادیب: غلام زادہ نعمان صابری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریرو ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
برقی پتہ:[email protected]
پاکستان میں بہت سے ادیب اپنے کام کو ذمہ داری سمجھ کر ادا کر رہے ہیں انہی میں سے ایک غلام زادہ نعمان صابری صاحب ہیں۔بچوں کے لئے عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں اور بنا کسی صلے کے بس اپنا کام کئے جا رہے ہیں، ادیبوں کی بہتری کے لئے بھی چپکے سے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے سب لکھاریوں سے اچھے تعلقات ہیں،، ہمارے آج کے مہمان یہی موصوف ہیں۔امید ہے کہ آپ کو ان کی باتیں پسند آئیں گی۔آپ کی رائے کے منتظر رہیں گے۔
سوال:سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ ”کرن کرن روشنی“ کے بطور مدیر کام کرنے کا سفر ابھی تک کیسا رہا ہے؟ جواب: مجھے کرن کرن روشنی کی ادارت سنبھالے ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے ہیں۔ میرا ابھی یہ نیا تجربہ ہے وقت کے ساتھ ساتھ پتہ چلے گا کہ اس سفر میں کون کون سی آسانیاں اور کون کون سی مشکلات پیش آتی ہیں۔میں اپنے اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہوں اور پر امید ہوں کہ اللہ مجھے اس سفر میں مشکلات سے دور رکھے گا۔ ویسے مشکلات آسانیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ان سے ڈرنا نہیں بلکہ اللہ کی مدد سے ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہاں شعر سے اس بات کو واضح کر دوں کہ تندئی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے زندگی میں کچھ مشکلات انسان کو بہتری کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ بس انسان کو اللہ پر اچھا گمان رکھنا چاہیے۔
سوال: کچھ”کرن کرن روشنی“کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کیجئے؟ جواب: ماہنامہ کرن کرن روشنی عرصہ 16 سال سے مسلسل شائع ہو رہا، لیکن میرا اس سے تعلق 2018 میں وٹس ایپ کے ذریعے سےجڑا ہے۔ علی عمران ممتاز صاحب نے میرے انکار کے باوجود مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنایا۔میرے انکار کی وجہ ذاتی مصروفیات تھیں جن کی وجہ سے رسالے کے لئے وقت نکالنا میرے لیے نہایت مشکل تھا۔لیکن ان کے بے حد اصرار پر بالآخر مجھے ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ پہلے مجھے لاہور کا بیورو چیف بنایا گیا، پھر ایڈورٹائزنگ منیجر کی پوسٹ دی گئی اور پھر مدیر کے عہدے پر فائز کر دیاگیا۔ مدیر اعلیٰ علی عمران ممتاز صاحب مشکل حالات کے باوجود بڑی خوش اسلوبی سے اسے تسلسل کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔
سوال: آپ نے بطور مدیر اپنے لئے کون سے اہداف مقرر کر رکھے ہیں؟ جواب: میری بطور مدیر سب سے بڑی خواہش ماہنامہ کرن کرن روشنی کو بچوں کے لئے ایک بہترین رسالہ بنانا ہے جو بچوں کے لئے ہر لحاظ سے معیاری اور دلکش ہو۔
میں نے اس کی ادارت سنبھالتے ہی بچوں کے ادب کے مایہ ناز ادیبوں سے قلمی تعاون حاصل کیا۔ میں ان سب ادیبوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری آواز پر لبیک کہا اور قلمی تعاون عنایت فرمایا۔ میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مسائل کم اور وسائل زیادہ کرے تاکہ لکھاریوں کو ان کی محنت کا صلہ دیا جا سکے۔بدحالی انسان کا جوہر چھین لیتی ہے جب کہ خوش حالی سے انسان کا جوہر نکھرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر لکھاری خوش حال ہو اسے کسی قسم کی مالی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان شاءاللہ جب ہمارا ادارہ اس قابل ہو گا تو اس طرف بھرپور توجہ دی جائے گی۔
سوال: آپ کو ابھی تک سب سے زیادہ کس مسئلے کا سامنا بطور مدیر کرنا پڑا ہے؟ جواب: ماہنامہ کرن کرن روشنی میں میری ادارت مارچ 2021سے شروع ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مجھے ابھی تک کوئی خاص مسئلہ تو پیش نہیں آیا مگر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ادارت ایک مشکل کام ہے۔ بہت سے لکھاریوں کو شکایت رہتی ہے کہ ان کی تحریر شائع نہیں ہوئی۔ مجھے اب اندازہ ہوا ہے کہ مدیر اپنے ہی رسالے میں اپنی تحریر شائع کیوں نہیں کر سکتا۔ لکھاریوں کی خوشی کے لئے اسے اپنی تحریر پس پشت ڈالنی پڑتی ہے۔
سوال: آپ کے والدین نے آپ کو ادبی میدان میں آگے بڑھنے میں کس طرح سے تعاون کیا ہے؟ جواب: میرے والدین پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اس زمانے میں دیہاتوں میں تعلیم کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔یہ وہ دور تھا جب برصغیر پاک و ہند پر انگریزوں کی حکومت تھی۔میرے والد صاحب کسان تھے تھوڑی سی زمین تھی جس پر کاشتکاری کے ذریعے روزی روٹی کماتے تھے۔میرے والد صاحب کو ہم سب بھائیوں کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا۔
ہم سات بھائی تھے۔ مجھ سے دو بڑے بھائیوں نے میٹرک پاس کی ہوئی تھی۔میں نے 1978میں نویں جماعت سے پڑھناچھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے والد صاحب سے سکول میں ڈنڈے کھانے پڑے تھے۔ اس کے بعد میں نے لاہور بورڈ سے غالباً 2001 میں میٹرک کیا۔انٹر میڈیٹ میں انگریزی نے میرے لیے علم کے دروازے بند کر دیئے۔ کیوں کہ میں انگریزی میں فیل ہو گیا تھا۔
سوال:آج کن موضوعات پر ادب اطفال میں لکھنا بے حد ضروری ہو چکا ہے؟ جواب: میرے خیال میں بچوں کے لئے ہر دور میں ہر موضوع بے حد ضروری رہا ہے۔ ادب اطفال میں موضوعات کی کمی نہیں اور نہ ہی کسی خاص موضوع کو تخت مشق بنایا جا سکتا ہے۔ہر ذہن کی اپنی تخلیق ہے۔ ہر لکھاری اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق تحریر قلم بند کرتا ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو بس تحریر کو بچوں کے لئے دلچسپ، سبق آموز اور اصلاحی ہونا چاہئے۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک لکھاری لکھنا کیوں چھوڑ دیتا ہے اورگمنامی میں چلا جاتا ہے؟ جواب: میرے خیال میں اس کا ایک پہلو یہ ہےکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اسے پیشے کے طور پر اختیار کرنا ہے اگر اسے مشغلہ سمجھ کر اختیار کیا جائے تو گمنامی سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسرے پہلو سے سوچا جائے تو لکھاری کو اس کی محنت کا معاوضہ نہ ملنا ہے۔ اس دور میں بڑے بڑے رسائل لکھاریوں کو معاوضہ دینے سے کتراتے ہیں۔چھوٹے رسائل کی تو بات ہی چھوڑیں۔ یہ لینے دینے کے معاملات اس وقت تک نہیں سدھریں جب تک ادب اطفال کو ایک پلیٹ فارم میسر نہیں ہوتا۔
سوال: آپ کی نظر میں ایک لکھاری/شاعر کی حوصلہ افزائی کیوں ضروری ہے؟ جواب: میرے خیال میں لکھاری اور شاعر کی حوصلہ افزائی اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے قلم کو رواں دواں رکھ سکے اور بچوں کو بہترین تحریروں کے ذریعے محبت اور الفت کا درس دے سکے۔
سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟ جواب: ایک اچھے ادیب اور لکھاری کو حقیقت کا علمبردار ہونا چاہئے۔ادیب اور لکھاری جو کچھ لکھتا ہے اسے اس کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان چیزوں کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی تحریروں سے وہ ثمرات نہیں سمیٹ سکے جو ہمیں سمیٹنے چاہئیں تھے ۔لکھاری کو اپنی تحریر کی عملی تفسیر ہونا چاہئے۔ قول و فعل کے تضاد نے ہماری تحریروں کو پھیکا کر دیا ہے۔ادیب جب تک خود باداب نہیں ہوگا اس وقت تک اس کی تحریروں میں وہ حسن نہیں آئے گا جس کا وہ طلب گار ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں کس طرح سے بچوں کو رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب: دیکھئے جناب ادب اطفال کے حوالے سے موجودہ دور بڑا نازک دور ہے۔سوشل میڈیا نے بچوں کے علاوہ بڑوں کو بھی کتاب بینی سے دور کر دیا ہے۔ بد قسمتی سے ادب اطفال کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل نہیں۔بچوں کے رسائل کو ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اشتہار دینا گناہ سمجھتی ہیں۔رسائل کو اشتہارات نہ ملنے کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بڑی بڑی منافع بخش کمپنیوں کو پابند کرے کہ وہ بچوں کے رسائل کو اشتہارات دیں تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں اور بچوں کو کم قیمت پر رسائل مہیا کر سکیں جس سے ان کی دلچسپی بڑھے اور وہ انہیں پڑھیں۔ دوسرا حکومت کو چاہئے کہ وہ تمام سکولوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنی لائبریریوں میں بچوں کے رسائل کو یقینی بنائیں اور ہفتے میں ایک دن بچوں کو ایک دو گھنٹے لائبریریوں میں رسائل کے مطالعہ کے لیے دیں۔ اس طرح ہم بچوں کو رسائل و جرائد اور کتب بینی کی طرف واپس لا سکتے ہیں۔
سوال: موجودہ دور کے کن ادیبوں کے کام کو آپ بے حد پسند کرتے ہیں؟ جواب: موجود دور میں ادب اطفال کے سبھی ادیب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جسے جتنی ذہنی صلاحیت سے نوازا ہے وہ اسے بروئے کار لا رہا ہے۔ نام لینا شروع کر دوں تو یہ ایک لمبی فہرست ہے دوسرانام لینا اس لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ کسی کی دلآزاری نہ ہو۔ میرے لئے سبھی ادب اطفال کے لکھاری قابل احترام اور قابل صد تعظیم ہیں اور سب ہی بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔
سوال:نوجوان لکھاریوں میں کس کو پسند کرتے ہیں؟ جواب: اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ میرے لیے امان اللہ نیر شوکت صاحب بھی نوجوان لکھاری ہیں جو بچوں کے لئے تقریباً 60 سال سے لکھ رہے ہیں۔ اس لئے سبھی نوجوان لکھاری میرے پسندیدہ ہیں۔ اللہ پاک سب کو بچوں کے ادب کی سچے جذبے اور صدق دل سے خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال: اچھی کہانی یا نظم کی آپ کیسے تعریف کریں گے؟ جواب: اچھی نظم اور اچھی کہانی وہ ہے جو بچوں کی اصلاح اور کردار سازی میں بھرپور کردار ادا کرے۔
سوال: لکھاریو ں کو معاوضے یا اعزاز ی شمارے دینے کے حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں؟ جواب: میں ذاتی طور پر لکھاریوں کو معاوضہ ملنے اور اعزازی شمارے دینے کے حق میں ہوں۔ الحمدللہ میں اپنے ذاتی خرچ پر کرن کرن روشنی میں لکھنے والے لکھاریوں کو شمارہ بھیجتا ہوں۔ معاوضہ نہ دینے کی وجہ ادارے کا مالی طور پر مستحکم نہ ہونا ہے۔ لیکن میری دلی آرزو ہے کہ اللہ تعالیٰ ماہنامہ کرن کرن روشنی کو عروج عطا فرمائے اور مالی طور پر اتنا مستحکم کر دے کہ ہر لکھاری کو اس کی تحریر کا معقول معاوضہ دیا جا سکے۔ میرا اللہ جب یہ دن دکھائے گا مجھے اس دن حقیقی روحانی خوشی نصیب ہو گی۔
سوال:آج کے موجودہ ادیبوں یا لکھاریوں سے آپ کو کیا بڑی شکایت ہے؟ جواب: آج کے ادیبوں اور لکھاریوں میں اتحاد و یگانگت اور اخلاص و محبت کا فقدان ہے۔ دھڑے بندی اور تفرقہ بازی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو ادیب کی شخصیت کو داغ دار کرتی ہے اور معاشرے میں بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ اختلاف رائے رکھنا کوئی بری بات نہیں۔یہ ضروری تو نہیں ہے کہ میری ہر بات ہر ایک کے لئے قابل قبول ہو،ہوسکتاہے میری بات کسی کو پسند نہ بھی آئے اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میری بات کی مخالفت کرنے والا میرا دشمن ہے۔ بس ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے بہت بڑی بڑی دراڑیں پڑی ہوئی ہیں جنہیں بھرنا بہت ضروری ہے۔ بس میری یہ خواہش ہے کہ آپس کے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر بچوں کے ادب کے لئے ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں۔
سوال: آپ اپنے تعلیمی سفر اورنجی زندگی کے حوالے سے کچھ قارئین کے لئے بتانا چاہیں گے؟ جواب: میرا تعلیمی سفر مزدوری پر سواری کرتے ہوئے گزر گیا۔جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ میں انٹرمیڈیٹ کی انگریزی میں فیل ہونے کے باعث اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکا۔اس کی بڑی وجہ مزدوری سے وقت کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔
نجی زندگی کے بارے میں یہی عرض ہے کہ اب تک اللہ پاک نے مزدوری کے لیے ہمت و طاقت عطا کر رکھی ہے۔ جو وقت بچ جاتاہے اس میں لکھنے پڑھنے کا شغل کر لیتا ہوں۔الحمدللہ گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا ہوں۔
سوال: آپ کی اب تک کتنی تحریریں /شاعری /کتب منظر عام پر آچکی ہیں؟ جواب: تحریریں ماشاءاللہ کافی ہیں جن کی گنتی کا اندازہ تو نہیں۔ شاعری میں میری دو کتابیں "گبند خضری کے سائے تلے" بچوں کے لئے نعتیہ نظموں کا مجموعہ "گلبل" بچوں کے لئے نظموں کا مجموعہ "رنگ برنگ" بچوں کے لئے نصیحت آموز تحریروں کا مجموعہ۔ یعنی تین کتابیں چھپ چکی ہیں۔
سوال: اُردو زبان آج تک سرکاری سطح پر رائج نہ ہونے کی بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ جواب: اردو زبان کا سرکاری طور پر رائج نہ ہونا درحقیقت پاکستان میں آئین اور قانون کا نہ ہونا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا آئین اور قانون ہر برسر اقتدار طبقے کی لونڈی بن کر رہا ہے وہ اسے جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔حالاں کہ قوموں کی ترقی کا راز ان کی حقیقی زبان کے نفاذ میں ہے۔ غلام حکمران اپنا آقا کی خوشنودی کے لیے ملک و قوم کی ترقی نہیں چاہتے اس لیے اردو کا نفاذ نہیں کرتے۔
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ جواب: میں اپنے قارئین سے درخواست کروں گا کہ ہمیشہ پیار اور محبت سے رہیں کسی کو دکھ اور تکلیف نہ پہنچائیں کسی کا حق نہ کھائیں۔ایثار اور قربانی کو اپنا شیوہ بنائیں۔چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب کریں۔ ماں باپ کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔ آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔ ۔ختم شد۔ |