تعمیرِ ادب میں چکوال کا حصہ

سمعیہ راجپوت چکوال

فن سپاہ گری میں چکوال منفرد مقام کا حامل ہے، اس کی اصل وج? شہرت بھی یہی ہے لیکن اس کے مکینوں نے پنجابی، اردو، فارسی اور انگریزی ادب کی تخلیق میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ چکوال کی جغرافیائی تاریخ بہت قدیم ہے یہاں سے کروڑوں سال پرانے فاسلز بھی ملے ہیں اور برفانی دور کے اوزار بھی. جا بجا بکھرے تاریخی مقامات اس کی اہمیت دو چند کرتے ہیں۔ وادء کلرکہار، وادء کہون اور وادء جھنگڑ اور وادی سواں کے علاقے اس کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ معدنی وسائل سے پُر پہاڑیاں اور کوہستان نمک کا پہاڑی سلسلہ اس کی خوبصورتی اور قدروقیمت میں اضافہ کرتا ہے۔

مغل شہنشاہ اور تزک بابری کا مصنف ظہیر الدین بابر ان پرفضا مقامات کو دیکھ کر پکار اٹھا کہ ’’ایں طفل کشمیر است‘‘۔

ماضی بعید میں اس خطے کی معلوم ادبی تاریخ مہابھارت سے شروع ہوتی ہے۔ پانڈوؤں اور کوروؤں کے درمیان لڑی گئی جنگ جسے طویل نظم مہابھارت میں رقم کیا گیا ہے پروفیسر انور بیگ اعوان کے مطابق اسی علاقے میں لڑی گئی۔ شعلہ بدن دروپدی جو اس جنگ کے اسباب میں سے ایک تھی اور اسی علاقے میں واقع ریاست پنجال کے راجہ کی بیٹی تھی۔

مہابھارت تقریباً پانچ ہزار سال قبل لکھی گئی۔ عہد قدیم میں کریٹس، پلوٹارک، البیرونی، ہیون سانگ اور ابن بطوطہ جیسے مورخین نے اس علاقے کے حالات قلمبند کیے ہیں۔کٹاس راج کے مقام پر زبان دانی کی شکنتلا یونیورسٹی واقع تھی جہاں البیرونی نے بھی سنسکرت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ظہیرا لدین بابر نے اپنی تزک بابری میں بھی اس علاقے کا ذکر کیا ہے۔

یہاں کے ایک قبرستان سے تصویری رسم الخط کی مہر بھی ملی ہے۔ پنجابی رسم الخط گُر مکھی بھی یہاں کے مقامی رسم الخط لنڈا سے اخذ کر کے ایجاد کیا گیا تھا۔ یہاں کی مقامی زبان دھنی کے قدیم رسم الخط’’خروشتری‘‘ کا کتبہ یہاں کے قصبہ میراتھرچک کے ایک کنوئیں سے ملا تھا، جو لاہور کے میوزیم میں موجود ہے۔قصبہ وٹلی کے فارسی گو صوفی شاعر میر قادر بخش نے 1184ء میں قلمی کتاب ’’گل بہار‘‘تحریر کی۔ ماضی قریب کی ادبی تاریخ میں دھنی کے مشہور شاعر پیلو ہو گزرے ہیں جن کی وفات 1675ء میں ہوئی انہوں نے نہ صرف مہروپیلو کی داستانِ عشق رقم کی بلکہ مرزا صاحباں کی داستانِ محبت کو پنجابی نظم کا جامہ بھی پہنایا۔

باوا شاہ مراد خان پوری کا دور عہد شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر کے قریب ہے وہ 1720ء میں فوت ہوئے۔ ان کے کلام میں تقریباً تمام اصناف سخن کے نمونے ملتے ہیں جن میں کبت، بنیت، دوہڑے، بارہ ماہ، مشنری، چوبرگے، مناجات، مدح، ہشتر نامہ، چوہرڑی، چرخہ اور غزل شامل ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق اردو کے پہلے غزل گو شاعر ولی دکنی کے بجائے شاہ مراد تھے۔ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش ؒ (متوفی 1906)نے بھی کلام شاہ مراد کی تعریف کی۔

شاہ چراغ چوہانوی (متوفی1857ء) بھی پنجابی کے عمدہ شاعر تھے۔ آپ کی ایک ضخیم کتاب ’’دار‘‘ اب ناپید ہو چکی ہے۔ آپ کے کلام کے نمونے زبانی ہی دستیاب ہیں۔ شاہ شرف مریدوی علاقہ دھنی اور ونہار میں اپنے پرسوز دوہڑوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ آپ کے دوہڑے خالص دھنی لہجہ کے نمائندہ ہیں۔ ان کا نمونہ کلام بھی بہت کم دستیاب ہے۔ آپ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں پیدا ہوئے اور چکوال کے نواحی قصبہ مرید میں دفن ہیں۔

ان قدیم شعراء کے بعد عبدالرحمن درد(مسوال پیدائش 1910 ء)،ذکاء اﷲ بسمل،ماجد صدیقی (نورپور سیتھی،پیدائش1938ء)،عابد جعفری (منگوال،پیدائش1924ء) اور پروفیسر باغ حسین کمال(پنوال پیدائش1937ء) نے اردو اور پنجابی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔

عبدالرحمن درد نے دو درجن کے قریب تصانیف کیں جن میں شاعری، قصے، دین، روحانیت اور پراسرار علوم پر مبنی کتب شامل ہیں۔

ماجد صدیقی نے مختلف موضوعات پر سو کے قریب تصانیف کیں۔پنجابی اور اردو کے معروف شعرا عابد جعفری نے شاعر اور باغ حسین کمال نے شاعری اور نثر میں عمدہ کام کیا اور ان کا کام ملک کے ادبی حلقوں میں بے پناہ سراہا گیا۔

کرنل محمد خان جیسے صاحب طرز مزاح نگار کا تعلق بھی چکوال سے ہے۔ ان کی تصانیف بجنگ آمد، بزم آرائیاں اور بسلامت روی اردو ادب کی ہمیشہ زندہ رہنے والی تصانیف ہیں۔ وہ 5اگست1910ء کو قصبہ بلکسر میں پیدا ہوئے اور23اکتوبر1999ء کو رخصت ہو گئے۔ ان کا کام اور شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور وہ بلامبالغہ اردو ادب کے ستون ہیں۔

نور زمان ناوک، حمید اﷲ ہاشمی، پروفیسر فتح محمد ملک،جمیل یوسف، منور عزیز، اختر شیرانی اور تابش کمال نے بھی موجودہ عہد میں ادبی حوالے سے چکوال کا نام سربلند کیا ہے۔ ممتاز محقق ڈاکٹر راجہ غلام سرور نے فارسی اردو اور انگریزی میں اکیس کتابیں تصنیف کیں۔ نعیم صدیقی کی شہرہ آفاق تصنیف محسن انسانیت کے سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

پروفیسر انور بیگ اعوان، صاحبزادہ سلطان علی زلفی بریگیڈیر گلزار احمد 36تصانیف، میجر جنرل محمد اکبر خان42تصانیف، بریگیڈئیر ایس کے ملک، ڈاکٹر آغا حسین ہمدانی22تصانیف(11قائداعظم پر لکھیں) اسد الرحمن قدسی28تصانیف، ڈاکٹر تصدق حسین راجا29تصانیف، مولانا اکرم اعوان منارہ21تصانیف، اور نعت گوئی پر دنیا میں سب سے زیادہ کام کرنے والے شاعر راجہ رشید محمود کی تقریباً132تصانیف ادب کا سرمایہ ہیں۔ چکوال کے کئی مصنفین نے عالمی سطح پر بھی اپنی تصانیف سے حصہ ڈالا، صحافت کے شعبہ میں انگریزی اور اردو کالم نگاری میں ایاز امیر کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ ناول نگار اور افسانہ نگار نگہت سیما نے بھی بے شمار کام کر رکھا ہے۔

چکوال کی سرزمین ادبی حوالے سے خاصی ذرخیز ہے۔ یہاں اب بھی ایسی نابغہ روزگار شخصیات کا ذکر باقی ہے جو علم ادب کے حوالے سے بہترین کام کر رہی ہیں۔ ان میں شاعر اور نثر نگار، افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں جن کا تذکرہ اس مختصر کالم میں ممکن نہیں۔ چکوال کے باسیوں نے نہ صرف اپنے خون سے مادر وطن کی حفاظت کی ہے بلکہ اپنے قلم سے ادب کی بھی خدمت کی ہے چنانچہ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر شیر محمد گریوال ماضی میں جب چکوال آئے تو انہیں کہنا پڑا کہ
’’چکوال کا ہر دوسرا آدمی سپاہی ہے اور ہر تیسرا آدمی شاعر‘‘حوالہ جات(انسائیکلوپیڈیا آف چکوال، دھنی ادب و ثقافت)
 

Dr Rahat Jabeen
About the Author: Dr Rahat Jabeen Read More Articles by Dr Rahat Jabeen: 22 Articles with 17917 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.