انسان کی بَدحالی اور قُرآن کا نظامِ خوش حالی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 56 تا 59 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ما نرسل
المرسلین
الا مبشرین و
منذرین ویجادل
الذین کفروا بالباطل لید
حضوا بہ الحق واتخذوا اٰیٰتی و
ما انذروا ھزوا 56 ومن اظلم ممن ذکر
باٰیٰت ربہٖ فاعرض عنہا ونسی ما قدمت یدٰہ انا
جعلنا علٰی قلوبھم اکنة ان یفقھوہ و فی اٰذانھم وقرا و
ان تدعھم الی الھدٰی فلن یھتدوا اذا ابدا 57 وربک الغفور ذو
رحمة لویؤاخذھم بما کسبوا لعجل لھم العذاب بل لھم لن یجدوا من
دونہٖ موئلا 58 وتلک القرٰی اھلکنٰھم لما ظلموا وجعلنا لمھلکھم موعدا 59
اے ھمارے رسول ! ھمارا اہلِ زمین کی طرف اپنے نمائندے بھیجنے کا مقصد اِس کے سوا کبھی بھی اور کُچھ نہیں رہا ھے کہ ھمارے یہ نمائندے اہلِ زمین کو خوش حالی کے راستے دکھائیں اور بَد حالی کے راستے سے بچائیں لیکن حق کے مُنکر اِن کے ساتھ صرف اِس لیۓ ہمیشہ جنگ آزما رھے ہیں تاکہ وہ اپنے اِس مشن میں ناکام ہو کر اِس سے دَست بردار ہوجائیں ، دیکھو ، سوچو ، سمجھو اور جانو کہ بَھلا اُس شخص سے زیادہ حق کا دُشمن انسان اور کون ہوسکتا ھے کہ جس کی عبرت و بصیرت کے لیۓ بساطِ عالَم پر ھمارے اَن گنت نشاناتِ راہ موجُود ہیں لیکن وہ اَندھا اِن سب کو دیکھے بغیر اَندھیروں میں بہٹک رہا ھے کیونکہ وہ یہ بات بُھول چکا ھے کہ اُس نے اپنے کَل کے لیۓ اپنے مَنفی اعمال کا جو مَنفی اَندوختہ جمع کر لیا ھے اُس کا مَنفی رَدِ عمل ظاہر ہو کر اُس کی زندگی کو زیر و زبر کرنے والا ھے اور وہ یہ بات بھی بُھول چکا ھے کہ مَنفی اعمال کا یہ مَنفی اَندھیرا جب کسی انسان پر مُسلط ہوجاتا ھے تو وہ حق سے بے بہرہ و بے بصیرت اور فہمِ حق سے محروم ہو کر خود پر حق کے سارے راستے ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ بند کر دیتا ھے اور چونکہ آپ کا پالنہار اپنے بندوں کے لیۓ بہت ہی پردہ پوش اور بہت ہی مہربان ھے اِس لیۓ وہ اِن کی عاجلانہ خواہش پر اِن کو کوئی عاجلانہ سزا نہیں دیتا کیونکہ اگر وہ حیات سے مایُوس لوگوں کو حیات سے مایُوس ہونے پر سزا دیتا رہتا تو آج زمین پر ایک بھی انسان زندہ نہ ہوتا کیونکہ ہر انسان کبھی نہ کبھی نااُمید بھی ہوتا ھے اور کبھی نہ کبھی پُر اُمید بھی ہوتا ھے ، اِس لیۓ ھم نے اپنے قانون کے مطابق ہر انسان کی جزا و سزا کا ایک وقت مقرر کردیا ھے ، جب وہ مقررہ وقت آجاۓ گا تو پھر اِن لوگوں کو اِدھر اُدھر ہونے کے لیۓ ایک بال برابر جگہ بھی نہیں دی جاۓ گی ، اور اگر آپ نے ھمارے اِس قانونِ جزا و سزا کا بچشمِ خود مُشاھدہ کرنا ھے تو زمین پر پھیلی ہوئی اُن تباہ حال بستیوں کا مُشاھدہ کر لیں جو اپنی زبانِ حال سے ھمارے عذاب سے گزرنے کی کہانی سُنا رہی ہیں ، اِن بستیوں کے آباد رہنے اور بر باد ہونے کا ایک مقررہ وقت ہوتا ھے اور ھم بخوبی جانتے ہیں کہ زمین کی کس بستی کی آبادی کے لیۓ کتنا وقت ھے اور کس بستی کی بربادی کے لیۓ کتنی مُہلت ھے !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورةُالکہف کی گزشتہ پانچ اٰیات میں سُورةُالکہف میں بیان ہونے والے پانچ واقعاتِ عبرت و بصیرت میں سے وہ تیسرا واقعہ بیان ہوا تھا جس کے مطابق اہلِ زمین کے ایک فَردِ مُقتدر کے طور پر آدم کو زمین کا اقتدار بخشا گیا تھا اور آدم کے اِس اقتدار کو اُس وقت کے ایک ابلیسِ وقت کے سوا اُس ساری مخلوق نے تسلیم کرلیا تھا جس کو آدم کا اقتدار تسلیم کرنے کا حُکم دیا گیا تھا لیکن اقتدارِ آدم کی اِس رَفت گزشت کا دُوسرا پہلُو یہ تھا کہ آدم و ابلیس کے درمیان اقتدار و اختیار کا جو معرکہ ہوا تھا اُس معرکے کے نتیجے میں آدم اپنی اُس پہلی فردوسی رہائش سے محروم ہو کر اِس دُوسری زمینی رہائش تک محدُود ہو گیا تھا جس پر آدم کی موجُودہ مُہاجر نسل آباد ھے ، اِس موقعے پر اِس تفصیل میں جانے کی ضروت نہیں ھے کہ ایک جانی پہچانی زمین سے ایک اَنجانی زمین پر قدم رکھنے والا انسان اِس اَجنبی زمین پر قدم رکھتے ہی ایک اَنجانے خوف اور خطرے سے دوچار ہو گیا تھا اور اُس خوف سے بچنے کے لیۓ وہ زمین کی ہر ایک چیز کو بچشمِ خود اِس لیۓ دیکھنا اور پرکھنا چاہتا تھا کہ کون سی چیز اُس کے لیۓ نفع بخش ھے اور کون سی چیز اُس کے لیۓ نقصان دہ ھے اور اِس خوف کے عالَم میں قُدرتی طور پر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ زمین کا کوئی جان دار ابلیس کی طرح اُس کے ساتھ نفرت نہ کرے اور اُس کو نقصان نہ دے بلکہ زمین پر جو جان دار بھی موجُود ھے وہ اُس سے محبت کرے اور غالباً آدم کے ساتھ زمین پر آنے والے ابنِ آدم اپنی اِن ہی فطری خواہشات کی بنا پر انسان کہلانے لگے تھے کیونکہ انسان کے بُنیادی مادے کا بُنیادی تقاضا ہی دیکھنا اور چاہنا یا پھر چاہنا اور دیکھنا ھے اور انسان جو اپنی چاہنے اور چاھے جانے والی اِن دو فطری خواہشات کا حامل تھا وہ قُدرتی طور پر اپنے اَن جانے مُستقبل کے بارے میں بھی یہ جاننا چاہتا تھا کہ اِس دُنیا میں اُس کا مُستقبل کیا ھے اور فطری طور پر انسان کے اِس سوال کا مقصد بھی اپنے بارے میں کُچھ اَچھا چاہنا اور اپنی چاہت کے مطابق کُچھ اَچھا سُننا ہی ہوتا تھا اور ہوتا ھے اِس لیۓ موجُودہ پانچ اٰیات میں پانچ مُختلف حوالوں سے انسان کے اِن ہی فطری سوالوں اور فطری جوابوں پر مُختلف زاویوں سے بحث کی گئی ھے اور انسان کو بتایا گیا ھے کہ خالق نے انسان کی تخلیق خیر کے لیۓ کی ھے اور اللہ تعالٰی انسان کی اِسی خیر کے لیۓ وقتاً فوقتاً زمین پر اپنے نمائندے بہیجتا رہا ھے اور اللہ کے وہ نمائندے ہمیشہ ہی انسان کو آنے والے وقت میں اُس کے قریب آنے والی خوشیوں کی خوش خبریاں دیتے رھے ہیں اور آنے والے وقت میں اُس کے قریب آنے والی خرابیوں سے بھی ہمیشہ اُس کو ڈراتے رھے ہیں اور غالباً انسان اپنی اِسی خواہش کی بنا بشر کے نام سے معروف ہوا ھے جس کا بُنیادی مفہوم ہی ایک بشارت پسند ہستی ھے ، اِس سُورت کی مُحولہ بالا پانچ اٰیات میں بظاہر پانچ مُختلف مضامین بیان کیۓ گۓ ہیں لیکن دَرحقیقت یہ مضامین اُسی ایک مضمون کے اَجزاۓ ترکیبی ہیں جو پہلی اٰیت کا پہلا مضمون ھے اور زمین پر رہتے ہوۓ ہر زمانے میں انسان کو جتنے بھی مسائل درپیش ہوتے ہیں اُن میں پہلا مسئلہ انسان کا حوش حال ہونا اور بَد حالی سے نجات پانا ھے اور قُرآن کی آفاقی و اَفلاکی زبان میں بشر کی حوش حالی سے ہَمکنار کرنے کے لیۓ تنزیل کی ایک معروف اصطلاح بشارت ھے جس کو قُرآن نے کم و بیش 33 مقامات پر استعمال کیا ھے اور انسان کو بَدحالی سے بچانے کے لیۓ تنزیل کی معروف اصطلاح تنذیر ھے جس کے سُنانے والے نبی یا رسول کو بشیر اور نذیر کہا گیا ھے لیکن اہلِ روایت نے یہ بات مشہور کر رکھی ھے کہ اللہ کے جو نبی اور جو رسول اہلِ زمین کی طرف بشیر اور نذیر بن کر تشریف لاۓ ہیں وہ انسان کو جنت کی خوشی دینے اور دوزخ سے خوف زدہ کرنے کے لیۓ تشریف لاۓ ہیں ، ہر چند کہ جزوی طور پر بشیر و نذیر کا یہ لُغوی مفہوم درست ھے لیکن اہلِ روایت نے جس طرح اِس کی تشہیر کی ھے اُس کا مطلب اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے کہ زمین پر اللہ کے جتنے بھی نبی اور جتنے بھی رسول تشریف لاۓ ہیں اُن کی تعلیم صرف یہ تھی کہ انسان ایک اَن دیکھی جنت اور ایک اَن دیکھی جہنم پر ایمان لے آۓ اور اِس ایک مسئلے کے سوا اُن کو انسان کے کسی اور مسئلے کے ساتھ کوئی بھی دل چسپی نہیں تھی حالانکہ اہلِ زمین کی طرف اللہ تعالٰی کے جتنے بھی نبی اور جتنے بھی رسول تشریف لاۓ ہیں وہ انسان کے جُملہ مسائل و معاملات کا ایک قابلِ عمل حل لے کر تشریف لاۓ ہیں ، قُرآنِ کریم نے اللہ تعالٰی کے تمام نبیوں اور تمام رسولوں کے لیۓ سُورةُالبقرة کی اٰیت 213 ، سُورةُالنساء کی اٰیت 165 ، سُورةُالاَنعام کی اٰیت 48 اور سُورةُالکہف کی اٰیت 56 میں "مُبشرین" اور "مُنذرین" کی جو صفات بیان کی ھے اُن کا یہی مفہوم ھے کہ اللہ کے تمام اَنبیاء و رُسل جو اپنے اپنے زمانے میں جن اہلِ زمین کی طرف تشریف لاۓ ہیں وہ اُن کی زندگی میں حوش حالی لانے اور اُن کی زندگی کو بَدحالی سے بچانے کے اِلٰہی وعدے کے ساتھ تشریف لاۓ ہیں ، اگر یہ اَمر مطلوب نہ ہوتا تو داوؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام ، یوسف علیہ السلام اور خود سیدنا محمد علیہ السلام کو زمین پر ایک دینی و سیاسی اور معاشی و معاشرتی حکومت کے قیام کی ضرورت ہی نہ ہوتی بلکہ اللہ کے یہ سارے نبی اور سارے رسول انسان کو جنت و دوزخ کی خبر سُنا کر دُنیا سے رُخصت ہو جاتے لیکن حقیقت یہی ھے کہ اللہ کے دین میں اللہ کی مخلوق کے مسائل و معاملات ہمیشہ سے شامل رھے ہیں اور جس دین میں انسان کی روٹی روزی کا معاملہ شامل نہیں ھے وہ ایک روایتی مُلا کا روایتی دین تو ہو سکتا ھے مگر اللہ تعالٰی کے قُرآن کا آفاقی دین ہر گز نہیں ہو سکتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458244 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More